Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

شام کی کنجی ترکیہ کے ہاتھ میں

ترکیہ ایردوان کے دور میں عہدِ رفتہ کی شان و شوکت حاصل کرنے اور دنیا میں سپر قوت بننے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ترکیہ نے خطے میں اپنی دھاک بٹھانے کیلئے آرمینیا کے ساتھ مغربی ممالک کے گٹھ جوڑ کو ایسے ناکام بنایا کہ آرمینیا، جس نے آذربائیجان کی سرزمین بالائی قارا باغ پر قبضہ کر رکھا تھا، بڑی خاموشی اور اسٹرٹیجی سے اپنے ڈرونز اور فوجی قوت سے اسے آرمینیا کے قبضے سے نہ صرف آزاد کروایا بلکہ اسے مجبور بھی کیا کہ وہ بالائی قارا باغ کو آذربائیجان کی سرزمین کے ایک حصے کو طور پر تسلیم کرے۔ آرمینیا جسے مغربی ممالک اور خاص طور پر فرانس کی پشت پناہی حاصل تھی، ترکیہ کی عسکری قوت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بالائی قارا باغ کو آذربائیجان کی سرمین تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ علاوہ ازیں ترکیہ نے لیبیا پر اپنی گرفت قائم کی اور وہاں عرب ممالک کے ساتھ ساتھ فرانس کو ایک بار پھر پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ ترکیہ شام میں روس ایران گٹھ جوڑ اور امریکہ اور کردوں کے گٹھ جوڑ اور شامی پناہ گزینوں کی ترکیہ میں پناہ کی وجہ سے جن مشکلات میں گھرا ہوا تھا وہاں سے بھی نکلنے میں نہ صرف کامیاب ہو گیا بلکہ اس نے اپنے ہمسایہ ملک ایران اور روس کی شام پر مکمل گرفت کو نہ صرف ختم کیا بلکہ سلطنتِ عثمانیہ کے بعد پہلی بار شام میں اپنے لیے راہ ہموار کر لی۔

ترکیہ اپنی فوجی قوت کے بل بوتے پر خطے میں سپر طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے خطے میں بیک وقت متعدد قوتوں کا نہ صرف مقابلہ کرتا چلا آرہا ہے بلکہ ان تمام قوتوں کو شام میں پس قدمی پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ ترکیہ نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر اہم کردار ادا کرنے والے ملک کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس نے یوکرین – روس جنگ کے دوران اور خاص طور پر غلے کی عالمی منڈیو ں تک رسائی کے لیے جو اقدامات کیے ہیں اقوام متحدہ ہی نے نہیں بلکہ روس، یوکرین اور امریکہ تک نے ترکیہ کے اس رول کی دل کھول کر تعریف کی ہے جس سے عالمی سطح پر ترکیہ کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔ شام میں ترکیہ کا جارحانہ انداز اور غزہ پر اس کا مضبوط موقف مشرق وسطیٰ کی تشکیل نو کے اسکے عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔ 27 نومبر کو شروع ہو کر 8 دسمبر کو برپا ہونیوالے شام کے انقلاب میں ترکیہ کے کردار کے بارے میں امریکہ کے نو منتخب صدر ٹرمپ نے ترکیہ اور صدر ایردوان کی ذہانت اور خطے میں ان کو حاصل بلند مقام اور گرفت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ’’شام کی کنجی ترکیہ اور ایردوان کے ہاتھوں میں ہے اور امریکہ ترکیہ کے ساتھ مل کر شام کے مسئلے کو لازمی طور پر حل کر لے گا کیونکہ ترکیہ اس مسئلے کو حل کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہےاور خطے میں ترکیہ کے کردار کے بغیر امن ممکن نہیں‘‘۔

صدر ایردوان نے گزشتہ ہفتے ترکیہ کی قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے گروپ اجلاس میں پہلی بار شام کے انقلاب پر اپنی خوشی کا اظہار سورۃ الفتح پڑھ کر کیا اور انہوں نے61 سالہ بعث پارٹی کی اسد حکومت کے خاتمے پر رب کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ’’میں اپنے شامی بھائیوں کو دل کی گہرائیوں سے فتح پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت کہ 13 سالہ بغاوت کو 12 دنوں میں فتح کا تاج پہنایا گیا جو بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایردوان نےاس موقع پر اسد کے ساتھ ملاقات کی پیشکش کو دہرایا اور کہا کہ اسد نے جواب دینے کی ضرورت تک محسوس نہ کی اور اب اسدکا شام میں نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ صدر ایردوان نے علاقے میں موجود دہشت گرد تنظیموں جن میں ترکیہ کے خلاف برسر پیکار دہشت گرد تنظیم پی کے کے اور وائی پی جی پیش پیش ہیں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ علیحدگی پسند مجرم یا تو اپنے ہتھیاروں کو الوداع کہہ دیں گے یا اپنے ہتھیاروں کے ساتھ شامی سرزمین میں دفن کر دیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے امریکہ کے وزیر خارجہ انتونی بلنکن سے ٹیلی فون پربات چیت کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ آئندہ شام میں امریکہ کی پشت پناہی کرنے والی ان دہشت گرد تنظیموں کا کوئی کردار نہیں ہو گا اور نہ ترکیہ اس کی اجازت دے گا۔

صدر ایردوان نے اپنے خطاب میں بعث حکومت کی تباہی کے بعد نئے شام کی تعمیرنو کیلئے بین الاقوامی امدادی فنڈ بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دنیا بالخصوص عرب ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ آگے بڑھیں اور شام کی تعمیر نو میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، اسد کے جبر اور شام میں جنگ سے ہونے والی تباہی کی کل قیمت 500 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ جنگ زدہ شام کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ عالمی برادری کی حمایت کے بغیر اتنا بوجھ خود اٹھا سکے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ جس طرح ہم نے اپنے شامی بھائیوں کو 13 سال تک تنہا نہیں چھوڑا اسی طرح اب سے ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ان کا مکمل ساتھ دیں ۔ انہوں نے شام کے نئے رہنما احمد الشرع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انقلابی سے سیاستدان بننے میں حیران کن کارکردگی دکھائی ہے اور انہوں نے ملک کو بڑے احسن طریقے سے منظم کیا اور اعتدال پسند اور تعمیری پیغامات دیتے ہوئے سب لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔ ترکیہ شام کو توانائی سے لیکر نقل و حمل تک، شہری منصوبہ بندی سے لیکر تعلیم اور صحت تک، سلامتی سے لیکر تجارت تک ہر شعبے میں مدد دے گا۔ صدر ایردوان نے شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے بارے میں کہا ہے کہ ہم کسی کو زبردستی شام نہیں بھجوائیں گے جو شامی باشندے ترکیہ میں رہ کر ترکیہ کی اقتصادی، علمی، سائنسی اور تجارتی زندگی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں وہ ترکیہ میں قیام کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments