tag:blogger.com,1999:blog-14645736849733208262024-03-27T18:55:33.312+05:00Pakistan AffairsFind news, multimedia, reviews and opinion on Pakistan, politics, sports, economy, travel, books, education, ...KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.comBlogger8505125tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-91738710384931061612024-03-17T18:38:00.005+05:002024-03-17T18:38:53.252+05:00شہباز شریف کی کمزور مخلوط حکومت کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi7SPCbf6MtQ9FdNNdDdbCzUaiFn5lRu14AlhIw1kLWhS0tT5lAHelndWwhryjOoEUR7Qo-xMqimdICx80FfUzg9HkHN4A9FtzdrlW6Xn4se60XRk_ndB6watpERM2TirtY75m0OidXnCt6R1KZkODqXN6L9qjH-Mjkm_6iYpCp-Yg_PqYtWhjqokKYICuq/s1200/Shehbaz%20Sharif%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="900" data-original-width="1200" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi7SPCbf6MtQ9FdNNdDdbCzUaiFn5lRu14AlhIw1kLWhS0tT5lAHelndWwhryjOoEUR7Qo-xMqimdICx80FfUzg9HkHN4A9FtzdrlW6Xn4se60XRk_ndB6watpERM2TirtY75m0OidXnCt6R1KZkODqXN6L9qjH-Mjkm_6iYpCp-Yg_PqYtWhjqokKYICuq/w400-h300/Shehbaz%20Sharif%203.jpg" width="400" /></a></div>نو منتخب وزیراعظم نے اقلیتی حکومت جوکہ مختلف جماعتوں کو ساتھ ملا کر بنائی گئی ہے، کے لیے جرات مندانہ اہداف طے کر لیے ہیں۔ انہوں نے خطرات کے پیش نظر ملکی حالات کو بہتر کرنے کا عزم کیا ہے۔ بطور وزیراعظم شہباز شریف کا پہلا عہد ختم ہونے کے چند ماہ بعد ہی وہ دوسری بار برسرِاقتدار آئے ہیں۔ تاہم اس بار کمزور حکومتی اتحاد کو درپیش مسائل اور چیلنجز پہلے کی نسبت زیادہ تشویشناک ہیں۔ ان کے پہلے دورِ حکومت میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا اور ان کی نئی حکومت کو بھی متوقع طور پر پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 8 فروری کے عام انتخابات کی قانونی ساکھ پر اٹھنے والے سوالات، نئی حکومت کے لیے اچھا آغاز نہیں ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کے فلور پر جو ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی، وہ ملک میں بگڑتے ہوئی سیاسی تقسیم کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی تقسیم کی وجہ سے سیاسی استحکام حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے جو اس وقت ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ ماحول میں شہباز شریف کی سیاسی مفاہمت کی کال کا کسی نے مثبت جواب نہیں دیا کیونکہ خواتین سمیت سیکڑوں سیاسی قیدی اب بھی بغیر کسی مقدمے کے جیل میں قید ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہے جس نے موجودہ سیاسی ماحول میں مزید بگاڑ پیدا کیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم نے ابھی اپنی کابینہ کا اعلان نہیں کیا لیکن اس کی تشکیل کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ وزارتوں پر اتحادیوں کے ساتھ اب بھی کچھ مسائل ہیں جو حل طلب ہیں جبکہ شہباز شریف کے لیے تمام چھ اتحادی جماعتوں کو بیک وقت خوش رکھنا مشکل ہو گا۔ اس کے علاوہ متوقع طور پر اس مشکل وقت میں پرانے چہروں کی اقتدار میں واپسی سے زیادہ امید نہیں کہ حکومت ڈیلیور کر پائے گی۔ بلاشبہ اصل فیصلہ بڑے بھائی نواز شریف کے اختیار میں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کی اپنی ترجیحات ہیں۔ تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت کون چلائے گا؟ اگرچہ ’معاشی گرو‘ کے طور پر اسحٰق ڈار کی واپسی کے امکانات کم ہیں لیکن انہیں مکمل طور پر اس دوڑ سے باہر تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بطور وزیرِخزانہ ان کی واپسی ملک کے معاشی مستقبل کے لیے بری خبر ہو گی۔ تاہم وزارتِ خزانہ کی کرسی کے لیے ان کے علاوہ دیگر ناموں پر بھی غور کیا جارہا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjYchJ7CEq_VIh10TkIu6TbkLQGkEe4wSpD01P58QzvF8t13CHZmK08w6Qq5VmdOqYETJ3Rqv2Q5w3PGhiASoyIf2VbofR-GnN1yZH2nnU64mZZD3sNWSPmpkbIfhuyLxNsdEPPJ_9hnWIVd8IzR86G9DHkAj5M1glV4GjX7TozCeMRNhqxrSGiTF66ZX1E/s3500/Shehbaz%20Sharif%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2100" data-original-width="3500" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjYchJ7CEq_VIh10TkIu6TbkLQGkEe4wSpD01P58QzvF8t13CHZmK08w6Qq5VmdOqYETJ3Rqv2Q5w3PGhiASoyIf2VbofR-GnN1yZH2nnU64mZZD3sNWSPmpkbIfhuyLxNsdEPPJ_9hnWIVd8IzR86G9DHkAj5M1glV4GjX7TozCeMRNhqxrSGiTF66ZX1E/w400-h240/Shehbaz%20Sharif%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">البتہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت سخت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ایسے فیصلے کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ ساختی اصلاحات پر کام شروع کیا جا سکے۔ نئی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج طویل عرصے سے زیرِ التوا ریاستی اداروں کی نجکاری کا عمل شروع کرنا ہو گا۔ یہ ادارے معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اس حوالے سے سخت تحفظات ہیں مگر اس معاملے پر دیگر اتحادی جماعتوں کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔ نجکاری کا معاملہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے اور اکثریت سے محروم کمزور حکومت جس کی بقا مکمل طور پر اتحادی جماعتوں پر منحصر ہے، ایسی حکومت کے لیے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت دیگر ریاستی اداروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔ یہ واضح رہے کہ ان اداروں سے سرکاری خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ تاہم اقتصادی پہلو کے حوالے سے ایک اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ نئی حکومت قرضوں کی بدترین صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وزیراعظم شہباز شریف نے افسوس کا اظہار کیا کہ پوری وفاقی حکومت کے اخراجات قرضے کی رقم سے پورے کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کو فنڈز کی منتقلی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔ یہ یقیناً ملک کی مالی پریشانیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شہباز شریف نے قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نمٹنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے تمام صوبوں کے اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں اتفاقِ رائے ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے بالخصوص خیبرپختونخوا جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ موجودہ انتظامات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہو گی جو موجودہ محاذ آرائی کے ماحول میں ہونے کا امید نہیں۔ شہباز حکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈ کے لیے بات چیت کرنا ہو گا جوکہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پاکستان نے گزشتہ موسم گرما میں آئی ایم ایف کے قلیل مدتی بیل آؤٹ کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹال دیا تھا لیکن آئی ایم ایف کا یہ پروگرام جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔ چند ہفتوں میں ایک نئے پیکیج کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ بات چیت شروع ہونے کی امید ہے۔ آئی ایم ایف نے پہلے ہی اپنی شرائط پیش کر دی ہیں اور حکومت کو کسی بھی نئے معاہدے سے پہلے ان شرائط پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ ان میں سے کچھ شرائط تو ایسی ہیں جن سے پہلے سے عدم استحکام کا شکار حکومت مزید غیر مقبول اور اس پر شدید سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ شہباز شریف کی پچھلی حکومت جس میں اسحٰق ڈار وزیرخزانہ تھے، اس حکومت کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ البتہ آخری لمحات میں دیے گئے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی بدولت ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ خود آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کی جانب سے سخت فیصلہ سازی کی ضرورت ہے نہ کہ مذاکرات میں ان کی براہِ راست شرکت کی۔ ایسے میں اسحٰق ڈار کی واپسی کا کوئی بھی امکان تباہ کُن ثابت ہوسکتا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معاشی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اقتدار میں موجود جماعتوں پر بڑے پیمانے پر انتخابی نتائج میں جوڑ توڑ کے الزامات سے کسی بھی مفاہمت کی کوشش کا کامیاب ہونا ناممکن لگتا ہے۔ اس بگاڑ کو دور کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔ لیکن صرف معیشت نہیں بلکہ داخلی سلامتی سے متعلق مسائل بھی درپیش ہیں جن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے عسکریت پسندوں کو دہشت گردی تیز کرنے کا بھرپور موقع دیا ہے اور وہ سیکیورٹی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی زیرِقیادت خیبرپختونخوا حکومت اور وفاق کے درمیان کوئی بھی محاذ آرائی ملک کی داخلی سلامتی کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو گی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں، ایسے میں بہت کم امید ہے کہ ان کے درمیان معاملات ٹھیک ہوں گے۔ ایسی حکومت جس کے مینڈیٹ پر شکوک و شبہات ہوں، ملک میں وہ استحکام نہیں لا سکتی جس سے حالات میں بہتری آسکے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">زاہد حسین </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-88453769850450788182024-03-07T17:33:00.001+05:002024-03-07T17:33:14.409+05:00سول ملٹری تعلقات<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiDDgW1bupMV7_AZUqVRcc9AHJsJpwn0F4t7Dqj-qcDqM4uoXOC4SS4J1CrrdtD0qbsqA56mZfirsH-KTzOQdg0vUzLYCcehGuAQyIu5doT6KYSG5EfMXwqrb3lABQcXApr-QSJ8LFWLTct_5aOuEfNVNiWk5oc28L_u4Td4NlU92Kqd9cSRlPAW1gJZjJY/s1800/Pakistan%20civil%20and%20military%20relations%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1222" data-original-width="1800" height="271" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiDDgW1bupMV7_AZUqVRcc9AHJsJpwn0F4t7Dqj-qcDqM4uoXOC4SS4J1CrrdtD0qbsqA56mZfirsH-KTzOQdg0vUzLYCcehGuAQyIu5doT6KYSG5EfMXwqrb3lABQcXApr-QSJ8LFWLTct_5aOuEfNVNiWk5oc28L_u4Td4NlU92Kqd9cSRlPAW1gJZjJY/w400-h271/Pakistan%20civil%20and%20military%20relations%203.jpg" width="400" /></a></div>حکومتیں چاروں صوبوں میں بن چکی ہیں۔ وفاق میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کسی حد تک کنٹرول میں آچکی ہے خصوصاّ جو پچھلے دو سال سے تھی مگر اب بھی خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ یہ خطرہ دوبارہ بھی جنم لے سکتا ہے، اگر نئی حکومت ملک میں معاشی استحکام نہیں لا سکی، اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو یقینا ہمیں مستقبل میں ترقی کے راستے بند ملیں گے۔ ہمارا ملک وجود میں آنے کے بعد چھبیس سال تک آئین سے محروم رہا، کسی آزاد اور خود مختار ریاست کے لیے یہ بہت بڑی کمزوری ہے اور موجودہ آئین پر ہم چلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ برصغیر میں پاکستان سب سے زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حقیقتیں مختلف تھیں اور یہ کہ ہم سرد جنگ کے زمانوں میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر کیپٹلسٹ طاقتوں کے اتحاد کا حصہ رہے۔ یہ کام نہ ہندوستان نے کیا نہ ہی بنگلا دیش نے۔ جواہر لعل نہرو نے 1961 میں یوگوسلواکیہ کے صد ر مارشل ٹیٹو اور دیگر غیرمنسلک ریاستوں کے ساتھ مل کرایک تنظیم بنا لی جب کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اس خطے میں اسٹر ٹیجک حکمت عملی کے تحت اپنے تعلقات چین کے ساتھ استوار کرنا شروع کر دیے، کشمیر کا مسئلہ ہمیں ورثے میں ملا۔ اس دور میں کہیں یہ گمان نہ تھا کہ چین دو دہائیوں کے بعد اس دنیا کی ایک بڑی فوجی و معاشی طاقت بن کر ابھرے گا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ہمارے تعلقات امریکا سے بہت گہرے تھے۔ پاکستان پر مسلط تمام آمروں پر امریکا کا ہاتھ تھا اور جب بھی اس ملک میں جمہوریت یا ایسا کہیے کہ معذور جمہوریت کا نفاذ ہوا، اس جمہوریت کو بھی امریکا کا گرین سگنل ہوتا تھا، لیکن جب جب اس ملک میں جمہوریت آئی، وہ عوام کی طاقت سے آئی اور جب اس ملک پر آمریت مسلط ہوئی، اس کی بنیادی وجہ بھی ہماری سماجی پسماندگی تھی۔ امریکا و پاکستان کے منسلک مفادات میں کہیں بھی جمہوریت کا نفاذ نہ تھا۔ افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد جب شمالی ہند اور وسط ایشیا میں امریکا کے اسٹرٹیجک مفادات میں تبدیلی آئی تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے C-130 کو گرتے بھی دیکھا گیا اور بارہا آئین کے آرٹیکل 58 (2) (b) کا اطلاق بھی، اسامہ بن لادن کی موت بھی۔ 9/11 کے بعد جب ان کو ہماری ضرورت پڑی، جنرل مشرف دس سال کے لیے مسلط کیے گئے۔ اس خطے میں چین کی ابھرتی طاقت نے امریکا کو پریشان کر دیا اور اس طاقت کو کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکا نے ہندوستان سے اپنے تعلقات کو فروغ دیا۔ہم نے اپنی خارجہ پالیسی ، ہندوستان کی طاقت اور اثر ورسوخ کے پس منظر میں دیکھی، یہ ہماری غلط پالیسی تھی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhkDmAlpbiwrVHzZ6GRa7FycdUwlUvFJZ7-NSKYZLBRcc47jw-mjcNgT8MfUw6c43RCcVfyRRAJqUAMgf-j5jCtCOZrPjS6TqVTjtjc3Iq-LFpFvaUEoeSPW3-xO012HDPOtJnlJN7_NoDR3qFw307hZ8KM6qXHoNOZwI7MA29KrGPnpoDjq6kFuzpxvwcv/s1279/Pakistan%20civil%20and%20military%20relations%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="868" data-original-width="1279" height="271" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhkDmAlpbiwrVHzZ6GRa7FycdUwlUvFJZ7-NSKYZLBRcc47jw-mjcNgT8MfUw6c43RCcVfyRRAJqUAMgf-j5jCtCOZrPjS6TqVTjtjc3Iq-LFpFvaUEoeSPW3-xO012HDPOtJnlJN7_NoDR3qFw307hZ8KM6qXHoNOZwI7MA29KrGPnpoDjq6kFuzpxvwcv/w400-h271/Pakistan%20civil%20and%20military%20relations%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس زمانے میں میاں نواز شریف کی سوچ یہ تھی پاکستان کے بارڈر کم از کم باہمی تجارت کے لیے کھول دیے جائیں۔ نوازشریف صاحب نے ہندو ستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھائے۔ ہندوستان کے وزیر ِ اعظم باجپائی صاحب نے پاکستان کا دورہ کیا۔ مینار پاکستان آئے اور اس زمرے میں باجپائی صاحب نے یہ مانا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ پھر کیا ہوا؟ کارگل کا محا ذ کھل گیا اور میاں صاحب کی حکومت چلی گئی۔ اگر امریکا میں 9/11 کا واقعہ نہ ہوتا اور امریکا کے صدر بش جونیئر نہ ہوتے تو یہاں جنرل مشرف مشکل سے دو سال ہی حکومت کرتے۔ میاں صاحب نے جب دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو ان کا یہ ایجنڈا بھی تھا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب سے مکمل صفایا کریں، میاں صاحب کالا کوٹ پہن کے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ میمو گیٹ کھلا۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے فارغ کیا گیا، یوں چارٹر آف ڈیموکریسی کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ اس وقت تک خان صاحب میدان میں اتر چکے تھے۔ جب خان صاحب نے نواز شریف کی حکومت میں ڈی چوک پر دھرنا دیا تو پیپلز پارٹی اس مشکل وقت میں اگرمیاں صاحب کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو صو رتحال مختلف ہوتی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پھر امریکا میں فسطائیت سوچ کی حامی ٹرمپ حکومت آگئی۔ ادھر یوسف رضا گیلانی کے بعد ایک اور منتخب وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو چلتا کر دیا گیا۔ جس طرح خان صاحب کو اقتدار میں لایا گیا وہ بھی لاجواب ہے۔ خان صاحب نے ملکی سیاست کو ٹی ٹو نٹی میچ بنا دیا۔ پتا یہ چلا کہ خان صاحب کے پیچھے ایک بین الاقوامی لابی تھی لیکن یہاں جو ان کے لوکل ہینڈلرز تھے انھوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہاں ٹرمپ صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پاکستان میں دو نظرئیے ہیں۔ ایک پارلیمنٹ کی برتری اورآئین کی پاسداری کی سوچ اور دوسری اسٹبلشمنٹ اور ارسٹوکریسی کی سوچ جس میں جمہوریت کو ملک کے لیے بہتر سمجھا نہیں جاتا۔ ان دونوں نظریوں میں جو تضاد ہے، اس تضاد کو ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف استعمال کیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی ساکھ اور سالمیت کے لیے ان دونوں سوچوں کو قریب لایا جائے۔ بہت دیر ہوچکی اب! ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں ہمیں بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جس کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑے تو اس ملک میں خانہ جنگی جنم لے سکتی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ہمارے ملک کی صوبائی حکومتوں، عدالتوں اور تمام اداروں اس بات کا علم ہونا چاہیے۔ ہم نے جو ٹرینڈ شروع سے اپنائے تاریخ کو مسخ کرنے کے، فیک نیوز، سیاستدانوں کو بدنام کرنا، جمہوریت کے خلاف سازشیں جوڑنا ان کو ختم کرنا ہو گا۔سول و فوجی تعلقات میں دوریاں ختم کرنی ہوں گی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کیسے آگے بڑھتی ہے اس کو دیکھنا ہو گا۔ اچھا ہوا کہ ان کے مینڈیٹ کا احترام کیا گیا اور ان کی حکومت بنی۔ لیکن ان کے رحجانات جو ملکی انارکی کی طرف زیادہ ہیں، ان سے ملک کی معیشت کو خطرات ہو سکتے ہیں، اب افہام و تفہیم سے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے ممبران نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا، خان صاحب کے ماسک پہن کر اجلاس میں بد نظمی پھیلائی، ان کے ان رویوں نے اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہے۔ نگراں حکومت نے بڑی خوبصورتی سے ملکی بحرانوں کا سامنا کیا۔ معیشت کو سنبھالا، عدلیہ نے اپنا پازیٹو کردار ادا کیا۔ انتخابات کا وقت مقررہ پر کرائے جو ایک ناممکن ٹاسک تھا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادیں تبدیل کرنی ہوںگی۔ خارجہ پالیسی کی اول بنیاد ہماری معاشی پالیسی ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی اکانومی کو ڈاکیومنٹڈ بنانا ہے۔ بلیک اکانومی کو زیادہ سے زیادہ مارجنلئز کرنا ہے۔ اہم بات ہے سول ملٹری تعلقات، بین الاقوامی طاقتیں، پاکستان ان دونوں حقیقتوں کو ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا کرتی رہی ہیں۔ اس میں نقصان صرف اس ملک کا ہوا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جاوید قاضی </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-66569027512835641002024-03-06T18:43:00.000+05:002024-03-06T18:43:18.369+05:00بھارتی الیکشن اور مسلمانوں کی شامت<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhrpZlG-OM553HhdYoGwPiIesdFeUtJ4g6ze5ePvL2_Gyqv64ee2xf4KvoDsqUNT_ghLFyY1pnBCHfzKvACNUF2kNK7Syu-q3uJpEZQE-HFxlceNT7YRuKJXNAyxFNUEbuIuYmWGIAYvk6SWh87O8XFlHVLFb5SAd5Mx4VolboXyZkAt9vEEXtDSzg25yKT/s4500/Indian%20Muslims%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2791" data-original-width="4500" height="248" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhrpZlG-OM553HhdYoGwPiIesdFeUtJ4g6ze5ePvL2_Gyqv64ee2xf4KvoDsqUNT_ghLFyY1pnBCHfzKvACNUF2kNK7Syu-q3uJpEZQE-HFxlceNT7YRuKJXNAyxFNUEbuIuYmWGIAYvk6SWh87O8XFlHVLFb5SAd5Mx4VolboXyZkAt9vEEXtDSzg25yKT/w400-h248/Indian%20Muslims%203.jpg" width="400" /></a></div><span style="text-align: right;">بھارت میں اگلے دو ماہ میں عام انتخابات متوقع ہیں۔ اب تک کے آنکڑوں کے مطابق حکمران جماعت بی جے پی کی جیت بظاہر یقینی ہے۔ یوں دو ہزار چودہ کے بعد سے نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کا ریکارڈ قائم کریں گے۔ حزبِ اختلاف کی دو درجن جماعتوں نے چند ماہ قبل ’’ انڈیا‘‘ نامی اتحاد قائم کیا تھا، وہ باہمی نفاق کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ اس اتحاد میں جتنی جماعتیں ہیں، ان سب کے رہنما اگلا وزیرِ اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ انڈیا اتحاد میں شامل ایک اہم جماعت جنتا دل کے سربراہ اور ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار نے دوبارہ بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا ہے جب کہ مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بینر جی اور کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے درمیان کچھاؤ کھل کے سامنے آ رہا ہے۔ راہول کانگریس کی حالیہ ریاستی انتخابات میں خراب کارکردگی کے باوجود خود کو بادشاہ گر اور بی جے پی کے بعد سب سے بڑی ملک گیر جماعت کا قائد سمجھ رہے ہیں۔ وہ بھی اس حقیقت سے آنکھیں چار نہیں کر پا رہے کہ کانگریس کبھی ملک گیر جماعت ہوا کرتی تھی، اب نہیں ہے۔ ’’ انڈیا ’’ اتحاد میں لوک سبھا کے ٹکٹوں کی تقسیم کی بابت بھی اختلافات ہیں۔ میڈیا ننانوے فیصد بی جے پی نواز ہے اور اپوزیشن اتحاد کو مسلسل آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔</span></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بی جے پی نے ’’ انڈیا ’’ اتحاد کے اردگرد دائرہ مزید تنگ کرنے کے لیے مرکزی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے پیچھے لگا کر بدعنوانی اور کرپشن کے پرانے اور نئے مقدمات کھول دیے ہیں۔ جب کہ بی جے پی کی سوشل میڈیا طاقت بھی بھرپور طریقے سے حرکت میں ہے۔ بظاہر بی جے پی کو اس بار ’’ مسلم کارڈ ’’ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی یہ محاذ مسلسل گرم ہے۔ اکیس جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے بی جے پی نے جس انداز سے اپنی انتخابی مہم کا صور پھونکا ہے۔ اس کا اثر ان تمام ریاستوں میں محسوس ہونے لگا ہے جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے۔ مثلاً بنارس کی قدیم گیان وپی مسجد کو ایک مقامی عدالت نے پرانا مندر قرار دے کر اسے سربمہر کرنے کے بعد احاطے میں پوجاپاٹ کی اجازت دے دی۔ دارلحکومت دلی میں بلدیہ کے بلڈوزروں نے دو مساجد گرا دی ہیں۔ ان میں سے ایک چھ سو سال پرانی مسجد جو مہرولی کے علاقے میں واقع تھی، اسے سرکاری زمین پر غیر قانونی تعمیر قرار دے کے منہدم کیا گیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh_24yESSpDfLC7E3utMS2GTkudRYka2Ki9KKqYAjGi_Fa9IrGuzYoKl9YjHzCJOFITGloNcvyuUjQzfTDX2dL59gVRLHa18-2_sEy8QA3jnowlq7rqPdj52iwDnO7xsBmsLd9naiYC4p_sr_yD4wIGx7vTesgFfEfFtm1otmQIuKg-J7cYrzq4Zwdxutgx/s800/Indian%20Muslims%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="480" data-original-width="800" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh_24yESSpDfLC7E3utMS2GTkudRYka2Ki9KKqYAjGi_Fa9IrGuzYoKl9YjHzCJOFITGloNcvyuUjQzfTDX2dL59gVRLHa18-2_sEy8QA3jnowlq7rqPdj52iwDnO7xsBmsLd9naiYC4p_sr_yD4wIGx7vTesgFfEfFtm1otmQIuKg-J7cYrzq4Zwdxutgx/w400-h240/Indian%20Muslims%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس دوران واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تھنک ٹینک انڈیا ہیٹ لیب ( آئی ایچ ایل ) نے گذشتہ ہفتے جو سالانہ تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق دو ہزار تئیس میں روزانہ ملک میں اوسطاً دو مسلم دشمن واقعات رونما ہوئے۔ چھ سو اڑسٹھ نفرت انگیز واقعات میں سے پچھتر فیصد ( چار سو تریپن ) ان ریاستوں میں ہوئے جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ ان میں سے بھی تین ریاستوں (مہاراشٹر ، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش) میں مجموعی طور پر تینتالیس فیصد نفرت انگیز تقاریر ہوئیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کا مواد پھیلایا گیا۔ ہریانہ اور اترا کھنڈ کا شمار اگرچہ بی جے پی کی زیرِ اقتدار چھوٹی ریاستوں میں ہوتا ہے مگر وہاں مسلمان برادریوں کے خلاف اگست سے اب تک سب سے زیادہ پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر نفرتی تقاریر اور مواد کا پھیلاؤ آر ایس ایس سے جڑی دو ذیلی تنظیموں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ذریعے ہوا۔ دونوں تنظیموں کو دو ہزار اٹھارہ میں امریکی سی آئی اے انتہاپسند مذہبی گروہوں کی فہرست میں شامل کر چکی ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مسلمانوں کے خلاف میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاسی پلیٹ فارموں سے نفرت انگیز پروپیگنڈہ اب بھارت میں ایک معمول کی بات کے طور پر نچلی سطح تک قبول کیا جا چکا ہے۔ اگلے دو ماہ کے دوران انتخابی مہم میں اس نفرت میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ نفرت انگیز پروپیگنڈے کا محور وہی پرانے موضوعات ہیں۔ لو جہاد یعنی ہندو لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر مسلمان مذہب تبدیل کراتے ہیں۔ لینڈ جہاد یعنی مسلمان سرکاری زمین ہتھیا کر اپنی عبادت گاہیں تعمیر کر رہے ہیں۔ حلال جہاد یعنی مسلمان تاجر حلال کو بہانہ بنا کے ہندو کاروباریوں سے سامان نہیں لیتے تاکہ وہ معاشی طور پر کمزور ہو جائیں۔ پاپولیشن جہاد یعنی مسلمان اپنی تعداد تیزی سے بڑھا رہے ہیں تاکہ ہندوؤں پر غلبہ حاصل ہو سکے۔ حالانکہ یہ تمام پروپیگنڈہ نکات یکے بعد دیگرے منطق کی کسوٹی پر ڈھے چکے ہیں۔ مثلاً سرکار کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں مسلمانوں میں پیدائش کی شرح دیگر طبقات کے مقابلے میں تیزی سے کم ہوئی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جب سے اسرائیل اور حماس کا جھگڑا شروع ہوا ہے، آر ایس ایس کے بھگتوں کو مسلمان مخالف ایمونیشن کی ایک نئی کھیپ ہاتھ لگ گئی ہے۔ سات اکتوبر کے بعد سے ہر پانچویں تقریر فلسطینیوں سے نمٹنے کی اسرائیلی حکمتِ عملی کی سراہنا سے بھری ہوئی ہے۔ مثلاً وشو ہندو پریشد کے سربراہ پراوین تگڑیا نے ریاست ہریانہ میں سنگھی بھگتوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس وقت اسرائیل کی باری ہے۔ ہمیں بھی اپنے گلی محلوں میں ایسے ہی فلسطینیوں (مسلمان) کا سامنا ہے اور ان سے اپنی خوشحالی اور عورتوں کو بچانا ہمارے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے‘‘۔ بی جے پی کے ایک رہنما کپل مشرا کے بقول اسرائیل کو آج جس صورتِ حال کا سامنا ہے، ہمیں تو یہ چودہ سو سال سے درپیش ہے۔ بی جے پی حکومت نے آئی ایچ ایل اور ہندوتوا واچ نامی تھنک ٹینک کی ویب سائٹس بھارت کی حدود میں بلاک کر دی ہیں۔ کیونکہ دونوں ویب سائٹس مسلم مخالف سرکاری و سیاسی پروپیگنڈے میں پیش کردہ خود ساختہ حقائق کو مسلسل چیلنج کر کے متوازی بیانیے کو تقویت دے رہی ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">( ٹیپ کا بند یہ ہے کہ دو روز قبل دلی کے علاقے کھجوری خاص میں بلدیہ کے بلڈوزروں نے وکیل حسن کا گھر تجاوز قرار دیتے ہوئے منہدم کر دیا۔ یہ وہی وکیل حسن ہیں۔ جنہوں نے نومبر میں اپنے ساتھیوں کی ریسکیو ٹیم کی مدد سے اتراکھنڈ میں کوئلے کی ایک کان کی دیواریں منہدم ہونے کے سبب دو ہفتے سے کان میں پھنسے اکتالیس مزدوروں کو بحفاظت زندہ نکال لیا تھا اور اس کارنامے پر وزیرِ اعظم نریندر مودی سے لے کے نیشنل میڈیا تک سب نے ہی وکیل حسن کو ایک قومی ہیرو قرار دیا تھا اور انھیں اور ان کی ٹیم کو چوطرف سے انعامات اور مبارک باد کے پیغامات سے لاد دیا تھا)۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وسعت اللہ خان </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2><div><br /></div>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-21467422298224149382024-03-05T18:04:00.001+05:002024-03-05T18:04:24.709+05:00قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiQARw1p9iCcc0mV7-6JDc-YgUzj87wKr4xzjWoEpS38NgjwZ6dCB-JUKvPpsGFrMxz0F59fhkhiFXQky-9XrNYY60TLA_wa-v55iOXoZ_VLfZnDY2F0mII2J5mxph79SIVU5SWYamkk8Z4mRIZaFZ7td39Vou4oy5DeGIwo89f2lW2Pa6sNoH8I_t0cksc/s800/National%20Assembly%20of%20Pakistan%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="480" data-original-width="800" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiQARw1p9iCcc0mV7-6JDc-YgUzj87wKr4xzjWoEpS38NgjwZ6dCB-JUKvPpsGFrMxz0F59fhkhiFXQky-9XrNYY60TLA_wa-v55iOXoZ_VLfZnDY2F0mII2J5mxph79SIVU5SWYamkk8Z4mRIZaFZ7td39Vou4oy5DeGIwo89f2lW2Pa6sNoH8I_t0cksc/w400-h240/National%20Assembly%20of%20Pakistan%204.jpg" width="400" /></a></div>نئی قومی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے۔ اس کے پہلے اجلاس کا ماحول دیکھا تو کرامزن کے ناول کا وہ چرواہا یاد آ گیا جو آتش فشاں پر بیٹھ کر بانسری بجا رہا تھا۔ میں نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ قومی اسمبلی کے ماحول سے لطف اندوز ہونے والوں کو کیا یہ معلوم ہے کہ قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے؟ کچھ نے حیرت کا اظہار کیا، بعض نے اپنے تئیں تصحیح فرمانے کی کوشش کی کہ شاید یہ رقم آٹھ لاکھ ہے جو غلطی سے آٹھ سو لاکھ لکھ دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی ایک سال میں قریب 135 دن اجلاس منعقد کرتی ہے۔ 2017 کے اسمبلی بجٹ کے مطابق پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ تھا۔ اس دوران کئی بار تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیے گئے۔ پوچھنے والا تو کوئی تھا نہیں کہ پارلیمان خود ہی فیصلہ ساز تھی اور اپنی مراعات کے فیصلے خود ہی کرتی تھی۔ ساتھ ہی مہنگائی بھی بڑھ رہی تھی اور اوسط اخراجات برھتے ہی جا رہے تھے۔ چند سال تک میں اس مشق سے جڑا رہا اور مراعات و معاوضے میں اضافے اور مہنگائی کی شرح کے حساب سے تخمینہ لگاتا رہا کہ بات اب کہاں تک پہنچی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">قریب 2020 میں تنگ آ کر اور تھک کر جب میں نے یہ سلسلہ منقطع کر دیا کیونکہ متعلقہ وزارتوں سے تازہ ترین معلومات اکٹھے کرتے رہنا ایک بلاوجہ کی مشقت تھی اور اس سے بہتر تھا کہ جنگل میں جا کر کسی چرواہے سے بانسری سن لی جائے۔ جس وقت یہ سلسلہ منقطع کیا اس وقت تک محتاط ترین اندازے کے مطابق یہ اخراجات دگنے ہو چکے تھے۔ اس کے بعد مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ الامان۔ اخراجات، مہنگائی اور افراط زر کی شرح کے مطابق اگر جمع تقسیم کی جائے اور انتہائی محتاط جمع تقسیم کی جائے تو اس وقت قومی اسمبلی کا ایک دن کا اجلاس قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے۔ نہ جھکنے والے ، نہ بکنے والے ، عوام کے خیر خواہ ، کردار کے غازیوں اور بے داغ ماضیوں میں سے کوئی ایوان میں سوال کر دے کہ اسمبلی کے آخری مالی سال کے بجٹ کے مطابق تازہ ترین اعدادو شمار کیا ہیں اور مہنگائی کی اس لہر میں قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس اوسطا قوم کو کتنے میں پڑتا ہے تو جواب سن کر شاید بہت ساروں کو دن میں وہ تارے بھی نظر آ جائیں جو آج تک ماہرین فلکیات بھی نہیں دیکھ سکے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzW-5UlNWouibZdDkYSh0aw402pWUULgFpm5_Hlxy1ZSGojzSgjbHk4T_Zwmc9kbUQJUawMaCtmpn2DB1w4OKS0qWsb5_jFV2gYC09yAk9uM7rjVlN2o1nhMErVbboZB5eQHuX0M5SeQlL2yiEBZl036j4Makq0nLxVm7AQBXg8lQvLgrDzHV6klaP0mZn/s670/National%20Assembly%20of%20Pakistan%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="394" data-original-width="670" height="235" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzW-5UlNWouibZdDkYSh0aw402pWUULgFpm5_Hlxy1ZSGojzSgjbHk4T_Zwmc9kbUQJUawMaCtmpn2DB1w4OKS0qWsb5_jFV2gYC09yAk9uM7rjVlN2o1nhMErVbboZB5eQHuX0M5SeQlL2yiEBZl036j4Makq0nLxVm7AQBXg8lQvLgrDzHV6klaP0mZn/w400-h235/National%20Assembly%20of%20Pakistan%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سوال البتہ اخراجات کا نہیں ہے۔ پارلیمان چلانی ہے تو اخراجات تو اٹھیں گے۔احساس کیا جائے تو اخراجات کم ضرور ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی ہوں گے تو سہی۔ اس لیے سوال اخراجات کا نہیں بلکہ کارکردگی کا ہے۔ چارجڈ ماحول میں ایک آدھ اجلاس تلخی اور اودھم کی نذر ہو جائے تو یہ ایک فطری سی بات ہے۔ لیکن اگر یہ مشق مسلسل جاری رہنے لگے تو پھر یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ عالم یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی دفعہ 5 کے مطابق صرف ایک چوتھائی اراکین بھی موجود ہوں تو کورم پورا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم اکثر یہ خبر پڑھتے ہیں کہ کورم ٹوٹ گیا اور اجلاس ملتوی ہو گیا۔ گزشتہ سے پیوستہ سابقہ اسمبلی کے 74 فیصد اجلاس کا عالم یہ تھا کہ ان میں حاضری ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ اس اسمبلی میں پارلیمانی لیڈروں میں سب سے کم حاضریاں عمران خان کی تھیں تو اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ وہ اس اسمبلی کو دھاندلی کی پیداوار سمجھتے ہیں لیکن اب جس اسمبلی نے انہیں وزیر اعظم بنایا تو اس میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ پہلے 34 اجلاسوں میں وہ صرف چھ اجلاسوں میں موجود تھے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت ارکان کو باقاعدہ چھٹی کی درخواست دینا ہوتی ہے لیکن ریکارڈ گواہ ہے کہ اس تردد میں اراکین اسمبلی تو کیا، خود سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی نہیں پڑتے۔ ہر محکمے کی چھٹیوں کا کوئی ضابطہ اور تادیب ہے لیکن اراکین پارلیمان سے کوئی سوال نہیں ہو سکتا کہ عالی جاہ آپ کو لوگوں نے منتخب کیا ہے تو اب ایوان میں آ کر اپنی ذمہ داری تو ادا کیجیے۔ یہ خود ہی قانون ساز ہیں اس لیے انہوں نے یہ عظیم الشان قانون بنا رکھا ہے کہ جو رکن اسمبلی مسلسل 40 اجلاسوں میں نہیں آئے گا اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ غور فرمائیے مسلسل چالیس اجلاس کی شرط کیسی سفاک ہنر کاری ہے۔ غریب قوم کا یہ حق تو ہے کہ وہ اپنی پارلیمان سے سنجیدگی کی توقع رکھے۔ بنیادی تنخواہ، اس کے علاوہ اعزازیہ، سمپچوری الاؤنس ، آفس مینٹیننس الاؤنس الگ سے ، ٹیلی فون الاؤنس ، اسکے ساتھ ایک عدد ایڈ ہاک ریلیف الائونس، لاکھوں روپے کے سفری واؤچرز، حلقہ انتخاب کے نزدیک ترین ایئر پورٹ سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کے 25 ریٹرن ٹکٹ، اس کے علاوہ الگ سے کنوینس الاؤنس، ڈیلی الاؤنس کے ہزاروں الگ سے، اور پھر پارلیمانی لاجز کے باوجود ہاؤسنگ الاؤنس۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہی نہیں بلکہ موجودہ اور سابق تمام ارکان قومی اسمبلی اور ان کے اہل خانہ تاحیات 22 ویں گریڈ کے افسر کے برابر میڈیکل سہولت کے حقدار ہیں۔ تمام موجودہ اور سابق اراکین قومی اسمبلی کی اہلیہ اور شوہر تاحیات بلیو پاسپورٹ رکھنے کے بھی مجاز ہیں۔ سپیکر صاحبان نے جاتے جاتے خود کے لیے جو مراعات منظور کیں وہ داستان ہوش ربا اس سب سے الگ ہے۔ مسئلہ پارلیمان کے اخراجات ہی کا نہیں، مسئلہ کارکردگی کا بھی ہے۔ کارکردگی اگر اطمینان بخش ہو تو یہ اخراجات بھی گوارا کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہماری پارلیمان کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ حتیٰ کہ یہاں اب جو طرز گفتگو اختیار کیا جاتا ہے وہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔ وہ زمانے بیت گئے جب نا مناسب گفتگو کو غیر پارلیمانی کہا جاتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ گالم گلوچ اور غیر معیاری خطابات فرمائے جاتے ہیں اور خواتین پر جوتے اچھالے جاتے ہیں۔ پارلیمان کو کسی کارپوریٹ میٹنگ جیسا تو یقینا نہیں بنایا جا سکتا اور اس میں عوامی رنگ بہر حال غالب ہی رہتا ہے لیکن رویے اگر ایک معیار سے گر جائیں تو پھر یہ تکلیف دہ صورت حال بن جاتی ہے۔ پارلیمان اسی بحران سے دوچار ہو چکی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سوال اٹھایا جائے تو اراکین پارلیمان جواب آں غزل سناتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کے اخراجات بھی تو ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ فلاں اور فلاں کے اخراجات کو بھی ایک حد میں پارلیمان نے ہی رکھنا ہے۔ پارلیمان اگر اپنے اخلاقی وجود کا تحفظ کرے تو پھر وہ اس ذمہ داری کو بھی نبھا سکتی ہے لیکن وہ اگر یہاں بے نیازی کرے تو پھر وہ فلاں اور فلاں کے اخراجات پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ ہمیں اس وقت معاشی مسائل کا حل چاہیے۔ صرف عوام کی رگوں سے بجلی گیس کے بلوں کے نام پر لہو نچوڑ لینا کوئی حکمت نہیں۔ کب تک اور کتنا نچوڑیں گے؟ اصل چیز معاشی بحالی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان کا ماحول بہتر ہو اور یہاں سنگین موضوعات پوری معنویت سے زیر بحث آئیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آصف محمود </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ 92 نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-26900565034167341472024-02-29T14:39:00.000+05:002024-02-29T14:39:08.318+05:00عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟ <h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiWyjo6t_-2hEOUdYRteZGp-ZiUXefdlauUh44Xscb_KUTOBT0074lTfrWejl1UlTFcK9YMbc1cqsdmF9CU6SMCEVzzYlxhyphenhyphenquKisRGBclNksfMZC69FXFP_KgRMKU44W8bWPRwYKnkcZvYbq55gpH_BjwMg-NnI4V2NjgTW3HKPjW30pNdXmgtTfmeXspu/s960/Imran%20Khan%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="703" data-original-width="960" height="293" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiWyjo6t_-2hEOUdYRteZGp-ZiUXefdlauUh44Xscb_KUTOBT0074lTfrWejl1UlTFcK9YMbc1cqsdmF9CU6SMCEVzzYlxhyphenhyphenquKisRGBclNksfMZC69FXFP_KgRMKU44W8bWPRwYKnkcZvYbq55gpH_BjwMg-NnI4V2NjgTW3HKPjW30pNdXmgtTfmeXspu/w400-h293/Imran%20Khan%203.jpg" width="400" /></a></div>الیکشن ہو گیا۔ اگلے چند دنوں میں تمام وفاقی اور صوبائی حکومتیں فنکشنل ہو جائیں گی۔ پنجاب اور سندھ میں تو ابھی سے ہوچکیں۔ اصل سوال اب یہی ہے کہ عمران خان کو کیا کرنا چاہیے، ان کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ ایک آپشن تو یہ تھی کہ الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم وغیرہ کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنا لی جاتی۔ ابتدا میں اس کے اشارے بھی ملے، تحریک انصاف کے بعض لوگ خاص کر بیرسٹر گوہر وغیرہ اس کے حامی تھے۔ عمران خان نے البتہ عدالت میں اپنے کیس کی سماعت پرصحافیوں سے صاف کہہ دیا کہ وہ ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے کسی بھی صورت میں بات نہیں کریں گے۔ یوں فوری طور پر حکومت میں آنے کی آپشن ختم ہو گئی۔ اگلے روز ایک سینیئر تجزیہ کار سے اس موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ عمران خان کو ایسا کر لینا چاہیے تھا کیونکہ جب ان کی پارٹی اقتدار میں آتی تو خان کے لیے رہائی کی صورت نکل آتی، دیگر رہنما اور کارکن بھی رہا ہو جاتے، اسمبلی میں بعض قوانین بھی تبدیل کیے جا سکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ تمام نکات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں مگر میری اطلاعات کے مطابق عمران خان کے دو دلائل تھے، ایک تو یہ کہ ان کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے اور چھین کر جن پارٹیوں کو دیا گیا، وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ اس لیے ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیوا یم کے ساتھ مل کر کیسے حکومت بنائیں؟ دوسرا یہ کہ یہ سب کچھ عارضی اور محدود مدت کے لیے ہے۔ جلد نئے الیکشن کی طرف معاملہ جائے گا اور تب تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ جو دونوں جماعتون ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہے، اس پر ہی تحریک انصاف الیکشن جیت سکتی ہے۔ اگر ایک بار مل کر حکومت بنا لی تو پھر بیانیہ تو ختم ہو گیا۔ خیر یہ آپشن تو اب ختم ہو چکی۔ اب عمران خان کے پاس دو ہی آپشنز ہیں۔ پہلا آپشن کچھ انقلابی نوعیت کا ہے کہ ’ڈٹے رہیں انہیں پاکستان میں اداروں کے کردار کے حوالے سے سٹینڈ لینا چاہیے، اسٹبلشمنٹ کا ملکی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔‘ دوسرا آپشن اصولی ہونے کے ساتھ کسی حد تک پریکٹیکل بھی ہے۔ اس کے مطابق عمران خان ن لیگ، پی پی پی، ایم کیوایم، ق لیگ وغیرہ کے حوالے سے اپنی تنقیدی اور مخالفانہ پالیسی پر قائم رہیں۔ دھاندلی پر احتجاج کرتے رہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgaUNEXWrxmVFKok-aKHpwoGj0ARwJfq_XrZ4yazElUW2i7sRiZ8JoaBDBx3rORfRbwyuirSBxCUXgdprP6kH2scwqq6-c093iZg8uM8bBLWKWsA1RuQQ0-IFDd_8ecR92eMDJUG4cfa6SpU7d-wuFxEmtVLlHHxYKNAPCNmMMjcAzOmAEM_G9_Dqzh0OD0/s1200/Imran%20Khan%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="869" data-original-width="1200" height="290" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgaUNEXWrxmVFKok-aKHpwoGj0ARwJfq_XrZ4yazElUW2i7sRiZ8JoaBDBx3rORfRbwyuirSBxCUXgdprP6kH2scwqq6-c093iZg8uM8bBLWKWsA1RuQQ0-IFDd_8ecR92eMDJUG4cfa6SpU7d-wuFxEmtVLlHHxYKNAPCNmMMjcAzOmAEM_G9_Dqzh0OD0/w400-h290/Imran%20Khan%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جو پارٹیاں دھاندلی پر احتجاج کر رہی ہیں، ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں، ان کے ساتھ ایک وسیع اتحاد بنائیں، حکومت پر دباؤ بڑھاتے رہیں اور اپنے وقت کا انتظار کریں۔ یہ آپشن زیادہ منطقی اور سیاسی اعتبار سے معقول ہے اور غالباً عمران خان اسی راستے پر گامزن ہیں۔ اس حوالے سے البتہ انہیں دو تین باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے انہیں ان سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف ہاتھ بڑھانا ہو گا جو احتجاج کر رہی ہیں، بے شک ماضی میں انہوں نے تحریک انصاف کو دھوکہ ہی کیوں نہ دیا ہو۔ ایک نیا سیاسی آغآز کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ جماعت اسلامی اور جی ڈی اے کے ساتھ تحریک انصاف پہلے ہی کراچی میں مل کر احتجاج کر رہی ہے۔ جماعت کے ساتھ کراچی میں بھی تعاون کرنا چاہیے۔ جماعت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اس کی دو نشستیں چھن گئی ہیں، دونوں تحریک انصاف کو دی گئیں، اگر تحریک انصاف تدبر سے کام لے تو باجوڑ میں کیا گیا ایثار ان کے لیے مستقبل میں تعاون کے راستے کھول سکتا ہے۔ باجوڑ میں قومی اسمبلی کی سیٹ اور صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر الیکشن ہونا باقی ہے، ان سیٹس پر بھی کچھ ہو سکتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اختر مینگل نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کر کے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کا ساتھ دیا تھا۔ عمران خان کو اس کا صدمہ ہو گا، مگر اب انہیں اختر مینگل اور دیگر بلوچ و پشتون قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملانا ہو گا۔ بلوچستان میں محمود اچکزئی کی پشونخوا میپ، بی این پی مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی مشترکہ احتجاج کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کو اس اتحاد کا حصہ بننا چاہیے۔ جے یوآئی کے مولانا فضل الرحمن بھی احتجاجی موڈ میں ہیں، ان کے ساتھ پی ٹی آئی کا ایک رابطہ ہو چکا ہے، احتیاط کے ساتھ تحریک انصاف کو اس جانب مزید بڑھنا ہو گا۔ مولانا کا احتجاج جن نکات پر ہے، وہ اصولی اور تحریک انصاف کی سوچ سے ہم آہنگ ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ کس نے اسمبلی میں اور کس نے حکومت کرنی ہے، یہ فیصلہ صرف عوام کو کرنا چاہیے۔ اس نکتہ پر تحریک انصاف اور جے یو آئی میں اتفاق ہو سکتا ہے۔ البتہ عمران خان کو علی امین گنڈا پور جیسے ہارڈ لائنرز کو مولانا کے خلاف بیان بازی سے روکنا ہو گا۔ دوسرا اہم کام عمران خان کو ریاستی اداروں کے ساتھ کشمکش اور کشیدگی میں کمی لانے کا کرنا پڑے گا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بیرسٹر گوہر اور عمرایوب دونوں معتدل اور عملیت پسند سیاستدان ہیں، ان کے ذریعے کوئی بریک تھرو ہو سکتا ہے۔ اس وقت خان صاحب کو اقتدار نہیں مل سکتا، البتہ ان کے لئے قانونی جنگ میں کچھ سہولتیں مل سکتی ہیں۔ وہ ضمانت پر باہر آ سکتے ہیں۔ ایسا ہونا بھی بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ ان کی پارٹی کے لوگوں کی خان تک آزادانہ رسائی نہ ہونے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور پارٹی میں مختلف گروپ بن چکے ہیں۔ عمران خان باہر ہوں گے تو یہ سب گروپنگ ختم ہو جائے گی۔ خان صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی سسٹم میں انہیں رہنا، اسی میں جگہ بنانی ہے۔ انہیں جذباتی غلطیوں سے گریز کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنا ایک غلطی ہی تصور ہو گی، اس کا کوئی جواز اور دفاع ممکن نہیں۔ اسی طرح امریکی اراکین کانگریس کو خط لکھنا یا انہیں آواز اٹھانے کا کہنا ایک سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے، مگر آئی ایم ایف یا کسی دوسرے عالمی ادارے کو خط لکھ کر ریاست پاکستان کو دی جانے والی کوئی مالی مدد رکوانا یا پابندی کی کوشش نہایت غلط اور بے کار کاوش ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس سے کیا حاصل ہو گا؟ الٹا عمران خان کے لیے مقتدر حلقوں میں جو تھوڑی بہت حمایت ہے یا جو چند ایک حمایتی ہیں، وہ اس سے کمزور ہوں گے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اپنے مشاورت کے عمل پر نظرثانی کریں، انہیں ایسا کرنے سے قبل امور خارجہ اور معاشی امور کے ماہرین سے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ مشاورت کرنی چاہیے۔ ابھی کچھ بگڑا نہیں۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ عمران خان کو فوکس ہو کر اپنے اہداف پر نظر رکھنی چاہیے۔ قدم بہ قدم آگے بڑھیں، تب ہی چیزیں بہتر ہوں گی۔ اگر کوئی قدم غلط پڑ گیا تو دو قدم پیچھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ پیچھے ہٹ کر پھر سے آگے بڑھیں، دیکھ بھال کر، سوچ سمجھ کرآگے چلیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عامر خاکوانی</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ اردو نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-67148642951624040432024-02-26T18:29:00.001+05:002024-02-26T18:29:56.847+05:00عمران خان ہر بار عوامی عدالت میں سرخرو کیوں ہوتے ہیں؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg68_W0KYWrKXzBsAlLvQvKQIK2Ll9YUmgrLSQ8SVXPIXtG9Zslj9bZG2nl2bBHkTU857Xma6gO8bzrWVABTEM3KM9_tEJvm9cCuDjxf_MHjyalDdbEqnjpAdrLDW8R5GI3dQwyRRATzHsHsazybUXGJbAFXZl9xyw32mpsmykTX6knkVo0t_i4zHFBx8h4/s620/Imran%20Khan%205.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="450" data-original-width="620" height="290" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg68_W0KYWrKXzBsAlLvQvKQIK2Ll9YUmgrLSQ8SVXPIXtG9Zslj9bZG2nl2bBHkTU857Xma6gO8bzrWVABTEM3KM9_tEJvm9cCuDjxf_MHjyalDdbEqnjpAdrLDW8R5GI3dQwyRRATzHsHsazybUXGJbAFXZl9xyw32mpsmykTX6knkVo0t_i4zHFBx8h4/w400-h290/Imran%20Khan%205.jpg" width="400" /></a></div>اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آج عمران خان کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا کسی بھی طرح قابلِ فہم نہیں۔ تمام پیش گوئیاں کہ ایک بار اقتدار سے جانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت کا سورج جلد غروب ہو جائے گا، غلط ثابت ہوئیں۔ جیسے ہی معاملات ان کے خلاف جانے لگتے ہیں، کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس سے ان کی مقبولیت میں ایک بار پھر اضافہ ہو جاتا ہے۔ عوام سے تعلق ہمیشہ سے ان کی سیاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر اپریل 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے مئی 2022ء میں اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن لانگ مارچ اس وجہ سے ناکام رہا کیونکہ اتنی تعداد میں لوگ جمع نہیں ہو پائے کہ جس سے کوئی تبدیلی لائی جاتی۔ اسلام آباد پہنچ کر اچانک عمران خان نے لانگ مارچ ختم کر دیا اور بنی گالا چلے گئے۔ یہ گمان کیا جارہا تھا کہ اگست 2014ء کے نام نہاد سونامی مارچ نے ان کے عروج میں جو کردار ادا کیا، اب وہ ہیجان کی سیاست کام نہیں آئے گی کیونکہ اب انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل نہیں جوکہ اس سے قبل ان کی سیاست کا اہم عنصر تھی۔ اس کے باوجود عمران خان نے غرور اور دھوکے سے بھری شدید بیان بازی کے ذریعے لوگوں کی بڑی تعداد کو متوجہ کیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے خالی کی جانے والی پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات کی باری آئی اور عمران خان نے ان میں سے 15 نشستیں جیت لیں۔ یہ پہلا جھٹکا تھا جس نے یہ عندیہ دیا کہ کچھ چل رہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے وہی نشستیں دوبارہ جیتیں جو ان کی تھیں۔ اس کے باوجود کچھ حلقوں کے نزدیک ان کی اس کامیابی میں حکومت مخالف جذبات نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس سے افراطِ زر اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور عوام کی قوتِ خرید شدید حد تک متاثر تھی۔ پھر اکتوبر 2022ء آیا جس میں قومی اسمبلی کی 11 نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے، ان میں سے 7 نشستوں پر عمران خان خود بطور امیدوار کھڑے ہوئے اور وہ 6 نشستیں جیتنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ عمران خان، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار سے ملیر کراچی کی نشست ہار گئے جس پر پی پی پی نے کافی بڑھ چڑھ کر بات کی۔ لیکن بڑے منظرنامے پر تصویر واضح ہو رہی تھی اور وہ یہ تھی کہ عمران خان جب جب عوام کی عدالت میں گئے ہیں، ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi0tBUe9rZlWb3WPXQEhjEnvfYMfJrxhJ0B40-2g_HUpeRZ2lD7LDgxD87KtcmBdgqbDFJZ3Rao1Szmljf8LoTt2HaSyqV5YAI62We2knbIn4yX5YwyKltd_fiEQzbvOk-s7pE5BE5ZQZn9xgWA_-D5h0CQqg19laP_YLEsDe3C8DQ9dcFHnrzSgpXutdCL/s736/Imran%20Khan%207.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="414" data-original-width="736" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi0tBUe9rZlWb3WPXQEhjEnvfYMfJrxhJ0B40-2g_HUpeRZ2lD7LDgxD87KtcmBdgqbDFJZ3Rao1Szmljf8LoTt2HaSyqV5YAI62We2knbIn4yX5YwyKltd_fiEQzbvOk-s7pE5BE5ZQZn9xgWA_-D5h0CQqg19laP_YLEsDe3C8DQ9dcFHnrzSgpXutdCL/w400-h225/Imran%20Khan%207.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اسی زعم میں عمران خان نے بڑی چال چلی اور جنوری 2023ء میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں کیونکہ انہیں امید تھی کہ دونوں صوبوں کے ضمنی انتخابات میں وہ درکار آئینی اکثریت حاصل کر لیں گے۔ لیکن یہ اندیشہ کہ انتخابات سے ان کی طاقت میں اضافہ ہو گا، پی ڈی ایم حکومت انتخابات کو طول دیتی رہی اور بلآخر وہ انہیں سال تک ملتوی کرنے میں کامیاب رہے۔ 8 فروری 2024ء ایک اور موقع تھا کہ عمران خان عوام کے سامنے جائیں اور اس دفعہ انہیں دبانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈے اپنائے گئے۔ عمران خان جیل میں تھے ، ان کی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں تھا، ان کے کارکنان و رہنما زیرِحراست تھے، پارٹی رہنماؤں کی بڑی تعداد کو سیاست چھوڑنے یا کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا گیا جبکہ ان کے سیاسی رہنماؤں کو انتخابات کے لیے ریلیاں تو کیا کارنر میٹنگ کرنے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے انتخابی نتائج کی ساکھ کافی حد تک متاثر ہوئی کیونکہ کچھ حلقے جہاں سے عمران خان کے امیدوار جیت رہے تھے، وہاں مخالفین کو جتوایا گیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس کے باوجود عمران خان کے امیدواروں نے کاسٹ کیے گئے مجموعی ووٹوں میں سے ایک تہائی حاصل کیے ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ووٹ بلاک سب سے بڑا ہے۔ نشستیں بھی انہیں زیادہ ملیں کیونکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ووٹرز کو متحرک کرنے کی ان کی حکمت عملی اچھی تھی۔ اس بات سے انکار کرنا یا اس حقیقت کو دبانے کا کوئی مطلب نہیں کہ عمران خان نے ووٹرز کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم کر لیا ہے۔ انہیں جتنا زیادہ دبانے کی کوشش کی جائے گی، عوام اور ان کا تعلق اتنا ہی مضبوط ہو گا اور ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو گا۔ اس حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ان کی کامیابی کے پیچھے کون سے عناصر ہیں۔ کچھ کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ مخالف ووٹ ہے۔ جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ 20 ماہ تک عوام کو جس کمرتوڑ مہنگائی کا سامنا تھا، اس نے عوام کو عمران خان کی جماعت کی جانب راغب کیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ عمران خان کے لیے عوام کی پسندیدگی نہیں بلکہ یہ نواز شریف کے لیے ناپسندیدگی (حتیٰ کہ نفرت بھی کہہ سکتے ہیں) ہے جس کا نتیجہ ہم نے عام انتخابات 2024ء میں بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی کامیابی کی صورت میں دیکھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ہم عمران خان کی طاقتور عوامی حمایت کے حوالے سے بات کر سکتے ہیں لیکن اس کے ختم ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ عمران خان کو اپنی سوچ سے بھی زیادہ کامیابی ملی ہے۔ اس لیے اب ان کی اس شاندار سیاسی کہانی کے گہرے اور بنیادی محرکات کا جائزہ لینا اہم بن چکا ہے۔ اس حوالے سے ناکام معیشت اور بدلتی ہوئی ڈیموگرافی اہمیت کی حامل ہیں جن پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پاکستان کو سنجیدہ فیصلے درکار ہیں، اس لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فیصلہ کرنے میں نہ ہچکچائے۔ سب سے پہلے تو ہمیں مستقل طور پر مہنگی توانائی کا سامنا ہے جبکہ گھریلو گیس کے کم ہوتے ذخائر کی جگہ اب درآمد شدہ ایل این جی لے رہی ہے۔ دوسری بات، قرضوں کے غیرمعمولی بوجھ کا مطلب یہ ہے کہ معمول کے مطابق کاروبار نہیں چل پائیں گے۔ پاکستان کو ان دو حقائق، توانائی پر مبنی پیداوار کو ترک کرنا اور توانائی کے شعبے میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے غیر ملکی قرضوں کے بجائے ملکی وسائل پر انحصار کرنے پر بیک وقت کام کرنا ہو گا۔ یہ تبدیلیاں لانے میں ناکامی کا مطلب مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہے جبکہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ملک کی افرادی قوت میں ہر سال 20 لاکھ افراد شامل ہورہے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ تمام نوجوان ہیں۔ یہ لوگ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب 9/11 کا واقعہ ہوا تھا۔ یہی نوجوان تیزی سے ہماری ووٹر لسٹوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سے موازنہ کریں تو 2024ء میں 2 کروڑ 20 لاکھ افراد کا ووٹر لسٹوں میں اندراج ہوا جوکہ ایک ریکارڈ اضافہ ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں نوجوانوں کی تعداد کیا تھی۔ پاکستان بدل رہا ہے۔ اقتصادی اعتبار سے پرانے پیداواری شعبوں کو متروک قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ توانائی کی قیمتیں ہر گزرتے سال کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جبکہ سیاسی دنیا میں جیسے جیسے نوجوان ووٹرز کے اندراج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، پرانی سیاسی جماعتوں کی سرپرستوں کے لیے دشوار حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ جو تبدیلی کو اپنا کر اس میں خود کو ڈھال لیں گے وہی سالم رہیں گے، بصورت دیگر ان کا اس نظام میں حصہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">خرم حسین </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-30452749205414367712024-02-21T18:24:00.000+05:002024-02-21T18:24:36.794+05:00نئی حکومت کو کون سی نئی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhVJwRZCI88X1fLb-9pmruPY3c6j-5qNpTYj2nf_Xmv4fdASLBnK2QhhimQ8ETW05MYbO1yQ6s9LicigzS-a1PBIkmGGwo6ghFPEXIpqUZPe5wqjMzygynfNMnsW_Tw4_s98IGUhYbK7JKbwaHYk5RpYaON133oSgDxTyxGpbSv0jQ7sS15nHBHBa3B65_y/s800/Pakistan%20Economy%208.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="532" data-original-width="800" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhVJwRZCI88X1fLb-9pmruPY3c6j-5qNpTYj2nf_Xmv4fdASLBnK2QhhimQ8ETW05MYbO1yQ6s9LicigzS-a1PBIkmGGwo6ghFPEXIpqUZPe5wqjMzygynfNMnsW_Tw4_s98IGUhYbK7JKbwaHYk5RpYaON133oSgDxTyxGpbSv0jQ7sS15nHBHBa3B65_y/w400-h266/Pakistan%20Economy%208.jpg" width="400" /></a></div>نئی حکومت ایک ایسے وقت میں چارج سنبھالے گی کہ جب ہمارا ملک مختلف بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔ معاشی اعتبار سے بات کریں تو ہمارے ملک میں افراطِ زر کی شرح 25 فیصد سے زائد ہے، بجٹ خسارہ قومی آمدنی کا 7 فیصد ہے، توانائی کی قیمتیں اور اس کی عدم دستیابی صنعتوں اور صارفین کے لیے اہم مسئلہ ہے، مقامی اور غیرملکی قرضوں کی واپسی کی مہلت بھی ہمارے سر پر تلوار کی مانند لٹک رہی ہے جبکہ ملکی برآمدات کی شرح بھی انتہائی کم ہے۔ عوامی ترقی کے اعتبار سے دیکھیں تو دیگر ترقی پذیر ممالک کی نسبت ہمارے ملک میں نومولود بچوں کی اموات کی شرح اور خواتین کا فرٹیلیٹی ریٹ انتہائی بلند ہے، 5 سال سے کم عمر 58 فیصد بچے نشونما کی کمی کا شکار ہیں، 26 لاکھ (40 فیصد) بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، ہر سال 80 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے لیے ہمارے پاس نہ اسکول ہیں اور نہ ہی اساتذہ جبکہ سب سے بدتر تو یہ ہے کہ 39 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گورننس کے اعتبار سے بات کریں تو ہمارا بلدیاتی نظام، جو عوام کی بڑی تعداد کو حکومتی معاملات سے منسلک کرتا ہے اور انہیں سہولیات فراہم کرتا ہے لیکن غیرمؤثر بلدیاتی نظام ہونے کی وجہ سے ہمارے شہری صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">درحقیقت گورننس کے تمام شعبہ جات میں ہی عوام کو سہولیات کی فراہمی کا فقدان ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال ہمارے سرکاری اداروں کو 700 ارب روپے کا خسارہ ہوا، ہمارے پاس ایک ایسی بیوروکریسی ہے جہاں میرٹ موجود نہیں، عدالتوں میں موجود مقدمات دہائیوں سے حل طلب ہیں اور ہماری پولیس خدمات فراہم نہیں کرتی بلکہ انہیں شہریوں پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے، مندرجہ ذیل وہ اصلاحات ہیں جو نئی حکومت کو کرنی چاہئیں۔ اگر آبادی کا 40 فیصد لوگ غریب اور ناخواندہ ہوں تو ایسے ملک کی معیشت کبھی بھی ترقی نہیں کر پائے گی جبکہ ناخواندہ افراد تعلیم اور ہنر سے محروم رہیں گے۔ اس کے بعد ہمیں حکومت کی مالی اعانت سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد تمام وفاقی ٹیکسس کا تقریباً 63 فیصد صوبوں (آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا بھی شامل ہیں) کو ملتا، اس سے صوبوں کو بہت سی رقم ملی لیکن وفاق کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ سود کی ادائیگیاں کر سکتا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgfrurPCJ8wr_RcZ9cF5S5J8Gk1JBFjXi6JEAbf5UBVsoYCeFp2Pmv6NkYn6wzClhWbYpbAtMh-eANNkw-4DeATpcJ3cuushMBuaW0VKB2sbS7aQyT6uJ8PWnIZv7EiD1ZM7ip4IoYVOMY_s43uWJpjtORwZQ6HMhP4NPAjVzBaR2Cvr4oO-LDSl4oaiant/s500/Pakistan%20Economy%207.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="300" data-original-width="500" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgfrurPCJ8wr_RcZ9cF5S5J8Gk1JBFjXi6JEAbf5UBVsoYCeFp2Pmv6NkYn6wzClhWbYpbAtMh-eANNkw-4DeATpcJ3cuushMBuaW0VKB2sbS7aQyT6uJ8PWnIZv7EiD1ZM7ip4IoYVOMY_s43uWJpjtORwZQ6HMhP4NPAjVzBaR2Cvr4oO-LDSl4oaiant/w400-h240/Pakistan%20Economy%207.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اگلے این ایف سی ایوارڈ یعنی پانچ برس میں وفاق کا حصہ 55 فیصد تک بڑھانا چاہیے اور صوبوں، اضلاع اور ڈویژن سے بھی کہا جائے کہ وہ اپنی ٹیکس وصولی خود کریں۔ یہ خیال کہ ایک حکومت ٹیکس جمع کرتی ہے اور دوسری حکومت اسے خرچ کرتی ہے، اس سے مالی بے ضابطگی ہوتی ہے۔ ذمہ دار وفاق کو صرف خرچ کرنے کا اختیار ہی نہیں بلکہ ٹیکس کی ذمہ داری بھی صوبوں تک منتقل کرنی چاہیے۔ مزید اصلاحات میں آئینی اعتبار سے مقامی حکومت کو بااختیار بنانا بھی شامل ہے اور اس حد تک بااختیار کہ صوبائی انتظامیہ اسے کمزور نہ کرسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم اور صحت کو ضلع یا شہر کی سطح پر جبکہ پولیس اور انفرااسٹرکچر کو ڈویژن اور شہری سطح پر منتقل کیا جانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ منتخب کردہ تحصیل، ضلع، شہر اور ڈویژن کے ناظم کو اس وقت تک اپنے عہدے سے نہیں ہٹانا چاہیے جب تک ان کی جگہ کوئی اور منتخب نہ ہوجائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان اداروں کو پہلے سے طے شدہ فارمولے پر براہِ راست وفاقی تقسیم شدہ پول سے فنڈز دیے جائیں تاکہ انہیں صرف صوبائی انتظامیہ پر انحصار کرنے کی ضرورت نہ ہو۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حکومت کا نجی شعبے کو اختیارات کی منتقلی بھی ایجنڈا میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب تمام سرکاری اداروں کی نجکاری اور مضبوط ضابطے بنانا ہے۔ یہ عمل سب سے پہلے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز سے شروع کرنا ہو گا جوکہ پہلے ہی ایجنڈے میں شامل ہیں لیکن اس فہرست میں تمام توانائی، گیس کے پیداواری و تقسیم کار اور تیل کی پیداواری اور تقسیم کے اداروں کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ فوری نجکاری کی اجازت دینے کے لیے قانون میں ضروری تبدیلیاں کی جانی چاہئیں (فی الحال اسے مکمل کرنے کے لیے کم از کم 460 دن درکار ہیں)۔ ہماری بجلی اور گیس کے تقسیم کار کمپنیز کو اپنے کُل اثاثوں پر منافع کی اجازت ہے جبکہ نجکاری کے بعد اس فارمولے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ نجکاری کے بعد ان کمپنیز کی قیمتوں کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ انہیں کتنا منافع لینے کی اجازت ہے۔ حکومت کو احتیاط سے نیا فارمولا سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ اضافی منافع کو تقسیم کیا جا سکے، بلوں کی وصولی میں بہتری کے بعد اور ترسیل اور تقسیم کے دوران ہونے والے نقصان کا تخمینہ بھی نجکاری کے بعد، صارفین اور کمپنیز کے درمیان طے ہونا چاہیے۔ اس نجکاری کا حتمی مقصد بجلی اور گیس کے لیے ہول سیل مارکیٹ کا قیام اور صارفین کے لیے قیمتوں میں خاطر خواہ کمی اور خدمات میں بہتری ہونا چاہیے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سرکاری اداروں کی نجکاری کے علاوہ بھی دیگر راستوں سے ہمیں حکومتی دائرہ اختیار کو محدود کرنا ہو گا۔ مثال کے طور پر وزارتوں اور ڈویژن میں کمی بالخصوص 18ویں ترمیم کے بعد جن علاقوں میں اقتدار منتقل ہوا وہاں کچھ اختیارات نجی شعبے کے سپرد کرنا ہوں گے۔ مثال کے طور پر فوڈ سیکیورٹی کی وزارت کا دفتر کامرس کی وزارت کی عمارت میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے اسکولز چلانے والی وزارتِ تعلیم کو مقامی اختیارات میں دے کر پورے ملک میں قومی نصاب کے معیارات نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو ختم کردینا چاہیے اور نجی سیکٹر کو اجناس کی برآمدات کرنے کی ذمہ داری دے دینی چاہیے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنے لوگوں کی فوڈ سیکیورٹی کا کام ذمہ دارانہ طریقے سے کرتے ہیں لیکن اس کام میں کوئی بھی سرکاری کمپنی براہ راست تجارت اور درآمدات میں ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ حکومت کی جانب سے گندم اور کھاد کا اسٹریٹجک ذخیرہ بنایا جاتا ہے۔ اگر حکومت نجی شعبے پر انحصار کرتی ہے تو اقتصادی طور پر وہ گندم اور کھاد کی زیادہ خریداری اور ذخیرہ کر سکے گی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پاکستان کی سخت معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ترقیاتی پروگرامز ختم کرنا ہوں گے۔ بچنے والی رقم شاید بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا صوبے کے ماتحت چلنے والے پروگرامز کے ذریعے تقسیم کر دینی چاہیے اور ان پروگرامز کو جی ڈی پی کے ایک فیصد تک بڑھانا چاہیے۔ میری پسندیدہ اصلاح غریب بچوں کو نجی اسکولز میں تعلیم دلوانے کے لیے واؤچر فراہم کرنا ہے۔ سندھ اور پنجاب نے اس حوالے سے کامیاب پائلٹ پروگرامز بھی شروع کیے ہیں اور اب ان پروگرامز کو ملک بھر کے غریب بچوں تک رسائی دینی چاہیے ۔ طویل المدتی اقتصادی ترقی کے لیے شاید قانونی اصلاحات سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہے کیونکہ ان کے نتیجے میں عدالتوں کی طرف سے بروقت اور متوقع فیصلے ہوں گے۔ اس سے حکومت کی زیادتیوں کو روکا جائے گا، غیر ملکی سرمایہ کاری میں سہولت ملے گی اور اشرافیہ کے مفادات کو عدالتی مقدمات کو اپنے فائدے کے لیے طول دینے سے منع کیا جائے گا۔ اختتام میں گورننس کا نظام بہتر بنانے کا سب سے مؤثر طریقہ بیوروکریٹس کی اہلیت کو بہتر بنانا ہے۔ اس حوالے سے عوامی خدمت کے شعبے میں اصلاحات لانی چاہئیں جن میں اسپیشلائزیشن، میرٹ پر ترقی اور ایسے عہدیداران کی ریٹائرمنٹ شامل ہونی چاہیے جو معیارات پر پورا نہ اترتے ہوں۔