بھارت میں ہونے والے انتخابات ہمارے لیے کچھ سوالات چھوڑ گئے ہیں۔ اگر ہم چاہیں توا ن پر غور کر سکتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ بھارت میں کسی نگران حکومت کے تماشے کے بغیر کیسے انتخابات ہو گئے؟ بھارت میں بھی ایک عدد سپریم کورٹ تھی اس کے کسی سابق چیف جسٹس کو نگران وزیر اعظم بنا کر نوازا جا سکتا تھا۔ کسی سیاسی یتیم کی 90 دنوں کے لیے لاٹری نکالی جا سکتی تھی تا کہ وہ ہر روز نیا سوٹ اور نئی ٹائی لگا کر بھارتی شہریوں کی سماعت کا امتحان لیتا رہتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہی حکومت برقرار رہی جس کی مدت ختم ہو رہی تھی اور انتخابات ہو گئے۔ اگر بھارت میں نگران حکومت کے نام پر سیاسی یتیموں کو مسلط کیے بغیر الیکشن ہو سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتے؟ کیا وجہ ہے کہ وہاں ایک سیاسی حریف کی حکومت کے ہوتے ہوئے انتخابات ہوتے ہیں اور معتبر انداز میں ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں غیر جانب دار نگران حکومت کا ایک لشکر جرار اترتا ہے ا ور وہ الیکشن کرواتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے الیکشن متنازعہ ہو جاتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ بھارت میں نگران حکومت کے نہ ہونے اور پاکستان میں نگران حکومت کے ہونے سے، ہر دو ممالک کے عوام کو ان کے حکمران کیا پیغام دے رہے ہیں؟
بھارت میں ایک حکومت اپنی مدت مکمل کرتی ہے اور الیکشن کے دوران اقتدار اسی کے پاس رہتا ہے اور الیکشن ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہمیں ایک نگران حکومت چاہیے ورنہ دھاندلی ہو جائے گی۔ تو کیا بھارت کے اہل سیاست اپنے عوام کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم اپنی مدت اقتدار ختم ہونے پر انتخابات کے دوران بھی حکومت میں رہے تو ہم الیکشن پر اثر انداز نہیں ہوں گے اور غیر جانب دار رہیں گے۔ جب کہ پاکستان کے اہل سیاست اپنے عوام کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی حکومت میں رہا تو لازمی طور پر بے ایمانی کرے گا، ہم اس قابل ہی نہیں کہ الیکشن کروا سکیں۔ اس لیے ایک نگران سیٹ اپ آئے گا جو الیکشن کروائے گا۔ کیا کوئی سماجی مطالعہ ہو سکے گا کہ ان دونوں رویوں کا عوام کی نفسیات پر کیا اثر پڑتا ہے؟ کیا پاکستان کے سیاست دان زبان حال سے خود کو بے ایمان اور نا قابل اعتبار قرار دے کر اپنے خلاف خود ہی فرد جرم عائد نہیں کر رہے کہ ہم میں اتنی دیانت اور اخلاقی قوت بھی نہیں کہ ہم الیکشن کروائیں اور اس میں بے ایمانی نہ کریں۔ نگران حکومتوں کا یہ بندوبست پاکستان کے اہل سیاست کا اعتراف جرم ہے ا ور اپنے اوپر عدم اعتماد ہے۔
اس کے بعد انہیں کسی سے یہ شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ ان کی توہین اور تذلیل کی جاتی ہے۔ وہ اگر خود اپنے آپ میں خیانت اور بد دیانتی کا عنصر غالب سمجھ کر قانون سازیاں فرماتے رہیں گے تو اس کے معاشرے کی فکری ساخت پر اثرات تو مرتب ہوں گے۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ بھارت کی آبادی پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے اور وہاں الیکشن کمیشن اچھے انداز سے الیکشن کروا لیتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ چھ گنا کم آبادی والے پاکستان کا الیکشن کمیشن ہر الیکشن میں تنازعات کا شکار ہو جاتا ہے؟ خرابی کہاں ہے اور کیوں ہے اور کب تک رہے گی؟ اتنی بڑی آبادی کے باوجود بھارت کے انتخابی عمل کا بھٹہ کیوں نہیں بیٹھتا؟ یعنی آپ چاہیں تو یوں سمجھ لیجیے کہ اس کا آر ٹی ایس کیوں نہیں بیٹھتا؟ اس کے ہاں فارم 45 اور47 کا تنازعہ کیوں نہیں کھڑا ہوتا؟ دلی میں کبھی کوئی کنٹینر کیوں نہیں لگا کہ اتنے حلقے کھولو ورنہ ہم لوک سبھا کے سامنے قبریں کھود رہے ہیں؟ کیا اتنے بڑے بھارت کے پاس کوئی ’ایک پیج‘ نہیں کہ وہاں کے تجزیہ کار بھی ہمارے تجزیہ کاروں کی طرح جاسوسیاں کریں کہ حکومت اور مقتدرہ ایک پیج پر ہیں یا نہیں؟ وہاں مارچ میں مارچ کی باتیں کیوں نہیں ہوتیں، اور وہاں ستمبر کو ستم گر کیوں نہیں کہا جاتا؟
