Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

رحمۃ للعالمین ﷺ کے پاک نام پر

گناہگار تو شاید سب ہیں لیکن میں تو بہت ہی زیادہ گناہگار ہوں۔ مغفرت کی امید ہے تو اپنے عمل کے سہارے نہیں بلکہ غفورالرحیم کی صفت رحمت اور رحمت اللعالمین ﷺ کے جذبہ رحمت کو دیکھ کر بخشش کی توقع لگائے بیٹھا ہوں۔ تاہم حیرت زدہ ہوں کہ وہ لوگ روز قیامت اللہ کو کیا جواب دیں گے جو اس کے نبی پاکﷺ کے پاک نام اور مقدس دین کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے اور اس کی آڑ میں آپﷺ کی امت کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی مسلمان ہوکر نبی آخرالزمان ﷺ کے خاتم النبین ﷺ ہونے میں رتی برابر بھی شک کرے ۔ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کرختم نبوت ﷺ کے عقیدے اور قوانین میں تبدیلی یا ان سے متعلق سوال اٹھانے کا سوچ سکتا ہے۔ 

ذہن نہیں مانتا کہ مسلمان ہو کر بھی کوئی دانستہ ختم نبوت ﷺ کے عقیدے اور قانون کو متنازع بنانے کا خیال ذہن میں لا سکتا ہے۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ جو کچھ ہوا وہ کوئی سازش تھی یا پھر حکمرانوں اور ان کے اتحادیوں کی حماقت ممبران پارلیمنٹ کے حلف نامے میں تبدیلی کی جو غیرضروری حماقت کی گئی، اس کے اگر ذمہ دار ہیں بھی تو حکمران ہیں یا پھر ان کے اتحادی۔ بنیادی ذمہ داری بلاشبہ وزیر قانون زاہد حامد کی بنتی ہے، پھر کابینہ اور پارلیمنٹ کی۔ وزیر داخلہ احسن اقبال میرے ٹی وی پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں آن ریکارڈ دعویٰ کر چکے ہیں کہ قومی اسمبلی کی جس کمیٹی نے حلف نامے میں تبدیلی کے قانون کی منظوری دی اس میں جے یو آئی کے ممبر بھی موجود تھے جبکہ مولانا فضل الرحمان صاحب کا موقف ہے کہ پارلیمنٹ اجتماعی گناہ کی مرتکب ہوئی ہے۔

اب اگرچہ قانون واپس لے لیا گیا لیکن بہرحال جو جرم سرزد ہوا، اس کا ذمہ دار اگر کوئی ہے تو حکومت یا پھر بقول مولانا فضل الرحمٰن پوری پارلیمنٹ، لیکن اس میں راولپنڈی میں رہنے والے رحمۃ للعالمین ﷺ کے امتی اس مزدور کا تو ہرگز کوئی قصور نہیں کہ جو روزانہ بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر اسلام آباد میں دیہاڑی لگانے جاتا ہے اور رستہ بند ہونے کی وجہ سے وہ گزشتہ ایک ہفتے سے مزدوری نہیں کر سکا۔ اسی طرح رحمۃ للعالمین ﷺ کے اس امتی کا بھی کوئی قصور نہیں کہ جو ذاتی گاڑی نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد اور پنڈی کے مابین آنے جانے کے لئے میٹرو استعمال کرتا تھا لیکن اس کی بندش کی وجہ سے اب وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا میٹرو کے کھلنے کا انتظار کر رہا ہے ۔

اسی طرح گوجر خان سے تعلق رکھنے والے رحمۃ للعالمینﷺ کے اس امتی کا تو قانون بدلنے کے عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا جو اپنی بیمار والدہ کو شفا اسپتال لا رہا تھا لیکن رستہ بند ہونے کی وجہ سے اسے بلک بلک کر روتے ہوئے اپنی والدہ کواسپتال پہنچائے بغیر ان کی لاش کے ساتھ واپس جانا پڑا۔ وہ باپ تو وزیر ہے اور نہ کابینہ کا رکن بلکہ شاید موجودہ حکومت سے خادم حسین رضوی سے بھی زیادہ نالاں ہیں کہ جو اپنے جگر گوشے کو سڑکوں کی بندش کی وجہ سے اسپتال نہ پہنچا سکا۔ اسی طرح پیغمبرانہ پیشے سے وابستہ ان سینکڑوں اساتذہ کرام کا تو مجھے کوئی قصور نظر نہیں آیا، جو دھرنے کی وجہ سے اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے متعلقہ تعلیمی اداروں تک آنے جانے سے قاصر ہیں۔

کیا فیض آباد، کنہ پل ، آئی ایٹ اور گردونواح کے علاقوں میں رہنے والے لاکھوں پاکستانی اس رحمۃللعالمین ﷺ کے امتی نہیں کہ جس کے نام کی آڑ لے کر گزشتہ ایک ہفتے سے ان سب کو گھروں میں محصور کر دیا گیا ہے اور کیا روز قیامت ان لوگوں کے ہاتھ ، حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے گریبانوں پر نہیں ہوں گے کہ جنہوں نے دھرنے کے ذریعے ان کا جینا حرام کر دیا ۔ کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ان لاکھوں لوگوں کے دلوں میں رحمۃللعالمین ﷺ کی محبت کسی دھرنا دینے والوں سے کم ہے۔ جس رحمۃ للعالمین ﷺ کے پاک نام پر اس کی امت کو تکلیف دی جا رہی ہے، اس نبیﷺ نے تو مسلمان کی شان یہ بتائی ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہتے ہیں ۔ 

