Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

انڈیا جسٹن ٹروڈو کو کیوں نظر انداز کر رہا ہے؟

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سات روزہ سرکاری دورے پر انڈیا گئے ہوئے ہیں لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی کی حکومت ان کے دورے کو اتنی اہمیت نہیں دے رہی جتنی دی جانی چاہیے تھی۔ تاثر یہ ہے کہ جسٹن ٹروڈو کے دورے کو حکومت کے اعلیٰ اہلکاروں نے اب تک نظر انداز کیا ہے اور قیاس آرائی یہ ہے کہ اس کی وجہ ان کی کابینہ میں شامل وہ چار سکھ وزرا ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں انڈیا میں بعض لوگوں کا الزام ہے کہ ان کی ہمدردی خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک کے ساتھ رہی ہے۔

جب مسٹر ٹروڈو اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ دلی پہنچے تو ان کا استقبال کرنے کے لیے ہوائی اڈے پر وفاقی حکومت کے ایک جونیئر وزیر موجود تھے، لیکن گذشتہ ماہ جب اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور اس سے پہلے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور جاپان کے وزیر اعظم انڈیا آئے تھے تو نریندر مودی ان کا استقبال کرنے خود ائیر پورٹ پہنچے تھے اور نیتن یاہو اور شنزو آبے کو خود گجرات لے کر گئے تھے۔ بنیامین نیتن یاہو آگرہ میں تاج محل دیکھنے گئے تو خود اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کے ساتھ موجود رہے۔ جسٹس ٹروڈو گئے تو انہیں ضلع میجسٹریٹ سے ہی کام چلانا پڑا۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا حکومت واقعی مسٹر ٹروڈو کو دانستہ طور پر نظر انداز کر رہی ہے اور اگر ہاں، تو کیوں؟

کالم نگار وویک دہیجیا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلا شبہہ مسٹر ٹروڈو کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ ایک جونیئر وزیر کو ان کے استقبال کے لیے بھیجا گیا۔ ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کی کابینہ کے کئی سینیئر وزیر پنجاب میں علیحدگی کی تحریک سے مبینہ طور پر وابستہ رہے ہیں۔ اس سے پہلے گذشتہ برس کینیڈا کے وزیر دفاع ہرجیت سجن انڈیا آئے تھے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امرندر سنگھ نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن کینیڈا میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر وشنو پرکاش کا کہنا ہے کہ مسٹر ٹروڈو کے استقبال میں پروٹوکال کی پاسداری کی گئی ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر غیرملکی رہنما کا استقبال وزیر اعظم خود کریں۔ 

سابق سفارتکار کنول سبل کا کہنا ہے کہ مسٹر ٹروڈو کے دورے کو خالصتان کی تحریک کے بارے میں انڈیا کے خدشات کینیڈا کی اعلیٰ قیادت تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور خالصتان کی تحریک کا سایہ اگر اس دورے پر شروع سے ہی اثر انداز ہوتا ہے تو سیاسی اعتبار سے یہ غلط ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دورے کو جسٹن ٹروڈو سے یہ وعدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کہ کینیڈا میں سرگرم خالصتان کے ہمدردوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ مسٹر سبل کے خیال میں بھی یہ تاثر غلط ہے کہ جسٹن ٹروڈو کے دورے کو اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی جتنی کہ ملنی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سنہ 2015 میں جوہری معاہدہ طے پانے کے بعد باہمی رشتوں میں ڈرامائی انداز میں بہتری آئی ہے۔

کینیڈا کے ایک وزیر ہرجیت سوہی نے چند روز قبل کہا تھا کہ نہ تو وہ خالصتان کی تحریک کے حق میں ہیں اور نہ خلاف اور اگر کینیڈا میں ایک چھوٹا سا حلقہ پرامن انداز میں علیحدگی کی تحریک کی بات کرتا ہے، تو ایسا کرنا ان کا حق ہے۔
لیکن کینیڈا کے اخبار ٹورونٹو سن کی کالم نگار میلکم کینڈس کا کہنا ہے کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کینیڈا میں آکر بسنے والوں کو شدت پسند تنظیموں کی حمایت کرنے کا حق حاصل ہے؟ ان کے مطابق جسٹن ٹروڈو اور ان کے وزیر جگمیت سنگھ کو خالصتانی شدت پسندوں کی مذمت کرنی چاہیے۔ لیکن جسٹن ٹروڈو ابھی صرف سیاحت کر رہے ہیں، جب سیاست شروع ہوگی تو واضح ہو گا کہ انہیں نظرانداز کیا گیا ہے یا نہیں۔

عائشہ پریرا
بی بی سی نیوز, دہلی
 

Post a Comment

0 Comments