چوتھے سوال کا تعلق الیکشن کمیشن کی فعالیت سے ہے۔ بھارت کا الیکشن کمیشن اپنے طور پر اصلاح احوال کے لیے بروئے کار رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں بھارت میں بھی ہماری طرح سب کو آزادی تھی کہ جتنے حلقوں سے کوئی چاہے الیکشن میں حصہ لے لے۔ یہ بھارت کا الیکشن کمیشن تھا جو اس معاملے کو سپریم کورٹ لے گیا اور یہ طے کروا لیا کہ ایک امیدوار زیادہ سے زیادہ دو حلقوں سے کھڑا ہو سکتا ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے اب وزارت قانون سے کہہ رکھ ہے کہ قانون میں مزید ترمیم کی جائے اور ایک آدمی کو صرف ایک حلقے تک محدود کر دیا جائے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے یہ تجویز بھی دے رکھی ہے کہ اگر ایک امیدوار کو ایک سے زیادہ حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینی ہے تو پھر ان حلقوں کے انتخابی اخراجات اس امیدوار یا اس کی جماعت سے وصول کیے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا الیکشن کمیشن اس طرح فعال کردار کیوں نہیں ادا کر سکتا۔ اور نا قابل عمل اور احمقانہ قسم کے قوانین اور چور دروازوں کو بند کرنے کے لیے وہ پارلیمان اور عدالت کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹاتا؟
پانچویں سوال کا تعلق الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے ہے۔ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن ایک فیصلہ کرتا ہے اگلے روز ہائی کورٹ اس پر سٹے دے دیتی ہے اور معاملات لٹک جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اہل سیاست ایک دوسرے کو طعنے دیتے ہیں کہ فلاں سٹے آرڈر کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ سٹے آرڈر موجود رہتا ہے یہاں تک کہ اسمبلی کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو الیکشن کمیشن کو عملا بے بس اور غیر فعال کر دیتی ہے۔ بھارت میں صورت حال مختلف ہے۔ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق پامال ہوتا رہتا ہے اور وہ بے چارہ منمناتا رہتا ہے کہ ایسا نہ کرو۔ دوسری جانب بھارت ہے، کسی کی جرات نہیں کہ الیکشن کمیشن کوئی حکم دے اور اس حکم کو پامال کر دیا جائے۔ اندرا گاندھی جیسی وزیر اعظم کو راستے میں حکم ملتا ہے کہ اب جب کہ ضمنی الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے آپ اس حلقے میں نہیں جا سکتیں، راستے سے واپس آ جائیں۔ اور وہ راستے ہی سے واپس آ جاتی ہیں۔ ابھی مارچ میں بھارتی سپریم کورٹ سے الیکشن کمیشن کے خلاف رجوع کیا گیا تو عدالت نے اس معاملے کو سننے سے انکار کر دیا۔
ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کو پنڈولم بنا دیا جاتا ہے۔ یہاں تو فیصلوں کے نام پر آئین ری رائٹ کر دیا جاتا ہے اور آگے سے کسی کی مجال نہیں کہ کوئی بات کر سکے۔ بلکہ ری رائٹ کیا یہاں تو آئین کے پا مال ہوتے رہنے کی بھی ایک پوری داستان ہے۔ بھاری انتخابات کے نتائج کیا رہے، یہ ثانوی چیز ہے۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ یہ انتخابات ہمارے لیے جو سوالات چھوڑ گئے ہیں کیا ہم ان پر غور کرنے کو تیار ہیں؟
0 Comments