آپﷺ نے رستہ کھلا رکھنے کے لئے مسجد تک کو ڈھانے کا رستہ دکھایا ہے۔ آپﷺ نے تو بندئہ مومن کی حرمت کعبۃ اللہ سے زیادہ بیان فرمائی ہے۔ بات صرف زاہد حامد اور احسن اقبال کی ذات تک محدود ہوتی تو ہم جیسے گناہگار پھر بھی خاموش رہتے لیکن اب تو عاشق رسولﷺ جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی فیصلے کی صورت میں بول اٹھے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ماضی کے بعض اقدامات اور فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے ایک سچے عاشق رسول ﷺ ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ ان کے ماضی کے بعض فیصلوں اور کمنٹس پر لبرل حلقوں کی طرف سے اس بنیاد پر اعتراض اٹھایا جاتا رہا کہ شاید ان سے خادم حسین رضوی جیسے لوگوں کو شہ ملتی ہے لیکن اب کی بار تو جسٹس صاحب بھی خاموش نہیں رہ سکے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی، علمی میدان میں اس نعیم صدیقی کے جانشین اور پیروکار ہیں جنہوں نے محسن انسانیت ﷺ جیسی شہرہ آفاق کتاب تصنیف کی۔ جسٹس صاحب کسی کو تحفہ دیتے وقت کوئی اور چیز نہیں بلکہ سیرت النبیﷺ پر مبنی اس کتاب یعنی محسن انسانیت ﷺ کا تحفہ دیتے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر شان رسول ﷺ میں گستاخی سے متعلق کیس میں ان کا تفصیلی اور علمی فیصلہ نبی رحمت ﷺ سے ان کی محبت اور اس موضوع کے علمی نزاکتوں پر ان کے عبور کا بین ثبوت ہے ۔ 

مجھے یقین ہے کہ وہ کسی بھی حوالے سے کسی مصلحت یا خوف کا شکار تو ہو سکتے ہیں لیکن اس موضوع پر وہ کسی مصلحت یا خوف کا شکار ہوں گے ، میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اب جب اس جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی فیصلہ دینا پڑا کہ لبیک تحریک والوں کو اپنا دھرنا ختم کر دینا چاہئے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملہ حد سے نکل گیا ہے ۔ جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ محمد مصطفی ﷺ نے رستے سے کانٹے اٹھائے اور آپ لوگوں نے راستے بند کر دئے ہیں ۔ ان کے اس فیصلے نے ثابت کر دیا کہ نہ صرف دھرنا غیرقانونی ہے بلکہ رحمت اللعالمینﷺ کی تعلیمات کے بھی منافی ہے ۔ لیکن افسوس کہ اس کے بعد بھی دھرنے کے منتظمین دھرنا ختم کرنے پر آمادہ نہیں ۔

دلیل ان کی یہ ہے کہ احتجاج کرنا اور دھرنا دینا ان کا قانونی حق ہے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے خلاف قانون قرار دلوائے جانے کے بعد بھی وہ اپنا دھرنا ختم نہیں کر رہے ۔ عدالت عالیہ کا حکم آ گیا کہ معصوم عوام کے رستے بند کرنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے لیکن دھرنا دینے والے پھر بھی اپنی عدالت لگائے بیٹھے ہیں ۔ اندیشہ ہے کہ دھرنا کے منتظمین خود یا کسی کے ایماء پر ایک اور سانحہ لال مسجد برپا کرنے کے مشن پر آئے ہیں لیکن مجھے حیرت ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام پر سیاست کرنے والے مولانا فضل الرحمان، پروفیسر ساجد میر اور صاحبزادہ فضل کریم وغیرہ بھی خاموش ہیں۔ وہ حکومت کا حصہ بھی ہیں اور خادم حسین رضوی کی طرح اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے بھی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ میدان میں کیوں نہیں آتے ۔ اگر حکومت غلط کر رہی ہے تو اس کو سمجھا دیں یا پھر اس سے الگ ہو جائیں اور اگر دھرنا دینے والے غلط کر رہے ہیں تو ان کو سمجھا دیں یا پھر فتویٰ دے دیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اسلامی تعلیمات اور قانون کے منافی ہے ۔ کیا یہ حضرات بھی ایک اور سانحہ لال مسجد کے انتظار میں بیٹھے ہیں تاکہ بعد ازاں ان لاشوں پر اپنی سیاست چمکا سکیں ۔

افتخار عارف صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
رحمت سید لولاک ﷺ پہ کامل ایمان
امت سید لولاکﷺ سے خوف آتا ہے

سلیم صافی
 

Post a Comment

0 Comments