Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

شام میں فوجی آپریشن : کیا ترکی نے اہداف حاصل کر لیے

کئی مہینوں کی ترغیب، دباؤ، لابینگ کے بعد ترکی کے صدر جناب طیب اردوان آخر کار امریکی صدر ٹرمپ کو شام کے اندر فوجی آپریشن کے لیے رضامند کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 2012ء سے جناب طیب اردوان اس کوشش میں رہے ہیں کہ اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے شام کے اندر ایک سیف زون بنا سکیں۔ یہ علاقہ جس میں جناب اردوان سیف زون بنانا چاہتے تھے وہ دریائے فرات کی مشرقی جانب واقع ہے۔ 2012ء کے موسمِ گرما میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے مخالف عناصر نے اس علاقے سے شامی افواج کو نکال باہر کیا اور اس طرح یہ علاقہ حکومت کے ہاتھوں سے نکل کر کرد تنظیم وائی پی جی کے کنٹرول میں چلا گیا۔ 2016ء سے پہلے صدر اردوان کی یہ کوشش اس لیے کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ امریکا اس پر رضامند نہیں تھا اور ترک افواج بھی اس کے لیے مکمل تیار نہیں تھیں۔

اس وقت چونکہ امریکا ترکی کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھا اس لیے ترکی نے بھی امریکی قیادت میں داعش کے خلاف عراق و شام میں کارروائی سے پہلو تہی کی۔ ترکی نے اپنی سرزمین پر قائم ایئر بیس سے کارروائیوں کی اجازت نہیں دی۔ امریکی افواج کو مجبوراً قطر اور بحرین میں اپنے اڈوں سے اڑنا پڑا جس وجہ سے امریکی افواج کی استعدادِ کار پر بہت منفی اثر پڑا۔ صدر ٹرمپ کی رضامندی حاصل کرنے اور اپنی افواج کی مناسب تیاری کے بعد ترکی نے کوئی ڈیڑھ مہینہ پہلے شمال مشرقی شام میں آپریشن پِیس اسپرنگ شروع کیا اور علاقے میں ایک بڑے حصے پر قابض ہونے میں کامیابی حاصل کر لی۔ ترکی کا کہنا ہے کہ نو اکتوبر کو فوجی آپریشن اس لیے شروع کیا گیا تاکہ علاقے سے کرد لڑاکوں کو نکال کر اپنی سرحد کو محفوظ بنایا جا سکے اور ایک محفوظ زون قائم کیا جا سکے۔

محفوظ زون بنانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ترکی کے اندر شامی مہاجرین کے کیمپوں کو دوبارہ شام کے اندر منتقل کر کے سیکیورٹی کے ایشوز سے نمٹا جا سکے۔ پاکستانی اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ مہاجرین کے کیمپ اگر لمبے عرصے تک ملک کے اندر رہیں تو سیکیورٹی کے بے شمار مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور ان پر بعد میں قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ترک فوجی آپریشن شروع ہونے سے چند دن پہلے امریکا نے شام کے ان علاقوں جہاں Syrian Democratic Force اور کردستان ورکرز پارٹی کی ذیلی تنظیم وائی پی جی نے اپنی عملداری قائم کر رکھی تھی وہاں سے اپنی افواج کو فوری طور پر نکالنے کا اعلان کر دیا۔ یہ ترکی کے لیے ایک گرین سگنل تھا اور اس کے لیے فوجی آپریشن شروع کرنا آسان ہو گیا البتہ ترک حملے کو کئی ملکوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ 

فرانس کے صدر میکرون نے اس حملے کو پاگل پن قرار دیا جب کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اس کو سیدھا سیدھا حملہ قرار دیا۔ کینیڈا اور آٹھ دوسرے ممالک نے ترکی کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ کرد امریکا کے بہت قابلِ اعتماد ساتھی رہے ہیں۔ داعش کے ساتھ لڑائی میں کردوں کا بہت اہم رول رہا ہے اور شاید یہ کہنا صحیح ہو گا کہ کردوں کی حمایت کی وجہ سے داعش کو شکست ہوئی۔ ترکی وائی پی جی کو کردستان ورکرز پارٹی ) پی کے کے ( کا ہی ایک بڑھاوا یعنی ایکسٹنشن سمجھتا ہے اور چونکہ ترکی کی نظر میں پی کے کے ایک دہشتگرد تنظیم ہے اس لیے وائی پی جی کو بھی اسی زمرے میں ڈالا جاتا ہے۔ پی کے کے کئی دہائیوں سے ترکی کے خلاف آزاد کردستان کے قیام کے لیے نبرد آزما ہے۔ موجودہ حالات میں پی کے کے نے اپنے اہداف کو کسی حد تک تبدیل کیا ہے۔ اب وہ آزاد کردستان نہیں بلکہ ترکی کے اندر کرد اکثریتی علاقوں پر مشتمل زیادہ سے زیادہ خود مختار ریجن قائم کرنا چاہتا ہے۔ 