<br />اگر پاکستان کو دیگر ممالک سے مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنا ہو گا، اس لیے یہ تمام اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔ بصورتِ دیگر ہم بحیثیت قوم یونہی بھٹکتے رہیں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مفتاح اسمٰعیل </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-64673036930258218862024-02-15T16:21:00.000+05:002024-02-15T16:21:06.407+05:00آنسو بھری راہ گزر<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg6VlZad76mKSFrPcFe04WtOwRBbJU7WR-Vov-gBC98ZLyuW_f_w-UvDzyyUB0NyGizqGdWHengVOzH6CcVEqlQS_5kcDFs98191-NO-58y4SWRvTs1gmsgJyko1V2oC8QAre3cZwXeM6qv540fz_CaWntZ2AT7XC-vw8ljWqh4DGBHHLoJ9ZEmuLXDv16K/s7360/Palestine%20Conflict%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4912" data-original-width="7360" height="268" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg6VlZad76mKSFrPcFe04WtOwRBbJU7WR-Vov-gBC98ZLyuW_f_w-UvDzyyUB0NyGizqGdWHengVOzH6CcVEqlQS_5kcDFs98191-NO-58y4SWRvTs1gmsgJyko1V2oC8QAre3cZwXeM6qv540fz_CaWntZ2AT7XC-vw8ljWqh4DGBHHLoJ9ZEmuLXDv16K/w400-h268/Palestine%20Conflict%203.jpg" width="400" /></a></div>نقشے میں آپ دیکھیں گے کہ یورپ اور افریقہ کو جدا کرنے والے بحیرہ روم کو نہر سویز بحیرہ قلزم کے راستے بحرِ ہند اور پھر ایشیا اور آسٹریلیا سے جوڑتی ہے۔ بحر ہند میں کھلنے والا یہ راستہ یمن اور جیبوتی کے درمیان واقع چھبیس کلومیٹر چوڑی آبنائے باب المندب کا مرہونِ منت ہے۔ اگر نہر سویز یا باب المندب بند ہو جائے تو پھر یورپ اور ایشیا کے درمیان سفر کرنے والے ہر تجارتی جہاز کو پرانے زمانے کی طرح پورے براعظم افریقہ کا چکر لگاتے ہوئے بحر اوقیانوسں کے ذریعے براستہ جبل الطارق چھ ہزار کلو میٹر کا اضافی فاصلہ طے کر کے بحیرہ روم میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ یوں اشیا کی نقل و حمل کی لاگت میں کم از کم تین گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملانے والی نہر سویز اور آبنائے باب المندب ایک دوسرے پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔ مثلاً انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بہت سے جنگی جہاز ڈوبنے کے سبب اور نہر کے آر پار اسرائیلی اور مصری فوجیوں کی آمنے سامنے مورچہ بندی نے نہر سویز بند کر دی۔ آٹھ برس بعد انیس سو پچھتر میں امریکی ثالثی میں مصر اور اسرائیل کے کامیاب مذاکرات کے سبب ہی نہر سویز کو کھولا جا سکا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">(پہلی بار یہ نہر نومبر انیس سو چھپن میں مصر پر اسرائیل، فرانس اور برطانیہ کے مشترکہ اچانک حملے کے نتیجے میں چار ماہ بند رہی۔ اس حملے کا سبب یہ تھا کہ مصر نے نہر برطانیہ اور فرانس سے چھین کر قومی ملکیت میں لے لی تھی)۔ ان دنوں نہر سویز تو کھلی ہوئی ہے مگر یمنی حوثیوں نے گزشتہ تین ماہ سے باب المندب میں اسرائیل کو رسد پہنچانے والے مال بردار جہازوں کی ٹریفک اپنے چھاپہ مار حملوں کے ذریعے روک دی ہے۔ حوثی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جب تک غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت جاری ہے باب المندب ایک خطرناک گزرگاہ بنی رہے گی۔حوثی کارروائیوں کے نتیجے میں اسرائیلی بندرگاہ ایلات میں تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی ہیں۔ یہ بندرگاہ زیادہ تر چین سمیت ایشیائی ممالک سے اسرائیلی تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مگر اسرائیلی معیشت کو اس ناکہ بندی سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔ کیونکہ اس کی پچاسی فیصد تجارت بحیرہ روم کے راستے ہوتی ہے۔ اسرائیل کے چینل تھرٹین کے مطابق اسرائیل نے بحیرہ قلزم کے راستے ہونے والی تجارت کے لیے متبادل راستہ ڈھونڈھ لیا ہے اور غیر اعلانیہ طور پر دوبئی سے براستہ سعودی عرب و اردن اسرائیلی درآمد و برآمد کا سلسلہ جاری ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgQNVyFegl2WjFDZI8UqCgKe3pA-x4j41tMAdE3tiK7r73McPkRwuemm-0zql4A_wM83U9t4tPLO5fR7sEIhMPvm7lY9uXNuzBFRKa0gYHZ-J8ZccO6462j6IU0zHOM14jSapCLk_elv3vzHYflyI-bKny42zBCA2i5Y2V2Jdh5eS8Qx6hPBRwlXSd1moi9/s4000/Palestine%20Conflict%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2672" data-original-width="4000" height="268" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgQNVyFegl2WjFDZI8UqCgKe3pA-x4j41tMAdE3tiK7r73McPkRwuemm-0zql4A_wM83U9t4tPLO5fR7sEIhMPvm7lY9uXNuzBFRKa0gYHZ-J8ZccO6462j6IU0zHOM14jSapCLk_elv3vzHYflyI-bKny42zBCA2i5Y2V2Jdh5eS8Qx6hPBRwlXSd1moi9/w400-h268/Palestine%20Conflict%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جو خلیجی ممالک آج اسرائیل سے اقتصادی تعاون کر رہے ہیں وہی ممالک غزہ کی چار مہینے سے جاری خونی ناکہ بندی ختم کروانے میں بری طرح ناکام ہیں۔ صرف یمنی حوثی ہی ہیں جو اس علاقے میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر اپنی سکت کے مطابق مزاحمت کر رہے ہیں۔ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کے بدلے کسی ٹھوس بین الاقوامی ردِعمل کا سامنا نہیں۔ مگر حوثیوں کو باب المندب کی اقتصادی ناکہ بندی کی سزا مغربی فضائی افواج کی جانب سے مسلسل بمباری کی شکل میں مل رہی ہے۔ حالانکہ یمنیوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کے انتہائی غریب ترین ممالک میں شمار یہ خطہ پچھلے آٹھ برس سے خلیجی ریاستوں کے فوجی اتحاد کے نشانے پر ہے اور اس کی تین چوتھائی آبادی یا تو دربدر ہو چکی ہے یا پھر ناکافی غذائیت اور فاقہ کشی میں مبتلا ہے۔ ان برسوں کے دوران خلیجی اتحاد کی جنگی مہم میں لگ بھگ ایک لاکھ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔اقتصادی و تعمیراتی ڈھانچہ لگ بھگ برباد ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس حالت میں بھی یمنی حوثی غزہ کے محصور فلسطینیوں کے لیے اپنی تکالیف بھول کر جو کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس مصری کمپنیاں غزہ میں محصور فلسطینیوں کو محفوظ راہ داری دینے کے بدلے ان سے اور غزہ میں بین الاقوامی امداد لے کر داخل ہونے والے ٹرکوں سے بھاری رقوم اینٹھ رہی ہیں اور اس کارِ خیر میں رفاہ کی راہ داری پر متعین مصری سرحدی حکام بھی شریک ہیں۔حوثیوں کو مغربی فضائی افواج کے مشترکہ حملوں کا اس لیے سامنا ہے کہ بحری تجارت تلپٹ ہونے سے روانہ دس کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر صورتِ حال جوں کی توں رہی تو مغربی جہاز راں کمپنیوں اور معیشتوں کو سالانہ ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچے گا۔ نہر سویز اور باب المندب کے راستے بارہ فیصد عالمی تجارت ہوتی ہے۔ جہاز رانی کی چالیس فیصد ٹریفک یہاں سے گزرتی ہے۔گزشتہ برس نہر سویز سے گزرنے والوں جہازوں کی راہ داری سے مصر کو لگ بھگ دس ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ مگر باب المندب کے راستے جہاز رانی متاثر ہونے کے سبب نہر سویز سے ہونے والی آمدنی بھی بہت کم ہو گئی ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مغربی جہاز راں کمپنیوں کو اس راستے کے معطل ہونے کے نتیجے میں جو نقصان ہو رہا ہے۔ اس کی بھرپائی کے لیے انھوں نے اپنے مال برداری کے نرخوں میں تین گنا اضافہ کر دیا ہے۔ جب کہ صنعتی ممالک کو جو تجارتی نقصان ہو رہا ہے وہ بھی تیار شدہ مصنوعات اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے سے پورا ہو جائے گا۔ اصل گھاٹے میں ترقی پذیر دنیا ہے جو پہلے ہی روس اور یوکرین کی جنگ کے سبب غلے اور کھاد کی مہنگائی و کمیابی کی زخم خوردہ ہے۔ اب اسے باب المندب بند ہونے سے برآمد و درآمد کے تناظر میں اضافی مالی بوجھ کا سامنا ہے۔ اور یہ بوجھ بھی حکومتیں خود اٹھانے کے بجائے اپنے عوام کی کمر پر لادنے پر مجبور ہیں۔ صنعتی و سرمایہ دار ممالک کی جانب سے یوکرین کی بھرپور عسکری و اقتصادی مدد اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ یوکرین اٹھارہ فیصد عالمی غلہ پیدا کرتا ہے۔ باب المندب کھلا رکھنا اس لیے اہم ہے کیونکہ نہ صرف خلیج کا تیل اس راستے سے گزرتا ہے بلکہ عالمی تجارت کی چالیس فیصد سپلائی چین کا دار و مدار باب المندب پر ہے۔ مگر غزہ میں سات اکتوبر کے بعد سے اٹھائیس ہزار سے زائد انسانوں کا قتل اور تئیس لاکھ انسانوں کی املاکی و غذائی بربادی کو روکنا اس لیے اہم نہیں کیونکہ غزہ کی اقتصادی و اسٹرٹیجک اہمیت مغربی دنیا کے لیے زیرو ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں باب المندب کا کیا لغوی مطلب ہے ؟ آنسو بھری راہ گزر۔۔ تکلیف زدہ راستہ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وسعت اللہ خان </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-68311483138115343192024-02-14T18:43:00.000+05:002024-02-14T18:43:52.085+05:00پاکستان میں نئی حکومت کی تشکیل کیسے ہوتی ہے؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhiUMCQDpRxK_Sv2P57bX_h5RugTa4vGnn7B-Cq-fEj71xxEZ-cZrS_ATw13erOxQQsVSJK15VqwZ2bOy4WGz2bZ6PmAnVQtGBDzToLGAkhAw9bh8ow0MNBE-ghifc_hzl84lBUzDoEgURLkOjwhfuVfuog_PrGlhtqxTG-AC293Q8dWuJmTln-gm36z38u/s2000/Pakistan%20Elections%202024%209.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="2000" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhiUMCQDpRxK_Sv2P57bX_h5RugTa4vGnn7B-Cq-fEj71xxEZ-cZrS_ATw13erOxQQsVSJK15VqwZ2bOy4WGz2bZ6PmAnVQtGBDzToLGAkhAw9bh8ow0MNBE-ghifc_hzl84lBUzDoEgURLkOjwhfuVfuog_PrGlhtqxTG-AC293Q8dWuJmTln-gm36z38u/w400-h240/Pakistan%20Elections%202024%209.jpg" width="400" /></a></div>پاکستان میں گذشتہ ہفتے ہونے والے عام انتخابات کے بعد سامنے آنے والے نتائج کے مطابق بظاہر ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی کیوں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو قومی اسمبلی میں اتنی نشستیں نہیں ملیں کہ وہ اپنی حکومت تشکیل کر سکے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ ن کو الیکشن میں 75 نشستیں ملی ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نشستوں کی تعداد 54 ہے۔ دونوں جماعتیں مخلوط حکومت بنانے کے لیے بات چیت کر رہی ہیں۔ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ 93 نشستیں حاصل کیں۔ وہ بھی حکومت سازی کے لیے اتحاد بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسمبلی کی کل 336 نشستوں میں سے 264 نشستوں پر براہ راست انتخابات کے لیے امیدوار میدان میں تھے، اس کے علاوہ 70 مخصوص نشستیں بھی ہیں۔ آنے والے دنوں میں جب نئی حکومت بنانے کی کوششیں کی جائیں گی تو ایوان کے اندر ممکنہ صورت حال کیسے سامنے آ سکتی ہے؟</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiDMs8w0Qoyb06Pojx1HTdxfS2nP2Doip-WTMU69R7_JXgmgbdNiMo40OsDpghRTF-7rnvo9l95zP3MqO7wCdALp1HBclJF6ZPFDfD8TKmsOP_5d7yud02JyJalN8DfHZ988NCgGYMSQZHym6mMkYvvPzWVG48D8xILISJgY20cIb-KjI1E0j0gMhYzQkFj/s670/Pakistan%20Elections%202024%206.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="395" data-original-width="670" height="236" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiDMs8w0Qoyb06Pojx1HTdxfS2nP2Doip-WTMU69R7_JXgmgbdNiMo40OsDpghRTF-7rnvo9l95zP3MqO7wCdALp1HBclJF6ZPFDfD8TKmsOP_5d7yud02JyJalN8DfHZ988NCgGYMSQZHym6mMkYvvPzWVG48D8xILISJgY20cIb-KjI1E0j0gMhYzQkFj/w400-h236/Pakistan%20Elections%202024%206.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">قانون کے مطابق قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کا اجلاس انتخابات کے تین ہفتے کے بعد صدر کی طرف سے بلایا جانا ضروری ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس عام طور پر پہلے ہی بلا لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایوان کا نیا سپیکر منتخب کیا جاتا ہے جس کے بعد قائد ایوان، یا وزیر اعظم کا انتخاب ہوتا ہے جس کے لیے سادہ اکثریت ضروری ہے یعنی 336 میں سے 169 نشستیں. وزیر اعظم کے لیے کئی امیدوار ہو سکتے ہیں۔ اگر پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار اکثریت حاصل نہیں کرتا ہے تو دوسری بار ان دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا جنہوں نے پہلی مرتبہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوتے ہیں۔ ووٹنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کوئی امیدوار اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو جاتا۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد حلف اٹھاتا ہے اور اپنی کابینہ کا اعلان کرتا ہے۔ نگران سیٹ اپ جو انتخابات کی نگرانی کے لیے قائم کیا گیا وہ نئی حکومت کو اقتدار سونپ دیتا ہے۔ جیتنے والی نشستوں کی تعداد کے تناسب سے پارٹیوں کے لیے 70 نشستیں مختص کی گئی ہیں جن میں خواتین کی 60 اور غیر مسلموں کی 10 نشستیں شامل ہیں۔ آزاد امیدوار مخصوص نشستوں کے اہل نہیں ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اگر آزاد امیدوار مخصوص نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بلاک بنانے کے لیے کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونا ہو گا۔ آزاد امیدوار اس وجہ سے ایسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں کیوں کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بطور پارٹی الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا تھا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">روئٹرز </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-60136056421068116002024-02-14T17:52:00.000+05:002024-02-14T17:52:21.479+05:00 نتائج میں بے ضابطگیوں پر الیکشن کمشین کو فوری ایکشن لینا چاہیے<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiD7aAQpPYtWfWXXdqSf75Em706n9TrYhvAZzREwBAwiVnpX_YEssuALTRZ1TlxnTjevnvx3O06XOOF0Fu3uWxq58XQhefPFJEpmCKdLx7bFuSdHvgmbqhnCB8vgNzUv2wPlPyPcnX6DUVyQU3sZCT1-oKrX5QcUEmBl1DlK7rpR2e9sQTyGOn4nmAAP8vw/s670/Pakistan%20Elections%202024%207.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="418" data-original-width="670" height="250" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiD7aAQpPYtWfWXXdqSf75Em706n9TrYhvAZzREwBAwiVnpX_YEssuALTRZ1TlxnTjevnvx3O06XOOF0Fu3uWxq58XQhefPFJEpmCKdLx7bFuSdHvgmbqhnCB8vgNzUv2wPlPyPcnX6DUVyQU3sZCT1-oKrX5QcUEmBl1DlK7rpR2e9sQTyGOn4nmAAP8vw/w400-h250/Pakistan%20Elections%202024%207.jpg" width="400" /></a></div>حکومت کی تشکیل کے لیے بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور کچھ حلقے انتخابی باب کو بند ہوتے دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں گے، جن کے نتائج کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کیا جائے گا۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ شہری، جن میں سے بہت سے لوگوں نے ڈرائے دھمکائے جانے کا سامنا کیا اور اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے لیے کئی رکاوٹوں کو عبور کیا، اب حالات کو نظرانداز کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور اس کی وجہ بھی ہے۔ اس الیکشن میں نمایاں بے ضابطگیاں سامنے آئیں اور ووٹرز کو ان کا جواب ملنا چاہیے، یہ ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ووٹرز کے خدشات کو فوری طور پر دور کرے۔ سب سے اہم مسئلہ وہ ہے جو ملک کے کچھ حصوں میں عوامی مینڈیٹ کی چوری جیسا نظر آتا ہے، یہ بات رپورٹ ہونے والے مختلف نتائج میں پائے جانے والے تضاد سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ بین الاقوامی برادری سمیت دیگر حلقوں میں اس بات پر تشویش بڑھ رہی ہے کہ آخر کیوں الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج ان اعداد و شمار سے بہت مختلف ہیں جو امیدواروں نے ذاتی طور پر جمع کیے تھے یا وہ غیر سرکاری نتائج جو کہ ٹی وی چینلز نے اپنے آزاد ذرائع سے حاصل کیے تھے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjShyapb-gshxeVkGgEis58-1F7BuCyy4XINu5xBHL0zLEtb1VQ3M97unCJHhxgcL45w4h_N_c2QSJSIdCROFcXlpcKa2V_QIXwjFuO_sJ2Qk7oAiWu4_TmDWRn1C4Ve_qC88P7fbiudwF7uaoKEbWuWueqR0dQhK3galF2KZc_KPClP6cKiIu3qJrc0FzA/s863/Pakistan%20Elections%202024%2010.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="486" data-original-width="863" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjShyapb-gshxeVkGgEis58-1F7BuCyy4XINu5xBHL0zLEtb1VQ3M97unCJHhxgcL45w4h_N_c2QSJSIdCROFcXlpcKa2V_QIXwjFuO_sJ2Qk7oAiWu4_TmDWRn1C4Ve_qC88P7fbiudwF7uaoKEbWuWueqR0dQhK3galF2KZc_KPClP6cKiIu3qJrc0FzA/w400-h225/Pakistan%20Elections%202024%2010.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مبصرین کے شکوک و شبہات کو مزید تقویت اس بات سے ملی کہ مخصوص حلقوں کے آر اوز کی جانب سے جاری کردہ فارم 47 میں کچھ واضح بے ضابطگیوں کے ساتھ ساتھ نتائج کو حتمی شکل دینے میں بہت زیادہ وقت لگا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں سے چینلز کے ذریعے رپورٹ کیے گئے نتائج، الیکشن کمیشن کی جانب سے بہت بعد میں جاری کیے گئے نتائج سے قریب تر نظر آتے ہیں تاہم، بہت سے بڑے شہری حلقوں میں، جہاں میڈیا کی موجودگی اور وسائل درحقیقت سب سے زیادہ ہیں، وہاں نتائج میں فرق بہت زیادہ ہے۔ واضح طور پر، ان حلقوں میں نتائج کو مرتب کرنے کے دوران کچھ گڑبڑ ہوئی، جس کی فوری طور پر چھان بین کرنے اور اس کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان جگہوں پر تحقیقات مشکل ہو جائیں گی جہاں امیدواروں کو فارم 45 نہیں دیا گیا، یہ ایک سنگین بے ضابطگی ہے جسے کئی پولنگ مبصرین نے نوٹ کیا ہے۔ تاہم متعدد امیدوار ایسے ہیں جو نتائج کو چیلنج کر سکتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ان میں دیگر کے علاوہ، کراچی، لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کئی آزاد امیدوار بھی شامل ہیں، جن میں سے کچھ نے اپنی جیت کو راتوں رات شکست میں بدلتے دیکھا۔ لاہور میں سلمان اکرم راجا پہلے ہی عدالت میں آر او کے نتائج چیلنج کر چکے ہیں۔ دیگر امیدوار بھی اس عمل کی پیروی کریں گے۔ اس سے پہلے کہ معاملات مزید بگڑ جائیں، الیکشن کمیشن کو اس پر ایکشن لینا چاہیے۔ موجودہ سی ای سی نے فروری 2021ء کے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں ہونے والی دھاندلی پر سخت اور اصولی کارروائی کی تھی، جس کا آغاز نتائج کو روکنے سے ہوا تھا۔ اب بھی اسی طرح کی کارروائی کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان حلقوں میں جہاں ہارنے والے امیدواروں کے پاس اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت موجود ہیں۔ مزید برآں، جہاں بھی قواعد اس کی اجازت دیں وہاں الیکشن کمیشن کو دوبارہ گنتی کی اجازت دینی چاہیے۔ اسے ایسی معلومات بھی جاری کرنی چاہیے جو آڈیٹرز کو اس کے نتائج کو کراس چیک کرنے میں مدد دے سکے۔ یہ ادارے کے لیے اپنی ساکھ بحال کرنے کا موقع ہے۔ بین الاقوامی دباؤ بڑھنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو تیزی سے کام کرنا چاہیے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-25382849318327586082024-02-08T15:17:00.000+05:002024-02-08T15:17:28.354+05:00میں کس کو ووٹ دوں؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhFEKO6OA50nLYeLIfHILIKUfEprhJksP1iPHRtKxYCABnFozm_Zpu8Ji3h4f5qwmTmWx_fFlMaTOTExwiuOLyCmHe5F42HavoKBD10FIg2lrpq5QAoM8xdrcXYgxoU4zedChXeGri08kZkFx1TsyTA_brLKP5letjnIfCKaJ6hYHGiofT_berkTp7KLihK/s540/Pakistan%20election%202024%207.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="405" data-original-width="540" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhFEKO6OA50nLYeLIfHILIKUfEprhJksP1iPHRtKxYCABnFozm_Zpu8Ji3h4f5qwmTmWx_fFlMaTOTExwiuOLyCmHe5F42HavoKBD10FIg2lrpq5QAoM8xdrcXYgxoU4zedChXeGri08kZkFx1TsyTA_brLKP5letjnIfCKaJ6hYHGiofT_berkTp7KLihK/w400-h300/Pakistan%20election%202024%207.jpg" width="400" /></a></div>آج الیکشن کا دن ہے اور میں الجھن میں ہوں کہ کس کو ووٹ دوں۔ میری پہلی پہلی پریشانی یہ ہے کہ میرے حلقے میں سارے امیدوار ہی اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ سنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران نے آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت باقاعدہ چھانٹی کے بعد یہ طے کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نیک پاک ہیں، اللہ والے ہیں، پارسا، سمجھدار، ایماندار اور امین ہیں۔ فاسق نہیں ہیں، اچھے کردار کے حامل ہیں، اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہیں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔ مجھے تو آج تک معلوم ہی نہیں تھا کہ ایسی نیک ہستیاں اتنی بڑی تعداد میں میرے حلقے میں رہتی ہیں۔ میں اب سر پکڑ کر بیٹھا ہوں کہ اتنے ڈھیر سارے اللہ والوں میں سے کس کو ووٹ دوں اور کس کو نہ دوں۔ کافی سوچنے کے بعد فیصلہ کیا کہ سب کو ووٹ دینا چاہیے لیکن معلوم ہوا کہ اس کی اجازت نہیں ہے۔ ایک ماہر قانون سے رابطہ کیا کہ کوئی قانونی گنجائش نکالو تا کہ سب بزرگوں کو ووٹ دے سکوں تو اس نے کہا کہ جو تم چاہتے ہو یہ تو نہیں ہو سکتا البتہ اس نے مفت قانونی مشورہ دیا ہے کہ میں پولنگ سٹیشن جانے کی بجائے کسی اچھے طبیب کے پاس چلا جاؤں۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ میں ووٹ ڈالنے جاؤں یا طبیب کے پاس جاؤں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">دوسری پریشانی یہ بنی کہ ابھی ابھی ایک سیانے نے بتایا ہے کہ ووٹوں سے بننے والا وزیراعظم یہاں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے حکمت اسی میں ہے کہ صرف نگران وزیراعظم کو منتخب کیا جائے۔ اس نے سمجھایا کہ منتخب وزیراعظم پانی کا بلبلہ ہوتا ہے۔ اس بے چارے کی حکومت مدت ہی پوری نہیں کر پاتی اور بعد میں وہ سیدھا جیل جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ صرف اس کو ووٹ دوں گا جو نگران وزیراعظم بننا چاہے گا۔ معلوم ہوا کہ ووٹ سے نگران وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ ووٹوں سے صرف منتخب وزیراعظم بنتے ہیں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ کیا مجھے ان برگزیدہ لوگوں میں سے کسی کو ووٹ دے کر مصیبت میں ڈالنا چاہیے؟ ابھی اسی شش و پنج ہی میں تھا کہ ایک سیانے نے بتایا کہ ووٹ ڈالنے والا آدمی اہم نہیں ہوتا ووٹ گننے والا اہم ہوتا ہے۔ میں نے اس افواہ پر کان تو بالکل نہیں دھرے لیکن سچی بات ہے کہ اپنی اس ناقدری پر دل کچھ پھیکا سا ہو گیا ہے۔ اسی پریشانی میں سوچا کہ نواز شریف صاحب اور بلاول بھٹو صاحب کی تقریر سنتا ہوں اور جو مشورہ یہ دیں گے، اس پر عمل کروں گا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEimJ9hSPiPQZX_1Dlo4305KifSDGcSzcdIplj8ymZRAq_Q15XDQV2E83WroLYIkuSTWgeWdV2FR2k2igZBBp8EPC6MBV_G3xJ-AESwDyDW9HxEW_IjjfbHL8oCSqpDqJ1-cakhbLI3AkYmU6PBUklwaLqfOrZmzzWuOBhXVNtTOWoxTMRKS06hn27U_i2NZ/s670/Pakistan%20election%202024%206.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="395" data-original-width="670" height="236" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEimJ9hSPiPQZX_1Dlo4305KifSDGcSzcdIplj8ymZRAq_Q15XDQV2E83WroLYIkuSTWgeWdV2FR2k2igZBBp8EPC6MBV_G3xJ-AESwDyDW9HxEW_IjjfbHL8oCSqpDqJ1-cakhbLI3AkYmU6PBUklwaLqfOrZmzzWuOBhXVNtTOWoxTMRKS06hn27U_i2NZ/w400-h236/Pakistan%20election%202024%206.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بلاول صاحب فرمانے لگے کہ پرانے سیاست دانوں کو ہرگز ووٹ نہ دینا اور میاں صاحب نے حکم دیا کہ باریاں لینے والوں کو تو بالکل بھی ووٹ نہ دینا۔ میں نے ان دونوں کی بات پلے باندھ لی اور ان دونوں کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ میری الجھن مزید بڑھ گئی کہ اب کیا کروں۔ ایک خیال آیا کہ اب لگے ہاتھوں عمران خان صاحب کا خطاب بھی سن لوں اور پھر فیصلہ کر لوں کہ ووٹ کسے دینا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی سماعتوں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ یہ عزیمت کا سفر ہے اور اب مزید ان کے بس کی بات نہیں۔ پھر سوچا میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو ووٹ دے دیتا ہوں لیکن معلوم ہوا کہ ان کا تو مخاطب ووٹر ہی صرف ایک مکتب فکر ہے، ان کے امیدواران کی اکثریت بھی اسی پس منظر سے ہے۔ انہیں ایک عامی کے ووٹ کی جب ضرورت ہی نہیں تو مجھے اس تکلف سے انہیں بد مزہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔<br />پھر میں نے مختلف جماعتوں کے منشور دیکھے، یہ اقوالِ زریں کا خوب صورت مجموعہ تھے۔ میں اتنا متاثر ہوا کہ میں نے ایک بار پھر سب جماعتوں کو ووٹ دینے کا سوچا مگر یاد آ یا کہ اس کی تو اجازت ہی نہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">روایتی سیاست سے بے زاری تھی مگر تبدیلی کے سونامی نے جو تارا مسیحائی کی تو سارے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ اب وہ عالم بھی نہیں ہے کہ کوئی نعروں اور جذبات سے بے وقوف بنا لے کیونکہ اب سبھی کا نامہ اعمال ہمارے سامنے ہے۔ سبھی اقتدار میں رہ چکے اور سبھی کم و بیش ایک جیسے نکلے، بلکہ جنہیں تبدیلی کا دعویٰ تھا ان کے دستِ ہنر نے اس معاشرے کو دوسروں سے زیادہ گھاؤ دیے۔ بھٹو صاحب زندہ ہیں لیکن اتفاق دیکھیے کہ ان سے ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہو سکی۔ جہاں جہاں شعور کی سطح بڑھتی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی کا وجود سمٹتا جا رہا ہے۔ ووٹ کو عزت کیسے دینی ہے یہ اب کوئی بتا ہی نہیں رہا۔ جو دوسروں کے نامہ سیاہ کی تیرگی تھی وہ اپنی زلف میں آئی تو ضد ہے کہ اسے حسن کہا جائے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو حسبِ ضرورت اسلام دشمن قرار دے کر دونوں کی قربت میں رہنے والے مولانا ویسے ہی اقتدار کے کوہ کن ہیں، حکومت کسی کی بھی ہوئی کابینہ میں ان کا حصہ بقدر جثہ یقینی ہے۔ تبدیلی ویسے ہی ایک بھیانک خواب نکلی۔ سونامی، اسم با مسمی ثابت ہوا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اب پھر ووٹ کس کو دیا جائے اور کیوں دیا جائے؟ اگر آپ میری رہنمائی کر دیں تو ابھی جا کر جلدی سے ووٹ ڈال کر اپنا قومی فریضہ ادا کر آؤں۔ لیکن اگر آپ میری رہنمائی نہ بھی فرمائی تو آپ کی عین نوازش ہو گی کیونکہ خوش قسمتی سے یہ سب وہ لوگ ہیں جو آرٹیکل 62 کے تحت مستند قسم کے نیک پاک ہیں، اللہ والے ہیں، پارسا، سمجھدار ، ایماندار اور امین ہیں۔ فاسق نہیں ہیں، اچھے کردار کے حامل ہیں، اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہیں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔ ان میں سے جو بھی جیت جائے، فتح حق کی ہو گی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آصف محمود <br /></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو</h2> <div class="cell large-shrink" dir="rtl" style="-webkit-box-flex: 0; background-color: white; box-sizing: inherit; color: #281e1e; flex: 0 0 auto; font-family: "adobe arabic", Tahoma, Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 20px; margin: 0px; min-height: 0px; min-width: 0px; padding: 0px; text-align: right; width: auto; word-spacing: -1px;"><div class="share-block" style="box-sizing: inherit; display: inline-block; letter-spacing: 0px !important; margin: 0px 0px 1rem; padding: 0px; vertical-align: middle;"><div class="socials-btns" style="box-sizing: inherit; display: flex; letter-spacing: 0px !important; margin: 0px; padding: 0px;"></div></div></div>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-43265101242222229192024-02-08T12:04:00.001+05:002024-02-08T12:04:47.650+05:00پاکستان میں ادویات کی قلت کی شکایت کے لیے ایپ متعارف<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgSw2edIpNioL-My-EP5O0zWj-aKxgIAmWtpBfTvUN9oB3Kl95etyb72PyG5Lro_Hjhr4IhX4fgoHNbCeYQQP9egD60F6vs4texJTwe5XuRPqOSIs0ViqP1-EbjiT82IkddQhjxB6eCyJNrBoOgQ1FILSVbge51UuEDZ2l5A3vg_Zyyo0LmZDUEEcaSH5Ct/s4000/Drug%20Shortage%20App%20in%20Pakistan%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2400" data-original-width="4000" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgSw2edIpNioL-My-EP5O0zWj-aKxgIAmWtpBfTvUN9oB3Kl95etyb72PyG5Lro_Hjhr4IhX4fgoHNbCeYQQP9egD60F6vs4texJTwe5XuRPqOSIs0ViqP1-EbjiT82IkddQhjxB6eCyJNrBoOgQ1FILSVbge51UuEDZ2l5A3vg_Zyyo0LmZDUEEcaSH5Ct/w400-h240/Drug%20Shortage%20App%20in%20Pakistan%204.jpg" width="400" /></a></div>ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ’ڈریپ‘ نے ملک بھر میں ادویات کی قلت اور عدم دستیابی کی شکایت کے لیے پہلی بار موبائل ایپلی کیشن متعارف کرا دی۔ ’ڈان‘ میں شائع خبر کے مطابق لاہور میں صوبائی ڈرگ کوالٹی کنٹرول بورڈ کے مذکورہ ایپلی کیشن کے ذریعے نہ صرف ادویات کی عدم دستیابی سے متعلق معلومات حاصل ہوں گی بلکہ اس سے یہ بھی پتا چلے گا کہ کس شہر میں مصنوعی قلت اور زخیرہ اندوزی کی جا رہی ہے۔ ’ڈرگ شارٹیج رپورٹنگ‘ کے نام سے متعارف کرائی گئی ایپلی کیشن کو انتہائی سادہ رکھا گیا ہے اور اسے گوگل پلے اسٹور سے مفت میں ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ ایپلی کیشن پر شکایت درج کروانے کے لیے اس پر اکاؤنٹ بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی، تاہم شکایت کنندہ کو اپنے شناختی کارڈ سمیت موبائل نمبر اور نام فراہم کرنا پڑتا ہے۔ شکایت کنندہ کو شہر کے نام لکھنے سمیت دوائی کا نام اور اس کا ڈوز یعنی کس نوعیت یا گرام کی دوائی کی معلومات بھی دینی پڑے گی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgi3pOoBf9I03Cnt5maF3hH4uuKQvC6L4w9q9U2QK21Eo80UopLGPCaz9dUFfLKRqI2wpPvMxQ6ilCM2PNy0aUv6v7_VrJKWrLBkL4-NQ8W1ZPgDMxWO89Held-QIHt_Ola07T_mLfpw7yHsPFTpCwps-d-f0f_oNcFlB4v1_fgQfNTmTPToHkigPnR-8-p/s5472/Drug%20Shortage%20App%20in%20Pakistan%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3648" data-original-width="5472" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgi3pOoBf9I03Cnt5maF3hH4uuKQvC6L4w9q9U2QK21Eo80UopLGPCaz9dUFfLKRqI2wpPvMxQ6ilCM2PNy0aUv6v7_VrJKWrLBkL4-NQ8W1ZPgDMxWO89Held-QIHt_Ola07T_mLfpw7yHsPFTpCwps-d-f0f_oNcFlB4v1_fgQfNTmTPToHkigPnR-8-p/w400-h266/Drug%20Shortage%20App%20in%20Pakistan%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مذکورہ ایپلی کیشن کے ذریعے کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، حیدرآباد، سکھر اور جیکب آباد سمیت متعدد شہروں کے افراد ادویات کی قلت سے متعلق شکایت درج کروا سکتے ہیں۔ اگرچہ مذکورہ ایپلی کیشن کو پورے پاکستان میں ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے، تاہم اسے ابھی تمام شہروں میں متعارف نہیں کرایا گیا۔ ایپلی کیشن کے ذریعے ادویات کی قلت کی شکایت کے لیے جہاں عام افراد شکایت درج کروا سکتے ہیں، وہیں میڈیکل اسٹورز مالکان بھی اس کی عدم دستیابی سے متعلق شکایت کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایپلی کیشن میں شہروں کے ڈرگ انسپکٹرز سے متعلق معلومات بھی فراہم کی گئی ہے، تاہم فوری طور پر تمام شہروں کے ڈرگ انسپکٹرز کی معلومات دستیاب نہیں کی گئی۔ اسی طرح ایپلی کیشن پر اپنی شکایت سے متعلق معلومات جانچنے کا آپشن بھی رکھا گیا ہے، یعنی شکایت درج کروانے کے بعد صارفین کچھ دن کے بعد اس کا اسٹیٹس بھی معلوم کر سکیں گے۔ ایپلی کیشن کو گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز</h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-43811673683456021802024-02-08T11:56:00.000+05:002024-02-08T11:56:23.491+05:00ہوبہو ٹوئٹر جیسا پلیٹ فارم بلیو اسکائی متعارف کرا دیا گیا<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgKnUz3wt0dqMRJcsrfcULIgEQ0oEld_TqvtzsR3zOAAMf-iPq7kmEGsQ2dsyOrld-2-gOwMKq_lm6N5dXBhbKEUsaT5mmVaIwbLC-X1g-zGdk0CbI1JJyEPayqVVmhLk_SYl7ES9xgK1rSnNI2wbRyhfho6j3jzrmEUi9k2eyH3_DcZ_13YMTksUg_gbLN/s2048/Blue%20Sky%20App%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1363" data-original-width="2048" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgKnUz3wt0dqMRJcsrfcULIgEQ0oEld_TqvtzsR3zOAAMf-iPq7kmEGsQ2dsyOrld-2-gOwMKq_lm6N5dXBhbKEUsaT5mmVaIwbLC-X1g-zGdk0CbI1JJyEPayqVVmhLk_SYl7ES9xgK1rSnNI2wbRyhfho6j3jzrmEUi9k2eyH3_DcZ_13YMTksUg_gbLN/w400-h266/Blue%20Sky%20App%203.jpg" width="400" /></a></div><br />ٹوئٹر کے سابق مالک جیک ڈورسی نے انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ماہر جے گریبر (Jay Graber) کے ہمراہ ہوبہو ٹوئٹر جیسا اپنا پلیٹ فارم بلیو اسکائی متعارف کرا دیا۔ بلیو اسکائی کو آزمائش کے لیے اپریل 2023 میں متعارف کرایا گیا تھا لیکن اب اسے باضابطہ طور پر تمام صارفین کے لیے پیش کر دیا گیا۔ بلیو اسکائی کو متعارف کرانے کا اعلان پلیٹ فارم کے ٹوئٹر پر بنے اکاؤنٹ میں کیا گیا۔ بلیو اسکائی پر اکاؤنٹ بنانے کا مرحلہ انتہائی آسان رکھا گیا ہے، اکاؤنٹ بناتے وقت فون نمبر بھی لیا جاتا ہے، جہاں پر تصدیق کے لیے کوڈ بھیجا جاتا ہے، جسے شامل کرنے کے بعد ہی اکاؤنٹ بنتا ہے۔ بلیو اسکائی کا ہوم اور فیڈ پیج بلکل ٹوئٹر جیسا ہی رکھا گیا ہے اور وہاں ہیش ٹیگز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، تاہم فوری طور پر ہیش ٹیگز کے ذریعے ٹرینڈز یا مواد کو تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjkZvv664RegOzJfrw1JFRErEdznHSo4tHAps7Ho3wIp3oBePg7x06YZcocogQR4h1L_qxlOrqMp_XVoChOc_JAMrinZ0fbkTqp1FBrkgiXuKdQKvFGqmfC36qHtnqULkLyvPLBOLVlk-b_ZWb2zBde1pjexIE5j10liBTK95_3oe5OniG_ONF3o2EjfuHP/s1486/Blue%20Sky%20App%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1062" data-original-width="1486" height="286" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjkZvv664RegOzJfrw1JFRErEdznHSo4tHAps7Ho3wIp3oBePg7x06YZcocogQR4h1L_qxlOrqMp_XVoChOc_JAMrinZ0fbkTqp1FBrkgiXuKdQKvFGqmfC36qHtnqULkLyvPLBOLVlk-b_ZWb2zBde1pjexIE5j10liBTK95_3oe5OniG_ONF3o2EjfuHP/w400-h286/Blue%20Sky%20App%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بلیو اسکائی پر بھی نئی پوسٹ کے لیے 300 الفاظ کی حد رکھی گئی ہے جب کہ وہاں پر بھی پوسٹس کو ری ٹوئٹ کی طرح شیئر کیا جا سکتا ہے۔ بلیو اسکائی پر تقریبا ٹوئٹر سے ملتے جلتے تمام فیچرز دیے گئے ہیں، جن میں ماڈریشن، لسٹس، فالوونگ اور فالوورز سمیت فار یو کے ٹیبز بھی شامل ہیں۔ خیال رہے کہ جیک ڈورسی نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ٹوئٹر کو 2005 میں بنانے کے بعد 2006 میں اسے متعارف کرایا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا سب سے موثر ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن گیا۔ بعد ازاں انہوں نےٹوئٹر کو 2022 میں دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کو فروخت کردیا تھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز</h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-80508441821245479832024-02-07T18:01:00.000+05:002024-02-07T18:01:16.157+05:00ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور آپ اپنا ووٹ ضائع ہونے سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEij3gb2-9gMT-qSKaLQ2R1EmwL6PmVBg0j_6H8SrlEjecOu3xFlY04dqvjlZ3B2aZ3Q997VApD35yu-HbaoIn57GmyaGFYgWrQATSB8ROYBUjLmKNDIjVfbI6PxyMVX_pIaUhx8KCVr12AQ2lUyiu_mD4OiOU-a7wxZatTXZ_XOFkvYGN-uo_68dU44my2l/s3050/Vote%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1900" data-original-width="3050" height="249" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEij3gb2-9gMT-qSKaLQ2R1EmwL6PmVBg0j_6H8SrlEjecOu3xFlY04dqvjlZ3B2aZ3Q997VApD35yu-HbaoIn57GmyaGFYgWrQATSB8ROYBUjLmKNDIjVfbI6PxyMVX_pIaUhx8KCVr12AQ2lUyiu_mD4OiOU-a7wxZatTXZ_XOFkvYGN-uo_68dU44my2l/w400-h249/Vote%203.jpg" width="400" /></a></div>ووٹ ڈالنا قومی ذمے داری ہے لیکن الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حقدار کون ہے؟<br />الیکشن کے دوران ووٹ ڈالنے کےلیے ووٹر کے پاس اصل قومی شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے، نقل قابل قبول نہیں تاہم زائد المیعاد شناختی کارڈ کے حامل افراد بھی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں جبکہ قومی شناختی کارڈ کے سوا کوئی بھی اور دستاویز قابل قبول نہیں۔ بیلٹ پیپر حاصل کرنے کے بعد ووٹر قومی اور صوبائی اسمبلی کے اپنے پسندیدہ امیدواروں کے انتخابی نشان پر مہر لگائے گا۔ یاد رہے آپ کا ووٹ ضائع ہو سکتا ہے، اس لیے بیلٹ پیپر فولڈ کرنے کے بعد اس بات کو یقینی بنائیں کہ لگائی گئی مہر کی سیاہی سوکھ چکی ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhmhWiWekebetE9jn4pnz5lQSD__BBnTuvcypdNudQ5tUwLQQs6RqtXXPiFwOJ5X-NuJyxpyzV8129s5EH5WizCa0fG4AnEZgW9nhBQeRQFtxdssLwxfQdnYKg83dRYrfib5GUCPHhubDxsXGYtOpFHxlfBvHlA6-KAX3sLJEMu7W42GMRO3UnEacusz3zq/s3904/Vote%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3328" data-original-width="3904" height="341" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhmhWiWekebetE9jn4pnz5lQSD__BBnTuvcypdNudQ5tUwLQQs6RqtXXPiFwOJ5X-NuJyxpyzV8129s5EH5WizCa0fG4AnEZgW9nhBQeRQFtxdssLwxfQdnYKg83dRYrfib5GUCPHhubDxsXGYtOpFHxlfBvHlA6-KAX3sLJEMu7W42GMRO3UnEacusz3zq/w400-h341/Vote%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک ہی امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگائیں، ایک سے زائد امیدواروں کے انتخابی نشان پر ہرگز مہر نہ لگائیں، اگر آپ نے 2 امیدواروں کے انتخابی نشان کے درمیانی حصے پر مہر لگائی تو بھی آپ کا ووٹ شمار نہیں ہو گا بیلٹ پیپر پر صرف مہر کا استعمال کیا جائے، انگوٹھے کا نشان بیلٹ پیپر کے کسی بھی حصے پر لگائے جانے کی صورت میں بھی آپ کا ووٹ ضائع ہو جائے گا۔ بیلٹ پیپر کا کوئی بھی حصہ پھاڑ دینے، اس پر کسی قسم کی کوئی پرچی چسپاں کرنے کی صورت میں بھی ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ اپنے ووٹ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے کسی بھی غلطی کی صورت میں ووٹر پریزائڈنگ افسر سے نیا بیلٹ پیپرحاصل کر سکتا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ جنگ</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-61889001178023454342024-02-07T11:18:00.000+05:002024-02-07T11:18:29.879+05:00معذرت فیس بک، اب کوئی آپ کو ’لائیک‘ نہیں کرتا<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgdPcYHBJ1D3b8ra0OWMn5-dtOOM1FzIkZOZ0al9f1ysDkh7nRjrqShDbqlHK15UFCuOVN_ocTE56w-PVEEKUYYoKjeqFe3fDHJyb7aNRVnRvX67bLboS2OovRMGIMlgEkfl_tdDecbVsVsOudkTub4Pl0YqrLdIB2LWkCvEduqJbjzzqhXEUxPaUaNRaQo/s3237/Facebook%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2144" data-original-width="3237" height="265" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgdPcYHBJ1D3b8ra0OWMn5-dtOOM1FzIkZOZ0al9f1ysDkh7nRjrqShDbqlHK15UFCuOVN_ocTE56w-PVEEKUYYoKjeqFe3fDHJyb7aNRVnRvX67bLboS2OovRMGIMlgEkfl_tdDecbVsVsOudkTub4Pl0YqrLdIB2LWkCvEduqJbjzzqhXEUxPaUaNRaQo/w400-h265/Facebook%203.jpg" width="400" /></a></div>سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کو 20 سال ہو چکے ہیں اور اس حقیقت کو بھول جانا آپ کی غلطی ہو گا۔ بہرحال اگر فیس بک کی کوئی اچھی بات ہے تو یہ کہ وہ آپ کو ان لوگوں کی سالگرہ یاد دلاتی ہے جن کے آپ واقعی قریب ہوا کرتے تھے لیکن برسوں سے یہ رابطہ ختم ہو چکا اور واقعی اس وقت اس کی یہی بات اچھی ہے۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے مارک زکربرگ کو یہ جاننے کا موقع مل سکے کہ جب انہوں نے 2004 میں پہلی بار فیس بک لائیو کا آغاز کیا تو دنیا کو کس قسم کی تباہی سے دوچار کر رہے تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے کے ایک طریقے کے طور پر جو کچھ شروع کیا، وہ بالآخر ڈیٹا سے ذاتی معلومات کے حصول، پروپیگنڈا اور خوف ناک بنیاد پرستی پھیلانے کا سبب بن گئی، جس مسئلے کا آج ہم سامنا کر رہے ہیں۔ کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ شخص جس نے خواتین کو ایک شے کے طور پر پیش کرنے کے لیے ویب سائٹ بنائی وہ اس طرح کے غلط کام میں سہولت کاری کے قابل ہو گا؟ میں نے خاصی تاخیر کے ساتھ فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ بنایا، جب 2009 میں ہمیں سٹوڈنٹ ہاؤس میں اضافی کمرے میں کسی کے رہائش اختیار کرنے کی اشد ضرورت تھی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ کمرہ ہمارے ایک ساتھی کے تعلیم ترک کرنے کے بعد خالی ہوا۔ تب تک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم مائی سپیس کا سختی کے ساتھ وفادار ہوا کرتا تھا اور مجھے پورا یقین تھا کہ بالآخر اس کے شریک بانی ٹام واپس آئیں گے اور اس گھٹیا نقال کو پچھاڑ دیں گے۔ میرا مطلب فیس بک ہے کیا؟ آپ اپنے ہوم پیچ پر ’ڈیتھ کیب فار کیوٹی‘ نامی راک بینڈ کا گانا نہیں رکھ سکتے۔ ماضی میں جائیں تو ایسے اشارے ملیں گے کہ ممکن ہے فیس بک مکمل طور پر قابل بھروسہ ثابت نہ ہو۔ جس طرح ہمیں کسی دوسرے شخص (’ریان کوگن ڈیٹھ فار کیوٹی کا گانا سن رہے ہیں‘) کا ذکر کرتے ہوئے فیس بک پر پوسٹوں کا آغاز کرتے تھے۔ جس طرح ہم دوسرے لوگوں کی پوسٹوں پر تبصرے کے حصے میں نجی گفتگو شروع کرتے تھے۔ (یو او کے؟‘)۔ تعلقات کا سٹیٹس تبدیل کر کے جس انداز میں ہم اپنے رومانوی پارٹنر کے بارے میں سرعام بات کرتے تھے۔ (’نہیں۔ میں ٹھیک نہیں۔ یہ پیچیدہ مسئلہ ہے۔‘) کہا جا رہا ہے کہ فیس بک کے اپنے فوائد ضرور تھے۔ یہ تقریبات کی منصوبہ بندی اور لوگوں کو مدعو کرنے کا ایک عمدہ طریقہ تھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhMYYCov5dQlwdy33J5qkiE7PZOA6YyzHfX1EEvHWrfeVPRUkFLbwH9O1E1zh2PPphHKV3E1O0SdXHaQ2PH75YeZJm4Zso6hWWdRR5HltrxIGyd5XvqHss6B7UFc096jBbDKHlf-2awCM2-Ybbz8Wo9Seyggp0razyLkw6dBRuTGkBf4IqLULoPqlxWi5WZ/s6016/Facebook%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4000" data-original-width="6016" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhMYYCov5dQlwdy33J5qkiE7PZOA6YyzHfX1EEvHWrfeVPRUkFLbwH9O1E1zh2PPphHKV3E1O0SdXHaQ2PH75YeZJm4Zso6hWWdRR5HltrxIGyd5XvqHss6B7UFc096jBbDKHlf-2awCM2-Ybbz8Wo9Seyggp0razyLkw6dBRuTGkBf4IqLULoPqlxWi5WZ/w400-h266/Facebook%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ ہم خیال لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے اچھا تھا، جن کے ساتھ آپ مخصوص دلچسپیاں اور مشاغل شیئر کرتے تھے۔ اور یہ ان لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے پہلی ویب سائٹ تھی جن کے ساتھ آپ سکول جاتے تھے اور حسد سے اپنی زندگی کا موازنہ ان کی زندگی سے کرتے تھے۔ معذرت چاہتا ہوں میرا مطلب ’پرانے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہنا‘ تھا۔ تاہم زیادہ تر لوگوں کی طرح میں نے واقعی کئی عرصے فیس بک استعمال نہیں کیا۔ سوشل میڈیا کے ایک وقت کے بادشاہ کی تقریباً ہر خصوصیت کو دوسری ویب سائٹس نے تبدیل کیا اور بہتر بنایا۔ اگر میں واضح مقصد ظاہر نہ کرنا چاہتا ہوں تو میں ایکس (سابق ٹوئٹر) پر جاتا ہوں۔ اگر میں کسی سابق پارٹنر کا گلہ کرنا چاہتا ہوں تو میں انسٹاگرام پر جاتا ہوں۔ میں جہاز چھوڑنے پر لوگوں کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ ایک موقعے پر ہمارے تمام والدین اور رشتہ دار سوشل میڈیا کا حصہ بن گئے اور اس فیس بک پر قابض ہو گئے جو کبھی خوبصورت حویلی ہوا کرتی تھی۔ ’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں، انکل پیٹ؟ میری تمام خاتون دوستوں کی پوسٹوں کو لائیک کرنا بند کریں۔‘</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آج کل فیس بک 50 سال سے کم عمر اور سیاسی طور پر بائیں بازو یا انقلابی خیالات کے مالک کسی بھی شخص کے لیے ناقابل استعمال ہے۔ شاذ و نادر مواقع پر جب میں لاگ اِن کرتا ہوں تو مجھے فوری طور پر قابل اعتراض میمز، ویب سائٹس سے جعلی خبروں اور مصنوعات اور خدمات کے اشتہارات دیکھنے پڑتے ہیں جو حقیقی ہونے کا دکھاوا تک نہیں کرتے۔ ایسا لگتا ہے کہ فیس بک کا واحد مقصد یہ رہ گیا ہے کہ وہ مجھ سے باقی رہ جانے والا وہ احترام چھین لے جو میرے اندر ان بڑوں کے لیے ہے، جنہوں نے میری پرورش کی۔ یہ لوگ کرہ ارض کے سب سے زیادہ سادہ اور کم پڑھے لوگوں میں شامل لوگوں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ فیس بک پر جانا ایسا ہی ہے جیسے کسی ڈراؤنے تھیم پارک میں جایا جائے۔ اس کے رنگ پھیکے پڑ چکے ہیں۔ ہر بات عجیب سی ہو چکی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں زیادہ دیر تک پلیٹ فارم پر موجود رہا تو مجھے قتل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا معیار پہلے کے مقابلے میں گر چکا ہے لیکن اپنے عروج پر بھی یہ زیادہ متاثر کن نہیں تھا۔ ہاں ایک بات ہے کہ فیس بک اب بھی اتنی برا نہیں جتنا ایکس یا سابقہ ٹوئٹر ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">رائن کوگن </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو</h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-42092736637279973332024-02-06T11:49:00.000+05:002024-02-06T11:49:02.111+05:00فیس بُک کے قیام کو بیس سال مکمل ہو گئے<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiqpOdLKB48va94iWBGfwl4kIVE-ngjdlGozuTNVu703wys84-XAQRWTw3-rTghlSUEtPtHcXqwbq7SYYkzmqcXRzS_4457YPY3OrxHshk9LBNehhCcWWSxqPHXR2t0BrHzXcENZTGntS-vc2R44fC0NdvhmUtG9j0jperBVkb-IvajiFMbOCYY4Moi-rMd/s4695/Facebook%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3265" data-original-width="4695" height="279" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiqpOdLKB48va94iWBGfwl4kIVE-ngjdlGozuTNVu703wys84-XAQRWTw3-rTghlSUEtPtHcXqwbq7SYYkzmqcXRzS_4457YPY3OrxHshk9LBNehhCcWWSxqPHXR2t0BrHzXcENZTGntS-vc2R44fC0NdvhmUtG9j0jperBVkb-IvajiFMbOCYY4Moi-rMd/w400-h279/Facebook%203.jpg" width="400" /></a></div>فیس بُک کے قیام کو 20 سال مکمل ہو گئے ہیں، آج تک فیس بُک دنیا کا مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے اور اس کے ڈیزائن میں بھی ایک درجن سے زائد مرتبہ تبدیلی آچکی ہے۔ 2004 میں، جب تیز رفتار انٹرنیٹ عام ہو رہا تھا اور موبائل فون مقبول ہو رہے تھے، مارک زکربرگ اور ہارورڈ یونیورسٹی میں ان کے کالج کے چند دوستوں نے 4 فروری کو ’دی فیس بک‘ کے نام سے ایک سوشل نیٹ ورک شروع کیا۔ چند سالوں کے اندر یہ پلیٹ فارم دنیا کے سب سے بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے طور پر سامنے آگیا اور مقبول ہوتا چلا گیا، آج فیس بُک کو 3 ارب سے زائد لوگ استعمال کرتے ہیں۔ فیس بک کا نام تعلیمی سال کے آغاز پر یونیورسٹیوں میں تقسیم ہونے والی فزیکل اسٹوڈنٹ ڈائرکٹری کے نام پر رکھا گیا تھا، جسے عام طور پر فیس اور بُک کہا جاتا ہے۔ مارک زکر برگ نے 4 فروری 2004 کو جب یہ سوشل نیٹ ورک شروع کیا تو ابتدائی طور پر اس کا نام ’دی فیس بُک‘ رکھا گیا لیکن 2005 میں اس کے نام سے ’دی‘ (یعنی The) کا لفظ ہٹا دیا گیا جس کے بعد اسے باقاعدہ طور پر facebook.com یا فیس بُک ڈاٹ کام کے طور پر جانا جاتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiY1JqXesp_fMzL0ElMCMDpkA1uOvM0jcWcuuPd34ccdsAQZ9uQErLtiLo4bpNvxbAH4REWQaCREzNUKbHC4vOZ6yKSbWCd7FnKHQTNkkILAbXgh7UeZwT_pO92n5mR_BFvzip3PsQffKPx6x8gpzI1bftlUSA_gB5-uko0R6JmnQZVWB6HhIUSV6cPHao2/s5184/Facebook%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3888" data-original-width="5184" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiY1JqXesp_fMzL0ElMCMDpkA1uOvM0jcWcuuPd34ccdsAQZ9uQErLtiLo4bpNvxbAH4REWQaCREzNUKbHC4vOZ6yKSbWCd7FnKHQTNkkILAbXgh7UeZwT_pO92n5mR_BFvzip3PsQffKPx6x8gpzI1bftlUSA_gB5-uko0R6JmnQZVWB6HhIUSV6cPHao2/w400-h300/Facebook%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">فیس بک قیام ہونے کے ایک سال کے اندر ہی پلیٹ فارم کو 10 لاکھ صارفین جوائن کر چکے تھے۔ 2006 کے اختتام تک دنیا بھر کے افراد کے لیے فیس بک کو متعارف کرا دیا گیا اور اس کا حصہ بننے کے لیے 13 سال سے زائد عمر کی شرط رکھی گئی۔ 2006 میں ہی صارفین کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ سے بڑھ کر 2007 میں 5 کروڑ تک پہنچ گئی، جو 2008 کے آخر تک دگنی ہو کر 10 کروڑ ہو گئی۔ 2012 میں جس سال فیس بک ایک ارب صارفین تک پہنچ گیا تھا، مارک زکر برگ نے اسے 104 ارب ڈالرز میں فروخت کرنا چاہا۔ 29 اکتوبر 2021 کو زکربرگ نے اعلان کیا کہ فیس بک کمپنی کا نام تبدیل کر کے میٹا رکھ دیا، یاد رہے کہ میٹا کمپنی فیس بک، انسٹاگرام، تھریڈز، واٹس ایپ اور دیگر سروسز کی مالک ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کون سے ملک کے کتنے صارفین ہیں؟<br />تین ارب صارفین کے ساتھ فیس بک دنیا کا سب سے مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے، یہ دنیا کے نصف سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین اور دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کی نمائندگی کرتا ہے۔ 3 ارب صارفین کے تناظر میں یہ بھارت (1.4 ارب)، چین (1.4 ارب) اور بنگلہ دیش (173 ارب) کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ جن ممالک کے سب سے زیادہ صارفین فیس بک استعمال کرتے ہیں ان میں بھارت کے 38 کروڑ 56 لاکھ صارفین، امریکا کے 18 کروڑ 86 لاکھ صارفین، انڈونیشیا کے 13 کروڑ 63 لاکھ صارفین، برازیل کے 11 کروڑ 17 لاکھ اور میکسیکو کے 94 کروڑ 8 لاکھ صارفین موجود ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کون سب سے زیادہ فیس بک استعمال کرتا ہے؟<br />آن ریفرینس لائبریری ڈیٹا رپورٹرل کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کے صارفین میں 65 سال اور اس سے زیادہ عمر کے 5.6 فیصد افراد اور 13 سے 17 عمر کے 4.8 فیصد افراد سائن اِن ہیں۔ انسائیڈر انٹیلی جنس کے تجزیہ کار ڈیبرا آہو ولیمسن کا کہنا ہے کہ فیس بک میں نوجوان صارفین آہستہ آہستہ کم ہو رہے ہیں۔ فیس بک میں سب سے زیادہ 25 سے 34 سال کی عمر کے لوگ یہ پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز<br /> </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-86419224910698077292024-02-06T11:23:00.001+05:002024-02-06T11:23:57.073+05:00جو فلسطینی بم سے نہ مریں بھوک سے مر جائیں<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEir16mVj5M_aNPxDN-Xz2Lv9yvHB6N_pnwTzlfEjggPkx_qlsZ4n6WSvVQgobFedeX8xH0mV3D32jMPj3Ow8kNliv9NDt_FqHfFrmgfZWls2sM1ICHpxMayRg3YzAlij2SlVdcn5eocigMdUvc9oo8b0UrqPTUBI_PPMyNx-egOG4drAJS3giEe2_q2pOJI/s3000/Gaza%20Hunger%20Crisis%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1688" data-original-width="3000" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEir16mVj5M_aNPxDN-Xz2Lv9yvHB6N_pnwTzlfEjggPkx_qlsZ4n6WSvVQgobFedeX8xH0mV3D32jMPj3Ow8kNliv9NDt_FqHfFrmgfZWls2sM1ICHpxMayRg3YzAlij2SlVdcn5eocigMdUvc9oo8b0UrqPTUBI_PPMyNx-egOG4drAJS3giEe2_q2pOJI/w400-h225/Gaza%20Hunger%20Crisis%204.jpg" width="400" /></a></div>چھبیس جنوری کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے جیسے ہی شبہ ظاہر کیا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ چند گھنٹوں بعد ہی اپنے ہتکھنڈوں سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے تل ابیب سے ایک خبر پھوڑی گئی کہ اقوامِ متحدہ کا امدادی ادارہ برائے فلسطین (یو این آر ڈبلیو اے) ’’ انرا ‘‘ حماسی انتہاپسندوں سے بھرا پڑا ہے اور ادارے کے کم ازکم بارہ مقامی ملازم سات اکتوبر کی ’’حماسی دہشت گردی ‘‘ میں براہ راست ملوث پائے گئے ہیں۔ اسرائیل کے حمایتی مغربی ممالک جیسے اس گھڑی کے منتظر بیٹھے تھے انھوں نے اپنے ذرایع سے اس خبر / افواہ کی تصدیق کرنے کے بجائے اسرائیل کے دعویٰ پر حسبِ معمول آنکھ بند کر کے یقین کرتے ہوئے انرا کے لیے اپنی امداد معطل کر دی۔ ( امریکا ، آسٹریا، آسٹریلیا ، کینیڈا ، فن لینڈ، جرمنی، اٹلی ، جاپان ، ہالینڈ، آئس لینڈ، سویڈن، رومانیہ ، برطانیہ۔ ) جب کہ انرا کو سالانہ امداد دینے والے چار مسلمان ممالک ( ترکی، سعودی عرب ، کویت ، قطر) نے انرا کے بائیکاٹ سے خود کو علیحدہ رکھا ہے۔ (انرا نے اب اپنی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کے لیے ہر فرد اور ادارے سے امداد کی اپیل کی ہے۔ کوئی بھی انرا کی ویب سائٹ پر جا کر حسبِ توفیق مدد کر سکتا ہے اور پچانوے فیصد امکان ہے کہ یہ مدد درست ہاتھوں میں ہے اور فلسطینی متاثرین تک پہنچے گی)۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">امداد سے ہاتھ کھینچنے والے ممالک نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس وقت غزہ کی تئیس لاکھ آبادی دانے دانے کی محتاج ہے اور اگر پچھتر برس سے ان کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے کے کچھ ملازمین کے خلاف تحقیقات کے مطالبے کے بجائے پورے ادارے کی امداد ہی معطل کر دی جائے تو بمباری اور زمینی حملوں میں مسلسل گھرے لاکھوں عورتوں، بچوں، جوانوں، بوڑھوں پر مزید کیا قیامت گزرے گی۔ انھیں تو ویسے بھی مسلسل چار ماہ سے دانے پانی دوا سے مکمل طور پر محروم رکھا جا رہا ہے۔ کسی حکومت کے ذہن میں یہ بات بھی نہ آئی کہ اس سے پہلے اسرائیل نے اپنی خواتین کے ریپ، بیالیس بچوں کے گلا کاٹنے اور غزہ کے الشفا اسپتال پر میزائل حملے کا جو الزام حماس پر لگایا تھا۔ وہ سب کے سب الزامات اسرائیل کے منہ پر جا کے پڑے۔ اس تناظر میں اس اسرائیلی دعویٰ کی ٹھوس تصدیق کس قدر ضروری ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے میں دہشت گرد کام کر رہے ہیں۔ جن بارہ ملزموں کے نام اسرائیل نے جاری کیے ان میں سے ایک پہلے ہی اسرائیلی بمباری میں جاں بحق ہو چکا ہے جب کہ دو اہل کار لاپتہ ہیں۔ غالباً وہ بھی کسی ملبے تلے آ کے مر چکے ہیں۔ بقیہ نو ملزموں کو خود انرا کے سربراہ نے تحقیقات مکمل ہونے تک معطل کرنے کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے اب تک انرا کے بارہ اہل کاروں کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgzG0FP5QcxLBAfTHddqjF8aMILRA0lM5CTHANT7PQSTVS6-PvMyjFGkd7ER5qqHFMPSJwewZDWAusCUrZ2DvW7DDCNArn6XQOc2Iv3AsQTLQtahxVU9SFQNd3t6FtWwsRYBqOh_MGfOq_g4jKT-MPcbacGLmYhndm2lAfd12oefMip-u2yBdmo22h_WMD2/s1800/Gaza%20Hunger%20Crisis%205.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1800" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgzG0FP5QcxLBAfTHddqjF8aMILRA0lM5CTHANT7PQSTVS6-PvMyjFGkd7ER5qqHFMPSJwewZDWAusCUrZ2DvW7DDCNArn6XQOc2Iv3AsQTLQtahxVU9SFQNd3t6FtWwsRYBqOh_MGfOq_g4jKT-MPcbacGLmYhndm2lAfd12oefMip-u2yBdmo22h_WMD2/w400-h266/Gaza%20Hunger%20Crisis%205.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">انرا کا ادارہ اقوامِ متحدہ نے انیس سو انچاس میں قائم کیا، تاکہ جن ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو صیہونی ریاست نے بزور بے دخل کر کے آس پاس کے ممالک میں دھکیل دیا۔ ان کی حیثیت کے تصفیے تک انھیں زندہ رکھا جا سکے۔ کیونکہ اقوامِ متحدہ کی ایک قرار داد کے مطابق ان لاکھوں پناہ گزینوں کی گھر واپسی کا بنیادی حق آج تک برقرار ہے۔ انرا کے عملے میں تیس ہزار ڈاکٹر، نرسیں، اساتذہ، فلاحی کارکن، ڈرائیور، انجینئر اور دفتری اسٹاف شامل ہے۔ انرا کا آپریشن لبنان ، اردن ، شام ، غربِ اردن اور غزہ تک اٹھاون پناہ گزین کیمپوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کی امداد پر ساٹھ لاکھ جلاوطن فلسطینیوں کا ہر طرح سے دار و مدار ہے۔ دو ہزار اکیس میں انرا کے سات سو چھ اسکولوں میں ساڑھے پانچ لاکھ فلسطینی بچے پڑھ رہے تھے۔ چار لاکھ فلسطینی روزمرہ بنیادی امدادی رقوم کے لیے رجسٹرڈ ہیں۔ جب کہ سترہ لاکھ کو خوراک کی فراہمی کے لیے انرا پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ انرا کے تحت ایک سو چالیس بڑے صحت مراکز اور اسپتال کام کر رہے ہیں۔ غزہ میں انرا کے تیرہ ہزار کارکن کام کر رہے ہیں اور دو ہزار سات سے جاری اسرائیل اور مصر کی مشترکہ ناکہ بندی میں غزہ کے لیے لائف لائن کا کام کرتے ہیں۔ سات اکتوبر کے بعد سے غزہ کی پینتالیس فیصد آبادی انرا کے قائم کردہ اسکولوں اور صحت مراکز میں پناہ گزین ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ویسے تو کسی مقبوضہ علاقے کے لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کی رہائشی، غذائی ، صحت اور تعلیم کی ضروریات کا خیال رکھنا بین الاقوامی قوانین کے تحت قابض طاقت کی ذمے داری ہے۔ مگر اسرائیل سے کوئی توقع عبث ہے لہٰذا اقوامِ متحدہ کے فلاحی ادارے کو ہی ان مقبوضہ انسانوں کے لیے متبادل ریاست کا کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ انرا ہمیشہ سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ یہ ادارہ فلسطینیوں کی بطور انسانی گروہ تحلیل کے اسرائیلی منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ اب تک غزہ میں انرا کے ڈھائی سو سے زائد کارکن شہید ہو چکے ہیں۔ جن سیکڑوں اسکولوں میں فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ ان پر لگاتار بمباری کی گئی ہے اور انرا کے تحت چلنے والے اسپتالوں اور صحت مراکز کو بھی تاک تاک کے نشانہ بنایا گیا ہے۔ کسی بین الاقوامی فلاحی ادارے کی املاک اور کارکنوں کو نشانہ بنانا بھی جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے مگر اسرائیل کو سات خون معاف ہیں۔ جو فلسطینی بموں سے بچ جائیں وہ بھوک اور پیاس سے مر جائیں۔ یہ ہے نیت اور مسئلے کا حل اسرائیل اور اس کے حماتیوں کے نزدیک۔ مگر اس کا توڑ آسان ہے۔اگر قطر ، سعودی عرب ، کویت اور ترکی انرا کو سالانہ دو ارب ڈالر اضافی دان کر دیں تو اسرائیلی نسل کشی کا ہتھیار کسی حد تک کند کیا جا سکتا ہے۔ مگر اب تک ان ممالک کی جانب سے ایسی کوئی پیش کش سامنے نہیں آئی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وسعت اللہ خان </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-67399896213100463252024-02-04T12:42:00.000+05:002024-02-04T12:42:50.222+05:00فلاحی، فاشسٹ، ہائبرڈ اور چھچھوری ریاست کا فرق <h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEguLxip-V1c36LDOQlC-TlVetxpGHafPnBuUpalhc6sJ1Cer8bqk2p3ls3fME8xzW-JcnxKDNM1EkAdz__gBJBb03uAz29WQnCe7pheEVr1stR08hOZUybEtZxNBo9z_QKsMe59g63P33qCfQwUDfcinb0c9TbbsIs4sNW47UUZK1kz07ONGz32e6Pg_4r6/s5472/Democracy%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3648" data-original-width="5472" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEguLxip-V1c36LDOQlC-TlVetxpGHafPnBuUpalhc6sJ1Cer8bqk2p3ls3fME8xzW-JcnxKDNM1EkAdz__gBJBb03uAz29WQnCe7pheEVr1stR08hOZUybEtZxNBo9z_QKsMe59g63P33qCfQwUDfcinb0c9TbbsIs4sNW47UUZK1kz07ONGz32e6Pg_4r6/w400-h266/Democracy%204.jpg" width="400" /></a></div>فلاحی ریاست کا مطلب ہے وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد ہر طبقے کو نسل و رنگ و علاقے و عقیدے و جنس کی تمیز کے بغیر بنیادی حقوق اور مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی اہلیت کے مطابق بلا جبر و خوف و خطر مادی و ذہنی ترقی کر سکے۔ فلاحی ریاست کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد پہلے سے مراعات یافتہ طبقات اپنے سے کمزوروں کے بنیادی حقوق اور مساوی مواقع فراہم کرنے والے راستے پامال کرتے ہوئے محض اپنے تحفظ اور فلاح پر دھیان دیں اور نہ صرف اپنا حال بلکہ اپنی نسلوں کا سیاسی، سماجی و معاشی مستقبل ریاستی و سائل و مشینری کو استعمال میں لاتے ہوئے محفوظ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست وہ ہوتی ہے جہاں ایک گروہ، ادارہ یا تنظیم اندھی قوم پرستی کا جھنڈا بلند کر کے اقلیتی گروہوں، نسلوں اور تنظیموں کو اکثریت کے بوجھ تلے دبا کے اس اکثریت کو بھی اپنا نظریاتی، معاشی و سماجی غلام بنانے کے باوجود یہ تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب ہو کہ ہم سب سے برتر مخلوق ہیں لہذا ہمیں کم تروں پر آسمانوں کی جانب سے حاکم مقرر کیا گیا ہے۔ وقت کی امامت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جہاں ہم کھڑے ہوں گے لائن وہیں سے شروع ہو گی۔ ہمارا حکم ہی قانون ہے۔ جو نہ مانے وہ غدار ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">فاشسٹ ریاست کے قیام کے لیے جو لیڈر شپ درکار ہے اسے مکمل سفاکی کے ساتھ سماج کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے فطین دماغوں کی ضرورت ہے جو تاریخ اور جغرافیے کی سچائیوں اور سماجی حقائق کو جھوٹ کے سنہری قالب میں ڈھال کے بطور سچ بیچ سکیں۔ فاشسٹ ریاست قائم رکھنا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے ضروری ڈسپلن، یکسوئی اور نظریے سے غیر مشروط وفادار کارکنوں و فدائین کی ضرورت ہوتی ہے جو اس مشن کو مقدس مشن کی طرح پورا کر سکیں اور اپنی انفرادی زندگیوں کو اجتماعی ہدف کے حصول کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست محض فاشسٹ بننے کے شوق سے یا موقع پرستوں کے ہاتھوں تشکیل نہیں پا سکتی۔ اس کے لیے مسلسل مستعد رہنے کے ساتھ ساتھ انتھک محنت اور لومڑ و گرگٹ کی صفات سے مالامال مرکزی و زیلی قیادت درکار ہے۔ دلال ریاست وہ کہلاتی ہے جو اپنے جغرافیے اور افرادی قوت و صلاحیت کو بطور جنس دیکھے اور انا و غیرت و ثابت قدمی و اصول پسندی جیسی فضول اقدار بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے رویے میں اتنی لچک دار اور اس رویے کی پیکیجنگ اور مارکیٹنگ میں اتنی ماہر ہو کہ ہر کوئی اسے اپنی ضرورت سمجھ کے خریدنا یا حسبِ ضرورت دہاڑی، ماہانہ، سالانہ کرائے پر لینا یا کسی خاص اسائنمنٹ کا کنٹریکٹ کر کے استعمال کرنا چاہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg3tE7NKlT7eKiJS7Ylddyu65INv3ZjyDmszhW9WxeiL8d8l4z7Cl0gGSoytzF1eaBK3PgN8w9wgkRx4CD0zoYzUs1ybSxo0-yf7D9r-bUuN-2jvnvvcvC3FeBhUQDhS0vSzpGauizxWD329gY8yMoXXVDf_yRXg17cHaOKUjsb9r9u_YKxpTRbdrKeXbII/s4560/Democracy%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3379" data-original-width="4560" height="296" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg3tE7NKlT7eKiJS7Ylddyu65INv3ZjyDmszhW9WxeiL8d8l4z7Cl0gGSoytzF1eaBK3PgN8w9wgkRx4CD0zoYzUs1ybSxo0-yf7D9r-bUuN-2jvnvvcvC3FeBhUQDhS0vSzpGauizxWD329gY8yMoXXVDf_yRXg17cHaOKUjsb9r9u_YKxpTRbdrKeXbII/w400-h296/Democracy%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">لیفٹ رائٹ کے سب ممالک اور بین الاقوامی ادارے اور اتحاد دلال ریاست کو اپنے کام کی شے سمجھیں اور وہ اپنے متمول گاہکوں کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت بھی خوش اسلوبی سے پوری کرنے کی کوشش کرے اور اس کے عوض اپنے تحفظ کی ضمانت، داد و تحسین اور ’ویل‘ سے جھولی بھرتی رہے۔ خود بھی ہر طرح کے حالات میں خوش اور مست رہے اور گاہکوں کو بھی خوش رکھے۔ ہائبرڈ ریاست دراصل ریاست کے روپ میں ایک ایسی لیبارٹری ہوتی ہے جہاں ہر طرح کے سیاسی ، سماجی، معاشی و سٹرٹیجک تجربات کی سہولت میسر ہو۔ یہ تجربات جانوروں پر ہوں یا انسانوں پر۔ اس سے ریاست کے پروپرائٹرز کو کوئی مطلب نہیں۔ بس انھیں اس لیبارٹری سے اتنی آمدن ہونی چاہیے کہ خرچہ پانی چلتا رہے۔ صرف اتنی پابندی ہوتی ہے کہ کوئی ایسا خطرناک تجربہ نہ کر لے کہ لیب ہی بھک سے اڑ جائے۔ باقی سب جائز اور مباح ہے۔ ایک چھچوری ریاست بھی ہوتی ہے۔ جو تھوڑی سی فاشسٹ زرا سی جمہوری، قدرے دلال صفت، کچھ کچھ نرم خو، غیرت و حمیت کو خاطر میں لانے والی چھٹانک بھر صفات کا ملغوبہ ہوتی ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">تن و توش ایک بالغ ریاست جتنا ہی ہوتا ہے۔ مگر حرکتیں بچگانہ ہوتی ہیں۔ مثلاً چلتے چلتے اڑنگا لگا دینا، اچھے خاصے رواں میچ کے دوران کھیلتے کھیلتے وکٹیں اکھاڑ کے بھاگ جانا، راہ چلتے سے بلاوجہ یا کسی معمولی وجہ کے سبب بھڑ جانا، چھوٹے سے واقعہ کو واویلا مچا کے غیر معمولی دکھانے کوشش کرنا اور کسی غیر معمولی واقعہ کو بالکل عام سا سمجھ کے نظر انداز کر دینا، کسی طاقت ور کا غصہ کسی کمزور پر نکال دینا۔ لاغر کو ایویں ای ٹھڈا مار دینا اور پہلوان کو تھپڑ ٹکا کے معافی مانگ لینا۔ اچانک سے یا بے وقت بڑھکیں مارنے لگنا اور جوابی بڑھک سن کر چپ ہو جانا یا یہ کہہ کے پنڈ چھڑانے کی کوشش کرنا کہ ’پائی جان میں تے مذاق کر رہیا سی۔ تسی تے سدھے ہی ہو گئے ہو۔‘ جب کسی فرد، نسل ، قومیت ، گروہ یا ادارے کو مدد اور ہمدردی کی اشد ضرورت ہو تو اس سے بیگانہ ہو جانا اور جب ضرورت نہ ہو تو مہربان ہونے کی اداکاری کرنا۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی بدمعاشی کا شوق رکھنا مگر تگڑا سامنے آ جائے تو اس سے نپٹنے کے لیے اپنے بچوں یا شاگردوں کو آگے کر دینا یا آس پاس کے معززین کو بیچ میں ڈال کے معاملہ رفع دفع کروا لینا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اپنے ہی بچوں کا کھانا چرا لینا اور گالیاں کھانے کے بعد بچا کچھا واپس کر دینا۔ سو جوتے کھانا ہیں یا سو پیاز اسی شش و پنج میں مبتلا رہنا۔ اکثر عالمِ جذب میں اپنے ہی سر پر اپنا ہی ڈنڈہ بجا دینا اور گومڑ پڑنے کی صورت میں تیرے میرے سے پوچھتے پھرنا کہ میرے سر پے ڈنڈہ کس نے مارا۔ جہاں دلیل سے مسئلہ حل ہو سکتا ہو وہاں سوٹا گھما دینا اور جہاں سوٹے کی ضرورت ہو وہاں تاویلات کو ڈھال بنا لینا۔ ان سب کے باوجود اپنے تئیں خود کو ذہین ترین اور چالاک سمجھتے رہنا۔چھچھوری ریاست خود بھی نہیں جانتی کہ اگلے لمحے اس سے کیا سرزد ہونے والا ہے۔ چنانچہ ایسی ریاست پر نہ رعایا کو اعتبار ہوتا ہے اور نہ گلوبل ولیج سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہو جاتی ہے جو مادے کی ہوتی ہے۔ یعنی سائنسی تعریف کے اعتبار سے مادہ اس عنصر کو کہتے ہیں جو بس جگہ گھیرتا ہو اور وزن رکھتا ہو۔ ہم ان مندرجہ بالا ریاستوں میں سے کس طرح کی ریاست کے مکین ہیں۔ یہ آپ جانیں اور آپ کو ہنکانے اور چلانے والے یا پھر الیکٹڈ و سلیکٹڈ جانیں۔ میرے جیسا ہومیو پیتھک آدمی کیا جانے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وسعت اللہ خان </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ بی بی سی اردو</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-42643624341238247532024-02-04T11:53:00.000+05:002024-02-04T11:53:49.199+05:00نوکیا فونز کا عہد ختم ہونے کے قریب<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjHJAGoEbtkqsEbRtDwn6ADeZckfjU5OYbYP9H3tAw5-JvAPbeyXeLanAtafomZc7lJIfkhwXuoWTYkam6hqhQ6FVDO1hthuYUf-xsQ6HQPwt9nuBr1Zx7sdFt0Aklct-4pV20bOHzp83Yp_lEBxwpqXrfjr0AP9VfkhDYLD7fq_96MSQwYBAS8poOg18n/s2100/Nokia%20Mobile%20Phones%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1554" data-original-width="2100" height="296" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjHJAGoEbtkqsEbRtDwn6ADeZckfjU5OYbYP9H3tAw5-JvAPbeyXeLanAtafomZc7lJIfkhwXuoWTYkam6hqhQ6FVDO1hthuYUf-xsQ6HQPwt9nuBr1Zx7sdFt0Aklct-4pV20bOHzp83Yp_lEBxwpqXrfjr0AP9VfkhDYLD7fq_96MSQwYBAS8poOg18n/w400-h296/Nokia%20Mobile%20Phones%203.jpg" width="400" /></a></div>کئی سال تک دنیا بھر میں مقبول فون برانڈ کا درجہ رکھنے والے برانڈ نوکیا کے اسمارٹ فونز بند ہونے کے قریب ہیں اور ممکنہ طور پر دو سال بعد اس کے اسمارٹ فونز نہیں بنائے جائیں گے۔ نوکیا کے اسمارٹ فونز کا لائسنس رکھنے والی کمپنی ہیومن موبائل ڈیوائسز (ایچ ایم ڈی) نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنے نام سے فونز متعارف کرائے گی جب کہ نوکیا کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تصدیق کی گئی کہ اس کے اکاوؕنٹس اگلے ہفتے سے بند کر دیے جائیں گے۔ ایچ ایم ڈی کی جانب سے اپنے نام سے اسمارٹ فونز کو متعارف کرائے جانے کے بعد خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کمپنی نوکیا کے نام سے اسمارٹ فونز متعارف نہیں کرائے گی۔ مذکورہ کمپنی نے نوکیا کے نام سے اسمارٹ موبائل متعارف کرانے کا لائسنس 2016 میں حاصل کیا تھا اور ان کے پاس لائسنس کے حقوق 2026 تک ہوں گے، اس وقت تک کمپنی موبائل فونز متعارف کرا سکتی ہے لیکن 2026 کے بعد کمپنی نوکیا کے فون بنانا بند کرے گی اور ممکنہ طور پر کوئی دوسری کمپنی بھی نوکیا کے برانڈ کے فونز نہیں بنائے گی، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi3FSolaSD2sGD98rUBQsR3QN-7Rpi3gnKFPIfA79oJ_ILs2I4B5xhdD26eSeG414C6sIh7Qr7vU59nSJmd2eeJ-N63nR4y8eInNHdxHIhf8DRhSyf4ROwRWcamwMvEHZYk_Fp9jrFwgr4cfHtROvzbLv8eb3QBf-2H3rdDjdSO-Ork_ZNS84BX89pQ936c/s5373/Nokia%20Mobile%20Phones%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3582" data-original-width="5373" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi3FSolaSD2sGD98rUBQsR3QN-7Rpi3gnKFPIfA79oJ_ILs2I4B5xhdD26eSeG414C6sIh7Qr7vU59nSJmd2eeJ-N63nR4y8eInNHdxHIhf8DRhSyf4ROwRWcamwMvEHZYk_Fp9jrFwgr4cfHtROvzbLv8eb3QBf-2H3rdDjdSO-Ork_ZNS84BX89pQ936c/w400-h266/Nokia%20Mobile%20Phones%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عین ممکن ہے کہ کوئی دوسری کمپنی نوکیا کے اسمارٹ فونز بنانے کا لائسنس حاصل کرے اور وہ برانڈ کو اپنائے لیکن فوری طور پر اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ اسمارٹ موبائلز کے علاوہ نوکیا کے فیچر یعنی سادہ موبائلز مختلف کمپنیاں متعارف کراتی رہیں گی اور نوکیا کے سادہ فونز کو متعارف کرانے کے لائسنس بھی مختلف کمپنیوں نے حاصل کر رکھے ہیں۔ نوکیا فن لینڈ کی ایک ملٹی نیشنل موبائل، کمیونی کیشن اینڈ الیکٹرانک ڈیوائسز مینوفیکچرنگ کمپنی ہے جو مختلف کمپنیوں کو اپنی ڈیوائسز بنانے کے لائسنس فراہم کرتی ہے۔ مذکورہ کمپنی اگرچہ 1850 میں بنائی گئی تھی لیکن نوکیا نے موبائل فونز بنانے کا آغاز 1990 میں کیا تھا اور ابتدائی طور پر کمپنی نے سادہ فونز متعارف کرائے تھے، جنہوں نے بہت مقبولیت حاصل کی اور نوکیا فونز 2010 تک مقبول رہے۔ اسمارٹ فونز کے دور کے بعد حیران کن طور پر نوکیا اپنا نام برقرار نہ رکھ سکی اور اس کے اسمارٹ فونز بھی وہ توجہ حاصل نہ کر سکے جو دیگر کمپنیوں نے حاصل کی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز<br /> </h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-42222845346344959292024-02-01T19:14:00.001+05:002024-02-01T19:14:45.142+05:00غزہ کے بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjC5qpBWNnxezPWXILS4xX2IFtuDByf3TOLnHZdZfwLOwjzNg6DVEHTa2iI48mt9KJx97w7CkuzAId7unESGJbbgdAgP7ZRSSG1swz2KwtDPCEN9-zESBRhvCX7N0nTiwrn8bAQPf9N3fCNTDGDR-wozdr-htU5Kg92GjwDVl7IVUVR13nibo01hENPRw-c/s800/Journalists%20of%20Gaza%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="480" data-original-width="800" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjC5qpBWNnxezPWXILS4xX2IFtuDByf3TOLnHZdZfwLOwjzNg6DVEHTa2iI48mt9KJx97w7CkuzAId7unESGJbbgdAgP7ZRSSG1swz2KwtDPCEN9-zESBRhvCX7N0nTiwrn8bAQPf9N3fCNTDGDR-wozdr-htU5Kg92GjwDVl7IVUVR13nibo01hENPRw-c/w400-h240/Journalists%20of%20Gaza%203.jpg" width="400" /></a></div>عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ گذشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید آٹھ ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 27 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کر رہا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعہ کی ابتدا سات اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد وشمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد وشمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد وشمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgMmQL60w3oHWtbOroi9jOW1xvmbclJUZt9GBqYapBIsY3hFCuFnaFmBcNUjufKvqO1UHTlnpti8_QmJKtho87JQlIyKlZa2zSFDOMw0f4N8hyknb2NKRE-FpzJob6PE_BgsEJ27BKfoFlWUs5xYCpUf-00tmZ6ZCCo4v1lt0TZJUdhgNiWHhltK5mF_3PS/s750/Journalists%20of%20Gaza%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="397" data-original-width="750" height="211" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgMmQL60w3oHWtbOroi9jOW1xvmbclJUZt9GBqYapBIsY3hFCuFnaFmBcNUjufKvqO1UHTlnpti8_QmJKtho87JQlIyKlZa2zSFDOMw0f4N8hyknb2NKRE-FpzJob6PE_BgsEJ27BKfoFlWUs5xYCpUf-00tmZ6ZCCo4v1lt0TZJUdhgNiWHhltK5mF_3PS/w400-h211/Journalists%20of%20Gaza%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظر انداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کر رہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔ آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیو یارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔ سپین اور بیلجیئم کے وزرائے اعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ سپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">گذشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔ اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیر جانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آ سکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عباس ناصر </h2><div><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ </h2></div><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز</h2><div><br /></div><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-89462822567466190882024-02-01T18:38:00.000+05:002024-02-01T18:38:08.863+05:00نواز شریف کی واپسی <h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh_hm2qPHNUDWKq98J69YJglX7UxsOy_n_Sf0sawWNJES1oZGnBwewjb4HKp-t4mRYOWC7lKgk7JM4D6RVAQsVhx1YYZ1ym8SAMMQ8zSzKI3YYR0NQzyMeuGGWzHZFUVcKDnuZ_sHOLd3iZMjzmIiKJ1_FNgbi9WRG8sULbyr07Leg2tdy_tMoWmmEmikNx/s700/Nawaz%20Sharif%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="400" data-original-width="700" height="229" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh_hm2qPHNUDWKq98J69YJglX7UxsOy_n_Sf0sawWNJES1oZGnBwewjb4HKp-t4mRYOWC7lKgk7JM4D6RVAQsVhx1YYZ1ym8SAMMQ8zSzKI3YYR0NQzyMeuGGWzHZFUVcKDnuZ_sHOLd3iZMjzmIiKJ1_FNgbi9WRG8sULbyr07Leg2tdy_tMoWmmEmikNx/w400-h229/Nawaz%20Sharif%204.jpg" width="400" /></a></div>30 سال سے بھی زائد عرصے قبل، اقتدار سے اپنی پہلی بے دخلی کے بعد سے نواز شریف کی جب بھی وطن واپسی ہوئی ہے، ان میں ان کی تازہ ترین واپسی کے امکانات سب سے کم تھے۔ حالانکہ اس مرحلے پر یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن 8 فروری کے انتخابات کے بعد نواز شریف کے اگلی حکومت بنانے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگر وہ خود وزیر اعظم نہیں بھی بنتے تو بھی امکانات یہی ہیں کہ جو بھی یہ عہدہ سنبھالے گا اسے ان کی آشیرباد حاصل ہو گی۔ کئی مہینوں سے حالات رفتہ رفتہ ان کے حق میں تبدیل ہو رہے ہیں لیکن آنے والے ہفتوں میں اس میں تیزی نظر آئے گی۔ اس کا آغاز تقریباً پانچ سال کی جلاوطنی کے بعد ان کی پاکستان واپسی کی تاریخ کے اعلان سے ہوا۔ اس کے بعد لاہور میں ان کی واپسی اور پہلی ریلی کا دن آیا، جس میں انہوں نے مہنگائی اور بے روزگاری سے تباہ حال ملک کو ترقی دینے کے لیے سب سے زیادہ موزوں وزیر اعظم کے طور پر خود کو پیش کیا۔ اس کے بعد پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم، انتخابی دوڑ میں شامل دیگر پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ، اور آنے والے انتخابی مقابلے کے لیے تیاری کا مختصر وقفہ آیا۔ پھر جب سپریم کورٹ نے ان کے مرکزی حریف، پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا تو انتخابات ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں آخری شکوک و شبہات بھی دور ہوگئے اور انتخابی مہم شروع ہو گئی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ان کی انتخابی مہم کی تقاریر سنیں تو آپ کو ایک حکمت عملی نظر آئے گی۔ وہ اپنے جلسوں میں دو کام کر رہے ہیں۔ پہلا کام ووٹروں کے ساتھ جڑنا اور دوسرا ان معروف افراد یا خاندانوں پر توجہ دینا جو دیہی یا نیم شہری حلقوں کو چلاتے ہیں جن پر نواز شریف نے اب تک اپنی مہم کو مرکوز کیا ہوا ہے۔ نواز شریف ووٹرز سے اس قسم کے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ ’2017ء میں جب میں نے اقتدار چھوڑا تو ایک روٹی کتنے کی تھی؟ بجلی کا ایک یونٹ کتنے کا تھا؟ آپ ایک کلو چینی کتنے میں خریدتے تھے؟ یوریا کھاد کا ایک تھیلے کتنے کا تھا؟‘ مصنوعات کی یہ فہرست شہری یا دیہی حلقوں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے اور ہر کی چیز کی ماضی کی قیمت پوچھنے کے بعد وہ حاضرین سے معلوم کرتے ہیں کہ وہ آج اس کی کتنی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ ’تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا؟‘، ’یہ ظلم کس نے کیا؟‘ ’تم جا کر اس سے پوچھو، جس نے بھی یہ کیا کہ اس نے تمہارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘ یہ ایک مکروہ پیغام ہے۔ 2017ء سے اب تک ملک میں مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjXSxlZXS23lNWvbsyOZnths-S-jmHcUQEwFkEURxSbTo068YE2rscUURSPWsknc7rOEeu2kJzW1yoFd6f6VYnEDF7sN_VrGo9J8KVnVpeIlzMT2QOvZg57n78VDjslArj_jgvHjwicYN4lA42eC81WQ0ThC_ALnn2nKHgeDBXs2FMR7m-oTgy4puqbp9uZ/s670/Nawaz%20Sharif%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="462" data-original-width="670" height="276" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjXSxlZXS23lNWvbsyOZnths-S-jmHcUQEwFkEURxSbTo068YE2rscUURSPWsknc7rOEeu2kJzW1yoFd6f6VYnEDF7sN_VrGo9J8KVnVpeIlzMT2QOvZg57n78VDjslArj_jgvHjwicYN4lA42eC81WQ0ThC_ALnn2nKHgeDBXs2FMR7m-oTgy4puqbp9uZ/w400-h276/Nawaz%20Sharif%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس کی وجوہات پر بحث کی جاسکتی ہے، میں پہلے بھی متعدد بار اس پر اپنے خیالات لکھ چکا ہوں۔ انتخابی مہم کے مقاصد کے لیے ان وجوہات کو جاننا ضروری نہیں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ ہوا ہے۔ 2017ء کو نقطہ آغاز بنا کر وہ اس حقیقت پر پردہ ڈال سکتے ہیں کہ اس مہنگائی میں بڑا اضافہ اس دور میں ہوا جب شہباز شریف وزیراعظم تھے۔ بیانیے کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کی ایک تقریب میں کہا کہ ’میں نے آپ کو بہت یاد کیا، میں طویل عرصے تک آپ سے دور رہا اور مجھے وہ سب دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے جو آپ کو میرے دور رہتے ہوئے بھگتنا پڑا‘۔ ان کی مہم کا پیغام اس مشکل کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے جس سے ووٹر سب سے زیادہ متاثر ہیں یعنی اخراجات پورے کرنے میں دشواری۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے سے صنعتی شہر حافظ آباد میں جہاں محنت کش طبقے کی ایک تعداد رہتی ہے نواز شریف نے جلسے میں موجود لوگوں سے کہا کہ ’اگر مجھے 2017ء میں نہ ہٹایا جاتا تو آج حافظ آباد میں بے روزگاری نہ ہوتی!‘۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سیالکوٹ میں انہوں نے عمران خان کے دور میں 2020ء میں ٹریفک کے لیے کھولی جانے والی موجودہ موٹروے میں موجود تمام خامیوں کی نشاندہی کرنے کے بعد اس شہر کو لاہور سے ملانے والی ایک نئی موٹر وے بنانے کا وعدہ کیا۔ مانسہرہ میں، انہوں نے سی پیک ایم ایل ون منصوبے کے تحت ریل روڈ کی بحالی مکمل ہونے کے بعد ایک ریلوے اسٹاپ کا وعدہ کیا، ایم ایل ون 8 ارب ڈالر سے زائد کا منصوبہ ہے۔ وہاڑی میں انہوں نے یہ کہہ کر ایک میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کیا کہ تہمینہ دولتانہ نے اپنے حلقے کے لیے اس کا تقاضا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ٹھیک ہے، ہم تمہیں میڈیکل کالج دیں گے، لیکن پہلے ووٹ حاصل کرو اور جیتو‘۔ یہ بات ہمیں ان کی حکمت عملی کے دوسرے نکتے پر لے آتی ہے یعنی اس طاقت کا فائدہ اٹھانا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان کے ہاتھ آنے والی ہے اور پھر اس کا استعمال پنجاب کے بااثر افراد اور خاندانوں کو راغب کرنے کے لیے کرنا اور اس صوبے کے غالب سیاسی خاندانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ استوار کرنا۔ دیہی اور چھوٹے شہروں کے حلقوں میں سیاسی خاندان اہم ہوتے ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">نواز شریف یہ بات کسی اور سے بہتر جانتے ہیں اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا تفصیلی علم ہے کہ کون، کہاں کتنی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اب یہ پیغام دے رہے ہیں لوگ اب ان کی ٹرین میں سوار ہو جائیں۔ ان کے منشور میں بڑے بڑے معاشی وعدے کیے گئے ہیں، جیسے جی ڈی پی کی شرح نمو کو 6 فیصد تک بحال کرنا، گردشی قرضے کو ختم کرنا، وغیرہ۔ تاہم، ابھی کے لیے، انہوں نے خود کو انتخابی مہم کے وعدوں، ووٹروں اور سیاسی خاندانوں کے ساتھ جڑنے اور ان کی زندگیوں کو درپیش معاشی مسائل کے حل کا وعدہ کرنے میں مصروف رکھا ہوا ہے۔ آگے انتخابات ہوں گے، اس کے بعد نئی پارلیمنٹ کا اجلاس طلب ہو گا، صدر کی جانب سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو اپنی اکثریت بنانے کی دعوت دی جائے گی، قائد ایوان کا انتخاب ہو گا اور وفاقی کابینہ کی تقرری ہو گی۔ نواز شریف کی جلاوطنی سے واپسی کی خبر آنے سے کابینہ کی تقرری تک نو ماہ کے قریب کا عرصہ گزر چکا ہو گا۔ عمران خان کی پریشانیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی اور وہ مقدمات، سزاؤں، اپیلوں، نااہلی، انحراف، گرفتاریوں، لیکس وغیرہ کے تلے دب جائیں گی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آہستہ آہستہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ نواز شریف واپس آچکے ہیں اور اب اقتدار میں اپنی پوزیشن مضبوط کریں گے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنے وسائل تلاش کرپائیں گے کہ وہ اپنے وعدوں کا نصف بھی پورا کرسکیں؟ ترقی اور نمو کی بحالی پر ان کی توجہ کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے ساتھ ان کی وابستگی کچھ پیچیدہ ہو جائے گی۔ نواز شریف شاید واپس آگئے ہوں، لیکن ترقی اور روزگار کے ساتھ شاید ایسا نہ ہو۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">خرم حسین </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز</h2><div><br /></div>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-11837394237693767022024-02-01T12:58:00.000+05:002024-02-01T12:58:50.559+05:00جرمنی نے تو امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgb78tZyKE0G9-9Fewh2LfT5Al9x2-QWIyYo81SE0mh6vM0-qaaHMz49wJa80GLbem0p50y4TyZLyWJONGhleCKghKeAyuHTnGjc8UtrDDbNHP6Bh66hDJzUISI7EShFvmBNNsPRBTTOOQ4QFxtKUjXIChoK_QRdTmXw2AfMCtorGG-mMXhOu2FcPD9I5oZ/s5868/Germany%20Gaza%20Policy%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3517" data-original-width="5868" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgb78tZyKE0G9-9Fewh2LfT5Al9x2-QWIyYo81SE0mh6vM0-qaaHMz49wJa80GLbem0p50y4TyZLyWJONGhleCKghKeAyuHTnGjc8UtrDDbNHP6Bh66hDJzUISI7EShFvmBNNsPRBTTOOQ4QFxtKUjXIChoK_QRdTmXw2AfMCtorGG-mMXhOu2FcPD9I5oZ/w400-h240/Germany%20Gaza%20Policy%203.jpg" width="400" /></a></div>امریکا پر تو خیر کیا اثر ہو گا البتہ غزہ پر اسرائیلی فوج کشی کو تقریباً نسل کشی قرار دینے کی بابت بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی عبوری رولنگ میں اسرائیل کے ممکنہ مواخذے کی رائے سامنے آنے کے بعد یورپی یونین میں اسرائیل کا غیر مشروط ساتھ دینے کے بارے میں اختلاف بڑھ گیا ہے۔ مثلاً سلووینیا نے یہ رولنگ سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق عالمی عدالت میں دائر ایک اور درخواست کا بھی حمایتی ہے۔ آئرلینڈ نے بھی اس معاملے میں فلسطین کے پلڑے میں وزن ڈال رکھا ہے۔ جب کہ اسپین کی مخلوط حکومت بٹی ہوئی ہے۔ بائیں بازو کی ایک اتحادی جماعت سومار پارٹی فوری جنگ بندی کی حامی ہے اور اس کی حامی ایک خاتون وزیر حال ہی میں حکومت کی جانب سے گومگو کے موقف کے خلاف بطور احتجاج استعفیٰ دے چکی ہیں۔ جب کہ بیلجیئم نے بھی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں متاثرہ آبادی تک انسانی امداد کی ہنگامی فراہمی کا در کھل سکے۔ دوسری جانب یورپ کے اسرائیل نواز ممالک بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ برطانیہ تو خیر اس معاملے میں امریکا کا دائمی مرید ہے۔ البتہ آسٹریا، چیک جمہوریہ، ہنگری اور ہالینڈ بھی بدستور اسرائیل کو مظلوم سمجھنے پر بضد ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">فرانسیسی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو نسل کش سمجھنا تمام مروجہ اخلاقی اقدار پھلانگنے کے برابر ہے اور فرانس اس بارے میں اسرائیل کے شانہ بشانہ ہے۔ جرمنی نے تو اس معاملے میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر نسل کشی کی پیٹیشن کی اگلی سماعتوں میں اسرائیل کے حق میں فریق بننے کی بھی درخواست کی ہے۔ ایسی وفاداری تو سترہ رکنی بنچ میں شامل اسرائیلی جج نے بھی نہیں دکھائی جس نے اسرائیل پر عائد پانچ میں سے دو الزامات سے اتفاق کیا ہے۔ نمیبیا نے جرمنی کی اسرائیل سے اندھی محبت اور بین الاقوامی عدا لتِ انصاف کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے مقدمے میں فریق بننے کے اعلان پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ نمیبیا جیسے دور دراز افریقی ملک کا ذکر اچانک کیوں آ گیا اور اس کا جرمنی کے موقف سے کیا لینا دینا ؟ یہ بات ہے اٹھارہ سو چوراسی کی جب برلن میں تیرہ یورپی سامراجی طاقتوں کی سال بھر طویل کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں امریکا بھی شریک تھا۔ میز پر افریقہ کا نقشہ پھیلا کے بندربانٹ ہوئی اور جرمنی کے حصے میں تنزانیہ (زنجبار، ٹانگا نیکا) اور نمیبیا آیا۔ نمیبیا کا رقبہ کم و بیش جرمنی کے ہی برابر ہے مگر آبادی محض ڈھائی لاکھ ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh8u6BmBG27HdeqpsT-djJapztFzHisAFPlNpDyvQ80CnomaC06IfpOg_BrKeEypfSbBaSbDtrEZxRmDo5AGaW0B8wEeV-TKeiiybmshGYVFYhkljjFgqVNZHfYTn-x13VKRhSx3Q4YqPq8zvF5n_o7vnXwtQ2Eu4pnSoQTQWv1nNGYAJFEP3-TlygfywIW/s5760/Germany%20Gaza%20Policy%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3840" data-original-width="5760" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh8u6BmBG27HdeqpsT-djJapztFzHisAFPlNpDyvQ80CnomaC06IfpOg_BrKeEypfSbBaSbDtrEZxRmDo5AGaW0B8wEeV-TKeiiybmshGYVFYhkljjFgqVNZHfYTn-x13VKRhSx3Q4YqPq8zvF5n_o7vnXwtQ2Eu4pnSoQTQWv1nNGYAJFEP3-TlygfywIW/w400-h266/Germany%20Gaza%20Policy%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جب برلن کانفرنس میں افریقہ کا تھان کھول کے اسے بانسوں کے گز سے ناپا گیا تو جرمنی بھی قبضہ لینے نمیبیا پہنچا اور پسماندہ مکینوں کی اس سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ مقامی لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے لگ بھگ پانچ ہزار جرمن آبادکاروں کو بسایا گیا ( جیسے یہودی آبادکاروں کو مقبوضہ فلسطین میں بسایا گیا)۔سب سے بڑے دو قبائل ہریرو اور ناما کو ایک مخصوص علاقے میں دھکیل دیا گیا جیسے اسرائیل نے فلسطینیوں کو دھکیلا)۔ جس جس نے مزاحمت دکھائی اسے کوڑے مارے گئے یا پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اکتوبر انیس سو چار میں ہریرو اور ناما نے اجتماعی بغاوت (انتفادہ) کر دی اور لگ بھگ ایک سو بیس جرمن آبادکاروں کو قتل کر دیا (جیسے سات اکتوبر کو حماس نے کیا)۔ قبائلیوں کے پاس تیر کمان ، نیزے اور بھالے تھے اور ڈیڑھ ہزار جرمن فوجیوں کے پاس توپیں اور مشین گنیں۔ غاصب جرمن فوجی کمانڈر جنرل لوتھر وان ٹروٹھا نے حکم جاری کیا کہ ’’ہر مسلح و غیر مسلح ہریرو اور ناما کو اس کے جانوروں سمیت مار دیا جائے۔ ان کی عورتوں اور بچوں کو بیابانوں میں دھکیل دیا جائے اور اگر وہ کہیں دوبارہ نظر آئیں تو اڑا دیا جائے‘‘۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">( جرمن جنرل کے اس فرمان کے ایک سو انیس برس بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے غزہ کے فلسطینیوں کی نسل کشی کو جائز قرار دینے کے لیے تورات کی آیات کا حوالہ دیا۔ جن میں بنی اسرائیل کے حریف صحراِ سینا میں آباد قدیم امالک قبیلے کے ہر مرد اور بچے کو جانوروں سمیت قتل کرنے اور ان کی املاک مٹا دینے کی بھی ہدایت کی گئی۔ نیتن یاہو نے فلسطینیوں کو جدید زمانے کا امالک قرار دیا جو یہودیوں کے خون کے پیاسے ہیں لہٰذا انھیں بھی صفحہِ ہستی سے مٹا دینا چاہیے)۔ جب انیس سو آٹھ میں نمیبیا میں قائم نظربندی کیمپ ختم کر دیے گئے۔ تب تک اسی فیصد ہریرو قبائلی ( نوے ہزار ) اور نصف ناما قبیلہ ( بیس ہزار ) مٹ چکا تھا۔ کنسنٹریشن کیمپوں میں قید بچی کھچی آبادی کو مسلح جرمن آبادکاروں کی جبری بیگار پر لگا دیا گیا۔ یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ نافرمانوں کے قتل کی صورت میں آبادکاروں پر کرمنل دفعات لاگو نہیں ہوں گی۔ ہریرو اور ناما کا قتلِ عام بیسویں صدی کی پہلی منظم نسل کشی تھی۔ سیکڑوں کھوپڑیاں نمبر لگا کے جرمنی کی جامعات، اسپتالوں اور عجائب گھروں تک پہنچائی گئیں۔ وہاں عمرانیات اور اینتھروپولوجی کے ماہرین نے ان کھوپڑیوں کی ناپ تول کر کے نسلی برتری و کمتری کے بارے میں اپنے نظریات کو ’’ سائنسی انداز ‘‘ میں سیقل کیا ( ان میں سے کچھ کھوپڑیاں دو ہزار اٹھارہ میں نمیبیا کو واپس کی گئیں جہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد انھیں سپردِ خاک کر دیا گیا)۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">گویا جرمنوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران کنسنٹریشن کیمپوں میں نسلی برتری کے نشے میں یہودیوں کی جس صنعتی پیمانے پر نسل کشی کی۔ اس کی بنیاد نمیبیا میں انیس سو چار تا آٹھ نسل کشی، کنسنٹریشن کیمپوں کے قیام اور جبری مشقت کے تجربات اور مقتولوں کی کھوپڑیوں کا حجم ناپنے کی بنیاد پر سائنسی انداز میں نسل کشی کا پائلٹ پروجیکٹ تھا۔ جسے جرمنوں کی اگلی پڑھی لکھی پیڑھی نے صنعتی پیمانے پر اختیار کیا۔ آج نمیبیا میں جرمن آبادکاروں کی آبادی محض دو فیصد ہے مگر ستر فیصد قابلِ زراعت اراضی ان کی ملکیت ہے۔ انیس سو آٹھ میں نمیبیا میں ہیروں کی کانیں دریافت ہوئیں۔ ان کی بدولت ایک عرصے تک ہیروں کی تیس فیصد عالمی تجارت پر جرمن تسلط تھا۔ مجموعی طور پر جرمنی نے نمیبیا کی کتنی زمینی دولت لوٹی اس کا کوئی منظم تخمینہ نہیں مگر بدلے میں کیا ہرجانہ دیا ؟ ایک سو سترہ برس بعد دو ہزار اکیس میں جرمنی نے ان مظالم پر نمیبیا سے باقاعدہ معافی مانگی۔ نمیبیا کو تین برس کی سودے بازی کے بعد بطور ہرجانہ لگ بھگ ڈیڑھ ارب یورو دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ مگر متاثرین کے ورثا نے اس قلیل معاوضے کو قومی توہین قرار دیتے ہوئے اسے نمیبیا کی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ مقامی اور جرمن حکومت کو عدالت نے نوٹس جاری کر دیے اور یہ مقدمہ اب تک زیرِ التوا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وسعت اللہ خان </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-52785301190228213252024-01-31T17:32:00.001+05:002024-01-31T17:32:55.835+05:00 سائفر کیس ہماری سیاسی، سفارتی اور قانونی تاریخ کا تلخ باب<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgPU3Pr59CMCe5HjBTTRF85NGol2-A1V5XeK8bqA1Z__ZYG9_qvolfhAuH7jNXzCiPjnTQD6TY8tQGpMV0B-OupX2vLc4m-4xC9673jIYwzCX2x3VRT04I-k_EX5i45qvS9e6tjbnBGU-nSi9Ce2dPvAS0UFItF_Km0DUevF0DWBrUB-p5m7wuRiIRSrgSL/s1024/cipher%20case%20pakistan%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="768" data-original-width="1024" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgPU3Pr59CMCe5HjBTTRF85NGol2-A1V5XeK8bqA1Z__ZYG9_qvolfhAuH7jNXzCiPjnTQD6TY8tQGpMV0B-OupX2vLc4m-4xC9673jIYwzCX2x3VRT04I-k_EX5i45qvS9e6tjbnBGU-nSi9Ce2dPvAS0UFItF_Km0DUevF0DWBrUB-p5m7wuRiIRSrgSL/w400-h300/cipher%20case%20pakistan%204.jpg" width="400" /></a></div>گزشتہ روز آنے والے فیصلے میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور یہ سزا ایسے موقع پر سنائی گئی جب ایک ہفتے بعد ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اڈیالہ جیل کے اندر اس مقدمے کی سماعت کرنے والے خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ اس دوران ملزمان، جو اب سزا یافتہ مجرم ہیں، ٹرائل سے متعلق اپنے حقوق سے انکار پر احتجاج کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ دو مواقع پر اسی کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا اور ہر بار کیس کو چلانے میں طریقہ کار کی بے ضابطگیوں کو نوٹ کیا گیا تھا۔ ایسا نہیں لگتا کہ تیسری مرتبہ یہ مقدمہ مختلف طریقے سے چلا ہے اور بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ جب بھی اس فیصلے پر اپیل ہو گی تو شاید اعلیٰ عدالتیں خصوصی عدالت کے فیصلے کی توثیق نہ کریں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhUvse80hOXeNcX9pyZceekyC39PcqZhjVkEDZsDjg6Lkrqxe1SZPteeZyGGy-Uz1VgWosoKSm6k4ZsI5fNjtsGOImbfdsgOigU8pZumVjZruo_abC5RFvwZB1Nw_Nq6sZuuPCtsn3EpVo2YiuDMAJB8hF-GCpQ2wdrVClpgyWcouoK5zypG7cV5pxyxMnv/s864/cipher%20case%20pakistan%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="486" data-original-width="864" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhUvse80hOXeNcX9pyZceekyC39PcqZhjVkEDZsDjg6Lkrqxe1SZPteeZyGGy-Uz1VgWosoKSm6k4ZsI5fNjtsGOImbfdsgOigU8pZumVjZruo_abC5RFvwZB1Nw_Nq6sZuuPCtsn3EpVo2YiuDMAJB8hF-GCpQ2wdrVClpgyWcouoK5zypG7cV5pxyxMnv/w400-h225/cipher%20case%20pakistan%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ماضی میں ہونے والی سرزنش کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بنتا ہے کہ خصوصی عدالت اس معاملے کو اتنی عجلت میں ختم کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ دونوں سیاستدانوں کے خلاف سزائے موت مانگی گئی تھی، صورتحال کئی زیادہ تحمل کی متقاضی تھی۔ اس کے بجائے گزشتہ ہفتے کے آخر میں کچھ عجیب و غریب پیش رفت ہوئی۔ جج نے مدعا علیہان کے لیے ان کی رضامندی کے بغیر سرکاری وکیل مقرر کیا اور بعد میں مبینہ طور پر مدعا علیہان کو استغاثہ کے گواہوں سے جرح کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ اسی دوران دونوں ملزمان کی جانب سے مقرر کردہ قانونی ٹیموں نے شکایت کی کہ انہیں بار بار کارروائی تک رسائی سے روکا گیا۔ مقدمہ نمٹانے کے لیے پیر کے روز ایک تیز رفتار اور طویل سماعت ہوئی جو رات گئے تک جاری رہی۔ ہر چیز سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے مقدمے کی سماعت مکمل کرنے اور فیصلہ سنانے کے لیے کسی قسم کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی گئی ہو۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کبھی عمران خان نے ایک بڑے جلسے میں خطاب کے دوران پوڈیم سے کاغذ لہراتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف ایک سازش کا پردہ فاش کیا ہے، اس دن سے لے کر ریاستی راز افشا کرنے میں انہیں مجرم ٹھہرائے جانے تک سائفر کا معاملہ ہماری سفارتی، قانونی اور سیاسی تاریخ کے ایک تلخ دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس تنازع کے فوری نتائج کے طور پر ہم نے دیکھا کہ امریکا کے ساتھ پہلے سے ہی خستہ حال تعلقات بغیر کسی وجہ کے مزید بگڑ گئے۔ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے لیے عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں سازش کے بیانیے سے زیادہ فائدہ مند تو معاشی معاملات سنبھالنے میں ان کے مخالفین کی ناکامی ثابت ہوئی۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف جو بھی مقدمہ ہو، اسے جلد بازی میں نمٹا کر ناقابل تلافی طور پر کمزور کر دیا گیا ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ اس ڈرامے میں تمام کرداروں کی طرف سے دکھائی جانے والے کم نظری پر حیرانی ہی ہوتی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ اداریہ 31 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔</h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-40407449692651366452024-01-31T16:06:00.002+05:002024-01-31T16:06:19.396+05:00 انتخابات سے قبل سنایا گیا فیصلہ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کی یاد تازہ کررہا ہے <h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgE0q6Am-j5vDTWCHyWQtTt_6UMSAr_Bv3PyPj1BbwkIZZubQ9i5n_tcqm2O9xyiFn_t3SGb4CW-dazMgToKl3dhM9PYN37viN9VpbXKtfRBJb464lGhCUdx6b3TL2t7Fx2uAPTPAmXch-RI6KjNo72ELLI2bJ7mXTi__31ufMqn6PN0pb_58FNN_rat9FB/s850/Imran%20Khan%20cipher%20case%206.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="500" data-original-width="850" height="235" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgE0q6Am-j5vDTWCHyWQtTt_6UMSAr_Bv3PyPj1BbwkIZZubQ9i5n_tcqm2O9xyiFn_t3SGb4CW-dazMgToKl3dhM9PYN37viN9VpbXKtfRBJb464lGhCUdx6b3TL2t7Fx2uAPTPAmXch-RI6KjNo72ELLI2bJ7mXTi__31ufMqn6PN0pb_58FNN_rat9FB/w400-h235/Imran%20Khan%20cipher%20case%206.jpg" width="400" /></a></div>خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک اس فیصلے کا پہلے سے ہی اندازہ تھا۔ عام انتخابات سے صرف ایک ہفتہ قبل سنایا گیا یہ عدالتی فیصلہ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات اور سزاؤں کی یاد تازہ کررہا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو مختلف مقدمات کے ذریعے منظر سے ہٹانے کی شرمناک سیاسی روایت کے تحت عمران خان نے اپنے بہت سے پیشروؤں جیسا ہی انجام پایا ہے۔ ان پر اور شاہ محمود قریشی پر جیل کے اندر سائفر سے متعلق مقدمہ چل رہا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی پاکستانی رہنما کو سرکاری راز افشا کرنے پر سزا سنائی گئی ہے۔ عمران خان پر ایک سفارتی دستاویز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور خفیہ مواصلات کو گم کردینے کا الزام ہے عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ دستاویز امریکا کی جانب سے درپیش ایک خطرے کو ظاہر کرتی ہے اور اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ان کی حکومت کو واشنگٹن اور اس وقت کی فوجی قیادت کی سازش کے ذریعے ہٹایا جارہا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اس وقت واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے بھیجے گئے سائفر کو غلط طریقے سے استعمال کیا تھا اور یہ بیانیہ گھڑ لیا گیا تھا کہ ان کی حکومت کو بیرونی سازش کے ذریعے ہٹایا جا رہا ہے۔ انہوں نے نام نہاد دستاویز کو ایک سیاسی جلسے میں لہرایا، جس سے ان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹائے جانے سے کچھ ہفتوں پہلے عوامی جذبات کو بھڑکایا گیا۔ اس بیانیے نے کام دکھایا اور عمران خان کے حامیوں کو پرجوش کر دیا۔ یہ واضح ہے کہ سازش کا الزام انہیں عسکری قیادت کے ساتھ بھی محاذ آرائی پر لے آیا، وہی عسکری قیادت جس نے کبھی ان کی حکومت کو سہارا دیا تھا۔ درحقیقت سابق وزیر اعظم کے اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 5 کے تحت عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کے پیچھے بدلہ لینے کی خواہش کارفرما تھی۔ جیل کے اندر عدالتی کارروائی جس طریقے سے چلی اس سے مس ٹرائل کے الزامات کو تقویت ملی۔ پھر انتخابات سے چند روز قبل فیصلہ سنایا جانا بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg-Ir8hkzPmLDUKTJub3QamwGHdI49ERLys9RYyV9eNR8u7Fe_OxPdgYYG6GfKU86Rbz0aBjXWEtUi-U3RKVVsEee10EK3aLLq2M8zo8o5E4nGDuS41OYxKzZ3qcNcwuSEDfqdeVTcgpnE3uu9rCss9f3DOlaMM7kBA446llO1MlEgHSzi3CCZralm9v9vm/s800/Imran%20Khan%20cipher%20case%208.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="480" data-original-width="800" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg-Ir8hkzPmLDUKTJub3QamwGHdI49ERLys9RYyV9eNR8u7Fe_OxPdgYYG6GfKU86Rbz0aBjXWEtUi-U3RKVVsEee10EK3aLLq2M8zo8o5E4nGDuS41OYxKzZ3qcNcwuSEDfqdeVTcgpnE3uu9rCss9f3DOlaMM7kBA446llO1MlEgHSzi3CCZralm9v9vm/w400-h240/Imran%20Khan%20cipher%20case%208.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> یہ سابق وزیر اعظم کی دوسری سزا ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی مجرم ٹھہرائے گئے تھے۔ انہیں گزشتہ سال اگست میں توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی، جس نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا۔ دریں اثنا، پی ٹی آئی کے خلاف سخت کریک ڈاؤن نے پارٹی کے ڈھانچے کو ختم کر دیا ہے۔ اس کا مقصد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کو انتخابی دوڑ سے باہر رکھنا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان یعنی کرکٹ بیٹ واپس لے لیا اور اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے انتخابی امکانات کو سب سے بڑا دھچکا پہنچا۔ پھر بھی تمام تر ریاستی جبر کے باوجود پی ٹی آئی ایک مضبوط قوت بنی ہوئی ہے، جس نے آنے والے انتخابات، جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں مینیج کر لیا گیا ہے، میں اپنے حریفوں کو چیلنج کیا ہے۔ انتخابات کے موقع پر پارٹی کے دو اہم رہنماؤں کو سزا سنانے کا مقصد پارٹی کے حامیوں کے حوصلے پست کرنا لگتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ اس کے برعکس بھی نکل سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے حامی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلیں۔ ایسی صورتحال میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اس لہر کو روکنا انتہائی مشکل ہو گا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما کی سزا پورے سیاسی ماحول کو بدل سکتی ہے۔ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو مقبول سیاسی رہنماؤں کو الگ تھلگ کرنے کی ایسی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ درحقیقت، اس بات کے قوی اشارے ہیں کہ سزا سے سابق وزیر اعظم کی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے خاص طور پر نوجوانوں میں جو کہ کل ووٹروں کی اکثریت ہیں۔ یہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مرکزی دھارے کی دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت سے کھیلے جانے والے طاقت کے کھیل کو بھی خراب کر سکتا ہے۔ انتخابی عمل میں عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی کا مظاہرہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمزور انتخابی مہم سے ہوتا ہے۔پی ٹی آئی اور کچھ دوسرے گروہوں پر جاری جبر نے پہلے ہی ایک انتہائی غیر مستحکم صورتحال پیدا کر دی ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران خان کی سزا ملک میں موجودہ سیاسی پولرائزیشن اور عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے، جس سے پورے جمہوری عمل کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات کی ساکھ پہلے ہی مشکوک ہونے کے باعث ملک کے استحکام کی طرف بڑھنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مشکوک انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی ایک کمزور سویلین حکومت کے لیے بہتر حکومت کرنے اور اقتصادی اور قومی سلامتی کے محاذوں پر کچھ ڈیلیور کرنے کا امکان نہیں ہے۔ جمہوری سیاسی عمل کے کمزور ہونے کے نتیجے میں طاقت کے ڈھانچے پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا سایہ پہلے ہی طویل ہو چکا ہے۔ ایک عوامی اجتماع میں آرمی چیف کے حالیہ تبصروں سے متعلق سامنے آنے والی کچھ خبریں موجودہ سیاسی نظام کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے تنقیدی جائزے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس ملک میں آرمی چیف کا اسٹیبلشمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر کے موضوعات پر بات کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی جب موجودہ آرمی چیف نے طلبہ سے بات کرتے ہوئے سیاست سے لے کر معیشت، خارجہ پالیسی اور مذہب تک کے مسائل پر بات کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اپنا وژن تھا کہ ملک کس طرح اپنی تقدیر بدل سکتا ہے، کچھ لوگ اسے ’جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن‘ کہتے ہیں،۔ یہ یقینی طور پر پہلی بار نہیں ہے کہ اس طرح کے ریمارکس فوجی سربراہوں سے منسوب کیے گئے ہوں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھی ملک کو درست سمت میں لے جانے کے لیے اپنی ایک ’ڈاکٹرائن‘ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلبہ کے ساتھ یہ عوامی تعامل انتخابات کے قریب ہی ہوا تھا۔ ایسا عمران خان کی تازہ ترین سزا سے چند دن پہلے ہونا اتفاق نہیں ہو سکتا۔ یہ یقینی طور پر کوئی غیر سیاسی گفتگو نہیں تھی اور اس کے ملک کے مستقبل پر اثرات ہوں گے۔ اگرچہ سیاست کے بارے میں آرمی چیف کے خیالات زیادہ تر سویلین سیاسی رہنماؤں پر ادارہ جاتی عدم اعتماد کی عکاسی کرتے تھے تاہم سماجی اور ثقافتی مسائل پر ان کا نقطہ نظر زیادہ اہم لگا۔ اگرچہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ فوج زمام اقتدار سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ وہ سویلینز کو بھی کھلی چھوٹ نہیں دینا چاہتی ہے۔ سیاست دانوں کا عدم اعتماد اب بھی واضح ہے، حالانکہ انتخابات کے انعقاد پر شک کی اب کوئی وجہ نہیں ہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ عمران خان کی سزا کے بعد سیاسی منظر نامہ کیسا بنتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">زاہد حسین </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1464573684973320826.post-51216811541541721662024-01-30T11:59:00.003+05:002024-01-30T11:59:58.557+05:00غزہ بحران پر عالمی عدالتِ انصاف نے کیا فیصلہ دیا ہے؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjmZzWs1uX-yMAt3VPcJ6jI4FOyA_F0m_kkYj3NINqUJNIp_wrnuetPbYRJqyF8xrDte4p4aoU7P2lB5pZTNyZeE1CZHcUElodFF9LVCSQSYwrjldH35lJmKWRBZ-gndNGqvmY2_9h9l6cJXFVj4FvDWVBtwnWMCMJ__LjCv2xgHxV3FHO00O0cRFtVvaI2/s864/South%20Africa%20genocide%20case%207.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="486" data-original-width="864" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjmZzWs1uX-yMAt3VPcJ6jI4FOyA_F0m_kkYj3NINqUJNIp_wrnuetPbYRJqyF8xrDte4p4aoU7P2lB5pZTNyZeE1CZHcUElodFF9LVCSQSYwrjldH35lJmKWRBZ-gndNGqvmY2_9h9l6cJXFVj4FvDWVBtwnWMCMJ__LjCv2xgHxV3FHO00O0cRFtVvaI2/w400-h225/South%20Africa%20genocide%20case%207.jpg" width="400" /></a></div>عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کی جنوبی افریقہ کا کیس نہ سننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پاس جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں مبینہ نسل کشی سے متعلق کیس سننے کا اختیار ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عدالت کی جانب سے اسرائیل کو غزہ میں ہلاکتوں اور نقصان کم کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاہم غزہ میں فوجی آپریشن بند کرنے یا جنگ بندی کا حکم نہیں دیا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عالمی عدالت انصاف کی جانب سے سُنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اپنے اختیار میں موجود تمام اقدامات اٹھائے تاکہ غزہ میں نسل کشی کے مترادف واقعات سے بچا جا سکے اور نسل کشی پر اُکسانے والوں کو سزا دی جائے۔‘ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjklC5PEJNX7Qk0k24BjvjKUb2WwDlfp8MeDaPaU1zAUSgvUuS31KTJXiWClIQGrnBqIVLVl_iwlnWNie3F1sZHYTdIjgy5yz3QfzTEySK9CtuqdYgJ4L9UqL_1bLE0-IpmvZqm1x50lMB_WJHAJX3L31Kc73b_sVb8ABoiHmE3JTAbndNMfZ-k42dq5bZy/s1600/South%20Africa%20genocide%20case%208.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="800" data-original-width="1600" height="200" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjklC5PEJNX7Qk0k24BjvjKUb2WwDlfp8MeDaPaU1zAUSgvUuS31KTJXiWClIQGrnBqIVLVl_iwlnWNie3F1sZHYTdIjgy5yz3QfzTEySK9CtuqdYgJ4L9UqL_1bLE0-IpmvZqm1x50lMB_WJHAJX3L31Kc73b_sVb8ABoiHmE3JTAbndNMfZ-k42dq5bZy/w400-h200/South%20Africa%20genocide%20case%208.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عالمی عدالت انصاف کا مزید کہنا ہے کہ ’اسرائیل اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی فوجیں غزہ میں نسل کشی نہ کریں اور مبینہ نسل کشی کے شواہد کو محفوظ رکھا جائے۔‘</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">خیال رہے کہ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات پر مشتمل ایک قانونی درخواست جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے اقدامات ’نسل کشی کے مترادف‘ ہیں کیونکہ ان کا مقصد ’غزہ میں فلسطینیوں کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنا ہے۔‘ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">فیصلے میں عالمی عدالتِ انصاف کا مزید کہنا ہے کہ ’اسرائیل کو عدالت کے سامنے ایک ماہ کے بعد ایک رپورٹ پیش کرنی ہو گی جس میں یہ بتانا ہو گا کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی سے بچنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔‘ ’اس فیصلے سے اسرائیل پر عالمی آئین کے مطابق ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔‘</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ بی بی سی اردو</h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/11468318155300615604noreply@blogger.com0