موجودہ حکومت کو معرض وجود میں آئے ہوئے تقریباً نو ماہ ہونے کو ہیں اور کوئی شک نہیں کہ اس نے اِن نو مہینوں میں معاشی بہتری کے لیے بہت سے کام کیے ہیں لیکن کیا اُن کے نتیجے میں ہم اس خطرناک صورتحال سے باہر نکل آئے ہیں اور ڈیفالٹ ہو جانے کا خطرہ یقیناً ٹل چکا ہے۔ اس کا جواب یقیناً نہ اور نفی میں ہوگا۔ ابھی ہمارے ڈیفالٹ ہوجانے کا خطرہ صرف دو تین مہینوں کے لیے ٹلا ہے۔ 2021 برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے انتہائی برے وقت میں ہمارا ہاتھ پکڑا اور تین ارب ڈالر ہمارے خزانے میں صرف اس مقصد سے ڈیپازٹ کر دیے کہ ہم کہیں حقیقی طور پر دیوالیہ ظاہر نہ ہو جائیں۔ دنیا کی نظروں میں ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کی خاطر سعودی عرب نے ایک حقیقی دوست اور بھائی کا کردار ادا کیا۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ یہ تین ارب ڈالر اسے ایک سال میں واپس بھی نہیں ملیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی ہم ہر سال ایک درخواست لے کر اُن کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور مزید ادھار مانگنے کے بجائے یہی تین ارب ڈالرزکی واپسی کے لیے مزید مہلت مانگ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سعودی ارب یہ مہلت دینے سے انکار کر دے تو ہم کہاں کھڑے ہونگے؟ معاشی طور پر دیوالیہ ہوجانے سے بچ جانے کے ہمارے دعوے کتنے درست اور حقیقی ثابت ہوں گے۔
کیا ہم دھڑام سے زمین بوس نہیں ہوجائیں گے۔ یہی حال UAE سے لیے تین ارب ڈالروں کا بھی ہے اور چین سے ادھار پیسوں کا بھی۔ ہم کب تک اسی طرح کام چلاتے رہیں گے اور اپنے آپ اور قوم سے جھوٹ بولتے رہیں گے۔ IMF اگر ہمیں نئے قرض کی منظوری نہیں دیتا تو بھی ہمیں ڈیفالٹ ہوجانے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا تھا۔ پھر یہ ادھار کے ڈالرز بھی کام نہیں آتے۔ IMF کی مہربانی سے ہمیں کچھ دنوں کے لیے سانس لینے کا موقع ضرور مل گیا ہے لیکن دیوالیہ ہوجانے کے خطروں سے ابھی ہم باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی ہمیں IMF کے قرض سے صرف ایک قسط ملی ہے اورہم نے اپنے شاہانہ خرچ یک دم بڑھا دیے ہیں۔ ایک ماہ قبل ججوں کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا اور اب اپنے پیٹی بھائیوں یعنی پارلیمنٹرین کی مشاہرے میں بڑا اضافہ کر دیا۔ حکومت ایک طرف ٹیکس جمع کرنے کے مطلوبہ ہدف کو پورا بھی نہیں کر پا رہی ہے اور دوسری طرف اپنے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ بھی کر رہی ہے، حالانکہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نے ایک بار نہیں کئی بار قوم کو یقین دہانیاں کروائی ہیں کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے والی ہے اور آنے والے دنوں میں ہم واضح طور پر اس کمی کو دیکھ پائیں گے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت نے اپنے اس وعدے کی ایک شق پر بھی عمل نہیں کیا۔
حکمرانوں اور پارلیمنٹرین میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں سامنے آیا جس نے اس غیر ضروری اضافے کو مسترد کیا ہو یا اس کی مخالفت کی ہو۔ عوام سے تو توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے اخراجات کم کر دے اور قربانیوں پر قربانیاں دیتی رہے لیکن اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے یہ تمام کے تمام افراد اپنے اخراجات ایک فیصد بھی کم کرنے کو تیار نہیں، بلکہ وہ اس اضافے کے ثمرات سمیٹ لینے کے لیے مکمل طور پر متفق اور متحد ہیں۔ اپوزیشن میں سے بھی کسی ایک شخص نے اس اضافے کے خلاف ایک آواز بھی بلند نہیں کی۔ ویسے وہ حکومت کے ہر کام پر تنقید اور تنقیص کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر ذاتی مفاد کے اس فیصلے پر وہ بھی خاموشی طاری کیے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کے حوالے سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دس مہینوں میں بڑھتی مہنگائی کی شرح چھ فیصد تک لے آئی ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ سمجھتی ہے کہ اس نے عام عوام کے لیے مہنگائی بہت کم کر دی ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو سوائے ایک آدھ چیز کے مہنگائی کسی اور شہ میں کم نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ مہنگائی میں کمی کے دعوے کرتے ہوئے یہ بھول جاتی ہے کہ مہنگائی کی روز افزوں شرح جو ایک سال پہلے تک تیس فیصد تک پہنچ چکی ہے وہ اب چھ سات فیصد تک آگئی ہے۔
یعنی مہنگائی تو پھر بھی ہو رہی ہے۔ بے تحاشہ کے بجائے چھ سات فیصد ماہانہ کی شرح پر۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ عوام کو اس طرح کیا ریلیف ملا۔ اسے تو آج بھی اپنی اسی آمدنی سے چھ فیصد مزید مہنگی چیزیں خریدنی پڑ رہی ہے۔ بات تو جب تھی کہ جن اشیائے ضروریہ کے دام پہلے ہی بڑھ چکے تھے انھیں کم کیا جاتا۔ نہ کہ مزید چھ سات فیصد اضافہ کر کے عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کے دعوے کیے جاتے۔ دنیا کے ہر ملک میں جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں یا بنائی جاتی ہیں وہ وہاں کے عوام کو ہمیشہ سستی اور ارزاں قیمتوں پر ملا کرتی ہیں لیکن ہمارے یہاں کا معاملہ عجیب و غریب ہے۔ یہاں ہر چیز چاہے وہ امپورٹ کی گئی ہو یا خود ہمارے یہاں پیدا ہوتی ہوں، بین الاقوامی قیمتوں کے مطابق دستیاب ہونگی۔ گندم ، چاول اور چینی وافر مقدار میں ہمارے اپنے یہاں پیدا ہوتی ہے لیکن عوام کو وہ بھی ڈالرکی قیمت یا دوسرے ملکوں میں ملنے والی قیمت کے حساب سے مہیا کی جاتی ہیں۔ اس کے لیے بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ اگر سستی ہونگی تو پھر ان اشیاء کی اسمگلنگ شروع ہو جائے گی۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ معاشی حوالے سے حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔
لانگ ٹرم منصوبے کیا ہیں۔ صرف وقتی علاج اور قرض حاصل کر کے خزانے کا وزن بڑھا دیا گیا ہے۔ پی آئی اے اور مالی بحران کے شکار کئی ادارے آج بھی قوم کے خون پسینے کی کمائی کھا رہے ہیں۔ انھیں فروخت کرنے یا پرائیوٹائز کرنے میں سست روی دکھائی جا رہی ہے۔ دو تین برسوں سے سنتے آئے ہیں کہ کئی ادارے نجی تحویل میں دیے جانے کا پروگرام ہے لیکن ایک ادارہ بھی آج تک فروخت نہیں کیا گیا۔ خسارے میں چلنے والے ادارے اب اس حال میں پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بھی انھیں خریدنے والا نہیں۔ ملک میں پائی جانے والی معدنیات کے حوالے سے بھی کوئی ٹھوس پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔ انھیں نکالنے کے منصوبے ابھی تک محض کاغذوں پر موجود ہیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک بھی ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور ہم چند مہینوں کے زرمبادلہ کے ذخائر جمع کر لینے پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ذخائر جو دوست ممالک کی مہربانیوں کی وجہ سے قائم ہیں، وہ اگر قائم نہ رہیں تو پھر ہمارا کیا ہو گا؟ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے صرف تسلیاں دینے سے اب کام نہیں چلے گا۔
0 Comments