صدر ٹرمپ نے ترکی کے صدر جناب طیب اردوان کو عین اس دن ایک خط لکھا جس دن فوجی آپریشن شروع ہوا۔ اس خط میں صدر ٹرمپ نے صدر اردوان کو کہا کہ وہ ایک انتہائی سخت آدمی نہ بنیں، حملے کو روکنے کا حکم دیں اور کردوں کے ساتھ مذاکرات کریں۔ صدر اردوان نے ٹرمپ کے اس خط کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ چند دن گزرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے ترکی کے اوپر کچھ پابندیاں عائد کر دیں لیکن سفارتی راستے کھلے رکھے۔ترک افواج اور شامی جمہوری فورس ) ایس ڈی ایف اور وائی پی جی) کے درمیان کوئی دس دن تک لڑائی ہوتی رہی۔ اس دوران 18 اکتوبر کو امریکی نائب صدر مائیک پنس اور وزیرِخارجہ پمپیو ترکی پہنچے اور صدر اردگان سے مذاکرات کیے۔ مذاکرات کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پایا جس کی رُو سے امریکا اور ترکی وقتی طور پر حملے کو روکنے اور سیز فائر پر آمادہ ہو گئے۔ 

کردوں کو 120 گھنٹے دیے گئے تاکہ وہ ترکی کی سرحد سے 30 کلومیٹر پیچھے ہٹ جائیں۔ اس طرح ایک 120 کلومیٹر لمبا اور 30 کلومیٹر گہرا محفوظ زون تل ابیاد اور راس العین کے درمیان قائم کیا جا سکے۔ محفوظ زون کا یہ علاقہ اس علاقے سے بہر حال چھوٹا ہے جو ترکی نے ابتدا میں پلان کیا تھا۔ معاہدے کے اعلان کے بعد ترک افواج نے اپنا حملہ روک دیا۔ ایک سو بیس گھنٹے گزرنے سے تھوڑا پہلے روس اور ترکی کے صدور سوچی میں ملے اور ایک کافی لمبے دور کی بات چیت کے بعد دونوں صدور نے ایک نئے معاہدے کا اعلان کیا۔ اس نئے معاہدے کے تحت کردوں کو مزید 150 گھنٹے مل گئے تاکہ وہ محفوظ زون کے علاقے سے نکل جائیں۔ اس دوران امریکا نے ترکی کے خلاف عائد پابندیاں ہٹا لیں۔ چند اکا دکا خلاف ورزیوں کو چھوڑ کر ترکی روس معاہدہ ابھی تک قائم ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی کے اہداف کیا تھے اور کس حد تک ترکی ان اہداف کو حاصل کر سکا ہے۔ ترکی کا پہلا ہدف اپنی سرحد کے ساتھ شام کے اندر ایک محفوظ زون قائم کرنا تھا، ترکی نے اپنا یہ ہدف بہت حد تک حا صل کر لیا ہے حالانکہ یہ محفوظ زون اس سارے علاقے پر مشتمل نہیں ہے جس کا ترکی نے ابتدا میں سوچا تھا یا پلان کیا تھا لیکن پھر بھی ایک بڑے علاقے پر محفوظ زون قائم ہو گیا ہے۔ ترکی کا دوسرا ہدف ترکی کے اندر قائم شامی مہاجرین کے کیمپوں کو شام کے اندر منتقل کرنا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق کم و بیش 35 لاکھ شامی مہاجرین ان کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ محفوظ زون قائم کر کے ترکی اس قابل ہو گیا ہے کہ ان کیمپوں کو واپس شامی سرحد کے اندر لے جا سکے۔ 

ترکی نے اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ایک منصوبہ پیش کر دیا ہے جس کے مطابق مہاجرین کو اس علاقے میں دوبارہ بسایا جائے گا، ترکی کا ایک اور ہدف کردوں کو اپنی سرحد سے دور ہٹانا ہے۔ تاکہ وہ ترکی کے اندر کرد علاقوں سے مل کر کردستان کے شوشے کو مزید نہ اُچھالیں۔ ترکی نے یہ ہدف بھی بہت حد تک حاصل کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی اپنی سرحد کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ کردوں کے پیچھے ہٹ جانے سے ترک سرحد ظاہری طور پر محفوظ ہو گئی ہے۔ ترکی نے یہ اہداف صرف بیس ہلاکتیں جھیل کر حاصل کیے ہیں۔ اب آخری بات یہ ہے کہ ترکی نے دونوں بڑی قوتوں یعنی امریکا اور روس کو درمیان میں لا کر اپنے فوجی آپریشن کو جائز ٹھہر والیا ہے۔ یہ ترکی کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ اپنے اہداف حاصل کرنے کے ساتھ دونوں عالمی قوتوں کو بھی اپنی سائڈ پر کر لیا ہے۔ اس سے ترکی کی عالمی اسٹینڈنگ کا پتا چلتا ہے۔

عبد الحمید  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments