پہلے سوال کا تعلق تحریک انصاف اور حکومت دونوں سے ہے۔ تحریک انصاف سے پوچھا جانا چاہیے کہ اس کی قیادت عام کارکنان سے تو یہ اپیل کر رہی تھی کہ بچوں اور فیملیوں سمیت اس احتجاج کا حصہ بنیں تو کیا پارٹی قیادت بھی اپنے بچوں اور فیملیوں سمیت اس احتجاج میں شامل ہوئی۔ کے پی حکومت کے وزیر اعلی کیا اہل خانہ سمیت اس احتجاج میں شریک تھے؟ عمر ایوب صاحب کے بچے اور اہل خانہ کیا اس احتجاج میں شامل تھے؟ کیا کے پی کے کی کابینہ اپنے بچوں اور اہل خانہ سمیت احتجاج کا حصہ بنی؟ کیا حماد اظہر کے اہل خانہ شریک ہوئے؟ یہ سیاست کا ایندھن صرف عام کارکن کو ہی کیوں بنایا جاتا ہے؟ اسی طرح حکومت سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ عام کارکن پر تو اس نے قانون نافذ کر دیا، سوال یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور اور بشری بی بی ڈی چوک سے نکلنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ راستے سارے بند تھے، سڑکیں ساری بند تھیں، یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ ڈی چوک سے نکلے اور مانسہرہ تک کوئی ان کی راہ میں حائل ہوا۔ یہ کیسا بندوبست تھا کہ ڈی چوک سے وہ لوگ آرام سے نکل گئے، جو کارکنان کو اکسا کر لائے تھے اور کوئی ان کی راہ میں مزاحم نہ ہوا۔
جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیا یہ ممکن ہے کہ چاروں اطراف سے گھیرے میں لیے گئے ڈی چوک میں سے قیادت گاڑی بھگا کر نکل جائے اور اسلام آباد کے تین درجن ناکوں سے بحفاظت نکل کر مانسہرہ پہنچ جائے۔ قانون کا اطلاق سب پر کیوں نہیں ہوا؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ حزب اقتدار کی اشرافیہ نے حزب اختلاف کی اشرافیہ کی موقع سے فرار میں پوری سہولت کاری کی؟ اور دونوں کے ہاں اس بات پر اتفاق ہے کہ عوام کی حیثیت سیاست کی اس بساط پر رکھے مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ بادشاہوں، وزیروں اور ملکہ کو بچانا ہے، ان کے کھیل اور ان کے شوق سلامت رہیں، اس کھیل اور اس شوق میں مہروں کی کوئی اوقات نہیں۔ یہ بڑا ہی اہم اور بنیادی سوال ہے کہ سیاسی قیادت کی نظر میں کارکن کی حیثیت کیا ہے؟ وہ ایک زندہ انسانی وجود ہے یا وہ قربانی کا بکرا ہے جسے بار بار ریاست کی انتظامی قوت سے ٹکرایا جاتا ہے؟ معاملات کے حل کے لیے سیاسی بصیرت سے کام کیوں نہیں لیا جاتا؟ کیا سیاسی جماعت کو اپنے کارکنان کے لیے عافیت تلاش کرنی چاہیے یا ان کے جذبات میں آگ لگا کر انہیں احتجاجی سیاست کا ایندھن بنا دینا چاہیے؟
یہ سوال ان وکیلوں کے بارے میں بھی ہے جو اچانک ہی پارٹی رہنما قرار پائے یا وہ جو پہلے سے ہی اس پارٹی کے رہنما تھے۔ ان میں سے کتنے تھے جو اس احتجاج میں شریک ہوئے؟ کیا ان میں سے کوئی اپنے بچوں اور اہل خانہ کو بھی لے کر آیا؟ کیا پولیس سے ٹکرانے، اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے لیے ہمیشہ غریب کارکن کا ہی جذباتی استحصال کیا جاتا رہے گا؟ کیا کہیں بیرسٹر گوہر نظر آ ئے؟ سلمان اکرم راجہ کہاں تھے؟ حامد خان صاحب نے کن قافلوں کی قیادت کی؟ غریب کا بچہ ہی کیوں؟ تحریک انصاف کے کارکنان کو سوچنا چاہیے کہ اس احتجاج کا مقصد کیا تھا اور کیا وہ مقصد حاصل ہو سکا؟ متعدد مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور ہو چکی ہے اور جو چند ایک مقدمات باقی ہیں ان کی نوعیت اتنی سنگین نہیں ہے اور امکان تھا کہ ایک ڈیڑھ ماہ میں ان میں بھی ضمانت ہو جائے گی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ تحریک انصاف اگر اس موقع پر احتجاج کرے گی تو احتجاج میں اگر کچھ ناخوشگوار واقعہ ہو گیا تو اس کا مقدمہ قیادت پر قائم ہو گا اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ عمران خان پر دس بیس مزید ایف آئی آر ز درج ہو جائیں گی۔
یعنی اس احتجاج کا مقصد اگر عمران خان کو جیل سے نکالنا تھا تو یہ مقصد پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اگر اس کا مقصد یہ تھا کہ عمران خان باہر نہ آنے پائیں تو توقع تھی کہ یہ مقصد کامیابی سے حاصل کر لیا جائے گا۔ فائنل کال کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ رینجرز اہلکار بھی شہید ہو چکے، پولیس کے آنگن میں بھی لاشہ رکھا ہے اور خود تحریک انصاف بھی اپنے کارکنان کے لاشوں پر دکھی بیٹھی ہے۔ تحریک انصاف چاہے تو اس سوال پر غور کر لے کہ کے پی حکومت کے وسائل کے سہارے وفاق پر اس یلغار کے بعد عمران خان کی رہائی، اب آسان ہو گئی ہے یا اسے مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کے پی سے لائے گئے کارکنان کو اس احتجاج میں، قیادت کی جانب سے صرف ایک صوبے، یعنی کے پی کے لوگوں کو بہادری کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب کیوں دی جاتی رہی؟ یہ اگر بہادری تھی تو اس بہادری میں شمولیت کی ترغیب پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو بھی دی جاتی۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ تحریک انصاف بھی سکڑ کر ایک صوبے کی جماعت بن چکی؟ یاا س سے یہ تا ثر لیا جائے کہ چونکہ اقتدار اسی صوبے میں تھا اس لیے حکومتی وسائل سے مستفید ہونے کے لیے اس صوبے پر فوکس کیا گیا؟
یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ کارکن کو غیرت مندی کا تازیانہ لگا کر جو قائدین اپنے ساتھ لائے، جب وہی کارکن زخمی ہو رہے تھے تو وہ قائدین وہاں سے ایسے بھاگے کہ مانسہرہ تک پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ کارکنان کا رویہ اگر غیرت مندی کہلا سکتا ہے تو قیادت کا رویہ کیا کہلائے گا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ تحریک انصاف کا فیصلہ ساز کون ہے۔ کے پی حکومت کا ترجمان ان افواہوں کی تصدیق کر رہا ہے کہ عمران خان متبادل جگہ پر دھرنے پر قائل ہو گئے تھے، پارٹی لیڈر شپ کا بھی یہی فیصلہ تھا لیکن بشری بی بی نے کہا کہ ہر حال میں ڈی چوک جانا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے فیصلے کہاں ہونے چاہییں اور یہ فیصلے کون کر رہا ہے؟ پارٹی میں ایک تنظیم موجود ہے، اس میں سینییر قانون دان ہیں، صوبے میں ایک حکومت ہے، ایک کابینہ ہے۔ فیصلوں کا اختیار ان کے پاس کیوں نہیں؟ بشری بی بی کے پاس تحریک انصاف کا کون سا عہدہ ہے کہ وہ پارٹی میں فیصلہ ساز بنی بیٹھی ہیں۔ اسے موروثی سیاست قرار دیا جائے یا اسے بھی ماسٹر سٹروک قرار دے کر اس کی داد و تحسین کی جائے؟ بیرسٹر گوہر اس جماعت کے چیئرمین ہیں۔ کیا ان کے پاس فیصلوں کا کوئی اختیار بھی ہے؟ کیا احتجاج کے کسی بھی مرحلے پر فیصلہ سازی میں ان کا بھی کوئی کردار تھا؟
0 Comments