Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا ریاست ہمیشہ میڈیا کی آزادی کی حد کا تعین کیا کرے گی؟

دنیا آج ایک مرتبہ پھر میڈیا کی آزادی کا دن جوش و جذبے سے منا رہی ہے لیکن
پاکستان جیسے ممالک میں 70 سال گزرنے کے باوجود بظاہر یہ طے نہیں ہو سکا ہے کہ ریاست اور میڈیا کے درمیان تعلقات کیسے ہونے چاہیئں۔ کیا مادر پدر آزاد میڈیا دونوں کے فائدے میں ہے یا پھر ریاست ہمیشہ قومی مفاد کے تناظر میں اس آزادی کی حد کا تعین کیا کرے گی؟ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحافت ہی مسلسل خطرے میں قرار دی جاتی رہی ہے۔ کبھی فوجی آمر، کبھی جمہوری رہنما اور کبھی دہشت گردی کی وبا صحافت کی جان کو دیمک کی طرح چاٹتے رہے ہیں۔ آج میڈیا کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات میں صحافی اسی وجہ سے سیلف سینسر شپ پر مجبور ہیں۔

صوبہ بلوچستان میں صحافیوں نے سب سے زیادہ یعنی 40 جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ صوبائی حکومت کے ترجمان انوار الحق نے گذشتہ دنوں کوئٹہ میں ایک تقریب میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاست نے نجی شعبے کو منافع کی خاطر معلومات کی عوام تک رسائی کی مراعات دی ہیں حق نہیں۔ انوار الحق شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میڈیا براہمداغ بگٹی اور ہیربیار مری کو پرائم ٹائم میں جگہ دیتا ہے جہاں وہ پاکستان توڑنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اس سب میں عام آدمی کا جاننے کا حق کہاں گیا؟ اس کو معلومات کیوں نہیں ملنی چاہیے؟
تاہم انوار الحق مزید کہتے ہیں کہ 1973 کے آئین کا آرٹیکل 5 عوام سے ریاست سے غیر مشروط بیعت کا تقاضہ نہیں کرتا ہے۔ ’یہ نہیں ہوسکتا کہ بیٹا کہے کہ والد مجھے ناشتہ دے گا تو میں اسے والد کہوں گا۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ رشتہ غیرمشروط ہے۔‘ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے پیمرا کے ڈائریکٹر جنرل لائسنسنگ جاوید اقبال کہتے ہیں کہ میڈیا مالکان سے شکایت یہی ہے کہ وہ پیسے کی فکر تو کر رہے ہیں لیکن عوام کو مسائل کی حد تک ابہام کا شکار کیا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اکثر صحافی بتاتے ہیں کہ ان کے مالک ان سے شکایت کرتے ہیں کہ فلاں وزیر یا بیوروکریٹ نے انھیں سلام نہیں کیا اس کے پاس میرا یہ کام رکا ہوا تھا اور یہ سب آپ کی نالائقی ہے۔‘

پاکستان میں جس طرح سے الیکٹرانک میڈیا نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے گذشتہ 16 برسوں میں ترقی کی ہے، کچھ سینیئر صحافیوں کے نزدیک اصل مسئلے کی جڑ شاید یہی ہے۔ سینیئر صحافی ناصر ملک کہتے ہیں کہ جب ٹی وی آیا تو مالکان نے 20، 20 سال تجربہ رکھنے والے پرنٹ کے سینیئر صحافیوں کو یہ کہہ کر ٹی وی میں جگہ نہیں دی کہ بقول ان کے انھیں ٹی وی نہیں آتا تھا۔
’اس کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو ٹی وی میں رکھ لیا گیا جن کا اگر شادی کی ویڈیو بنانے کا تجربہ تھا تو اسے کیمرہ مین رکھ لیا۔ کسی کو تکنیکی سدھ بدھ تھی تو ایسے کو پروڈیوسر رکھ لیا گیا۔‘ حکومت نے اب تک قدرے آزاد سوشل میڈیا کی باگیں بھی کھچنا شروع کر دی ہیں۔ بلاگرز اور توہین مذہب کی بحث انہیں کوششوں کا حصہ بتائی جاتی ہیں۔ بعض ناقدین کے مطابق پاکستان میں ریاست کا ہر کسی سے خوفزدہ ہونا شاید بڑے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔

ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Post a Comment

0 Comments