Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے کیا کہہ دیا

گزشتہ منگل کے روز جنگ اخبارمیں شائع ہونے والی خبر کے مطابق وفاقی

شرعی عدالت کے چیف جسٹس ریاض احمد خان نے سود کے متعلق کیس کو سنتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جس وقت سود کی ممانعت کا حکم ہوا اُس وقت کی معیشت آج سے مختلف ہے۔ چیف جسٹس شرعی عدالت نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اُس وقت کے نظام کو آج کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ interest کی تعریف سود نہیں، بلکہ نقصان کا ازالہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر یقین نہیں آیا کہ یہ سوال شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے اٹھائے!!! ہو سکتا ہے کہ وہ سود کے متعلق ایک خاص طبقہ فکر کے ذہن میں موجود سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے ایسے سوال اٹھا رہے ہوں ورنہ ایک شرعی عدالت میں ایسی بات کیسے کی جاسکتی ہے کہ سود کے متعلق احکام کا تعلق اُس دور کی معیشت سے تھا جب قرآن پاک نازل ہوا۔
یہ تو وہی بات ہوئی جو مغرب اورمغرب زدہ دیسی ترقی پسند اور ’’روشن خیال‘‘ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کو نئے دور کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنا چائیے۔ یہ وہی طبقہ ہے جس کے لیے کہا گیا کہ خود بدلتے نہیں ،قرآن کو بدلتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے شرعی احکامات کی حیثیت اٹل ہے۔ جو حکم اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے واضح طور پر آ گیا وہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اُسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے،اُسی کے مطابق ہمیں ایک اسلامی معاشرہ تشکیل دینا ہے اور اس کے لیے وقت یا دور کی کوئی اہمیت نہیں۔ سود کے متعلق اسلام کے احکامات واضح ہیں اور اسی بنا پر وفاقی شرعی عدالت نے 1991 میں اپنے فیصلہ میں پاکستان میں رائج سود کی تمام اقسام کو قرآن اور سنت کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمہ کا حکم دیا تھا۔ 

اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن سپریم کورٹ نے بھی شرعی عدالت کے حکم کی تائید کرتے ہوئے حکومت کو سود کے خاتمہ کا حکم دیا۔ بعدازاں جنرل مشرف دور میں سپریم کورٹ نے یہ معاملہ دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کر دیا اور ہدایت دی کہ اس معاملہ کو دوبارہ دیکھا جائے۔ شرعی عدالت کے 1991 کے فیصلہ کو لٹکانے اور پھر اِدھر سے اُدھر بھیجنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ کوئی حکومت سودی نظام کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ نہ تھی۔ سال 2002 میں یہ معاملہ شرعی عدالت کے سپرد کیا گیا اور آج سال 2017 میں اسی کیس کو ابھی تک سنا جا رہا ہے۔ ان پندرہ سالوں میں شاہد اس کیس کو پندرہ بار بھی نہیں سنا گیا اور معاملات جیسے چل رہے ہیں اگر ایسے ہی چلتے رہے تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ آنے میں شاید ایک آدھ صدی انتظار کرنا پڑے۔

کیس کس سست روی سے چل رہا ہے وہ ایک الگ بحث ہے لیکن ماضی میں اس کیس سے جڑے ایک اہم فرد سے آج بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ سود کے متعلق شرعی عدالت اور پھر سپریم کورٹ میں نوے کی دہائی میں طویل بحث ہوئی اُس میں ہر زاویے سے اس معاملہ کو گہرائی سے دیکھا گیا جس کے نتیجہ میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ سودی نظام کو ختم کیا جائے کیوں کہ یہ نظام معیشت اسلامی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ شرعی عدالت کو چاہیے کہ اپنے پرانے فیصلہ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ اپیلیٹ بنچ کے فیصلے کو پڑھ لیں تو بہت سے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔ ورنہ اگر ہم مغرب یا مغرب سے مرعوب یہاں موجود ایک طبقہ کی سوچ کو اہمیت دینے بیٹھ جائیں گے تو سود کے ساتھ ساتھ دوسرے شرعی احکامات کے تقدس کی بھی پامالی ہو گی۔ کیا اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد یہ بات نہیں کرتے کہ مسلمان خواتین کے لیے پردہ کا حکم تو اُسی دور کے لیے تھا؟ یہ طبقہ تو اسلامی ریاست کو مانتا ہی نہیں اور ریاست کے سیکولر ہونے کی بات کرتا ہے تاکہ شرعی احکامات کے نفاذ کا کوئی سوال ہی نہ اُٹھائے۔

انصار عباسی


Post a Comment

0 Comments