Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بکیوں کا پی ایس ایل پر وار اور کرکٹ میں میچ فکسنگ کی تاریخ

پاکستان کرکٹ میں انہونیاں ختم نہ ہو سکیں، ایک مرتبہ پھر سپاٹ فکسنگ کے سیاہ بادل منڈلانے لگے تو دوسری طرف لاہور دھماکے کے بعد پی ایس ایل ٹو کے فائنل کے لاہورمیں انعقاد کا معاملہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ دبئی میں جاری پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن میں پشاور زلمی سے میچ کے بعد اسلام آباد یونائیٹڈ کے اوپنر بلے باز شرجیل خان اور خالد لطیف کو آئی سی سی انٹی کرپشن یونٹ اور پی سی بی حکام نے فکسنگ کے الزامات پر معطل کیا۔ پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں زبردست کاکردگی دکھانے پر قومی ٹیم میں جگہ بنانے والے بائیں ہاتھ سے جارحانہ بلے بازی کرنے والے شرجیل خان کا تعلق حیدر آباد سے ہے وہ اب تک 25 ون ڈے میچز اور 15 ٹی ٹونٹی میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں جبکہ کراچی کے خالد لطیف پانچ انٹرنیشنل میچز اور13 ٹی ٹونٹی کھیل چکے ہیں ۔ 

31 سال سے زائد عمر کے خالد لطیف اور 27 سال سے زائد عمر کے شرجیل خان پر لگنے والے الزامات پر تحقیقات جاری ہیں۔ الزامات ثابت ہونے پر شرجیل اورخالد لطیف بھی ان کھلاڑیوں میں شامل ہو جائیں گے جن پر پریمئرلیگز میں کرپشن کے الزامات پر پابندی لگی۔ کیا یہ بکیوں کی ساز ش ہے کہ پی ایس ایل کو بدنام کریں یا کوئی اور وجہ تحقیقات سامنے آنے پر ہی صورت حال واضح ہو گی۔ دونوں عمر رسیدہ کھلاڑیوں نے بہت کم انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی ہے۔ بڑھتی عمر میں مزید کرکٹ نہ کھیل سکنے کی بات بھی کھلاڑیوں کو فکسنگ کی طرف لے جاتی ہے۔ آئی  پی ایل اور بی پی ایل کے بعد بکیوں نے پی ایس ایل پر وار کرنے کا پروگرام بنایا لیکن آئی سی سی کے بروقت ایکشن پر معاملہ مزید آگے بڑھنے سے رک گیا۔ انٹرنیشنل میچز میں سختی کے بعد پریمئر لیگز بکیوں کے لئے ہاٹ کیک رہی ہیں۔ پریمئر لیگزمیں اب تک3 کھلاڑیوں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارتی فاسٹ بائولر سری سانت آئی پی ایل کے دروان راجھستان رائلز کی طرف سے کھیلتے ہوئے جوئے میں ملوث پائے گئے اور پابندی کا شکار ہوئے۔ نیوزی لینڈ کے ونسنٹ کو بنگلہ دیش پریمئر لیگ میں کرپشن میں ملوث ہونے کے بعد انگلینڈ ڈومیسٹک کرکٹ میں کرپشن سرگرمیاں برقرار رکھنے پر تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ بنگلا دیش کے اشرافل بھی بی پی ایل میں بکیوں کا شکار ہوئے۔ سری لنکا کے کوشل پر بنگلہ دیش پریمئر لیگ میں 18 ماہ کی پابندی عائد کی گئی۔ شرجیل اور خالد لطیف سے قبل ماضی میں بھی بہت سے پاکستانی کرکٹرز پر میچ فکسنگ کے الزامات لگتے رہے لیکن محمد عامر، سلمان بٹ اور محمدآصف کا معاملہ زیادہ مشہور ہوا۔ تینوں کھلاڑیوں کیخلاف 2010ء میں انگلینڈ سے سیریز کے دوران سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے پر کارروائی کی گئی اور پانچ سالہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح سابق وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر کا واقعہ بھی اس وقت بین الاقوامی شہ سرخیوں میں آیا جب وہ جنوبی افریقہ کیخلاف سیریز چھوڑ کرکٹ بورڈ کو بتائے بغیر انگلینڈ پہنچ گئے اور پناہ کی درخواست دے ڈالی۔ 

پریس کانفرنس میں انہوں نے الزام لگایا کہ ان کو میچ ہارنے کے لئے دھمکیاں دی گئیں اور ان کی اور ان کے اہلخانہ کی جان کو خطرہ ہے۔ بعد میں وہ پاکستانی حکام کی گارنٹی پر وطن واپس آئے اور دوبارہ کرکٹ میں آنے کی فیصلہ کیا۔ پی سی بی نے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر انہیں 5 لاکھ جرمانہ کیا۔ اسی طرح سلیم ملک پر رشوت لینے کے الزامات لگے او ر 2000 ء میں جسٹس قیوم رپورٹ سامنے آنے پرانہیں پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ باسط علی اور راشد لطیف کا معاملہ بھی اسی طرح ہوا اور ان کو بھی میچ فکسنگ پرپابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ دانش کنیریا ایک اور پاکستانی کھلاڑی تھے جن کو پابند ی کا سامنا کرنا پڑا۔ انگلینڈ میں لیگ میچ میں فکسنگ کے الزامات پردانش کنیریا کو وہاں کی مقامی پولیس نے گرفتار کیا تحقیقات کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے ان پر پابندی لگا دی جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے ان پرپابندی لگا دی۔ بین الاقوامی کرکٹ بھی سپاٹ فکسنگ کے الزامات سے محفوظ نہیں رہی۔ مجموعی طور پر بشمول پاکستانی کھلاڑیوں کے 21 کھلاڑیوں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

جنوبی افریقہ کے مایہ ناز بلے باز اور کپتان ہنسی کرونئے بھی زد میں آئے اور کنگ کمیشن نے ان پر کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی لگا دی۔ اسی طرح فاسٹ بائولر عطاالرحمان پر بھی جوئے کے الزامات پر 2000ء میں پابندی لگی جو بعد میں اٹھالی گئی۔ بھارتی پولیس نے ان کے خلاف میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی شکایت کی تھی۔ بھارت کے سابق کپتان اظہر الدین بھی اس وقت زد میں آئے جب ہنسی کرونئے نے الزام عائد کیا کہ اظہر الدین وہ کھلاڑی تھے جنہوں نے انہیں بکیوں سے متعارف کرایا۔ اس کے بعد اظہر الدین کے خلاف بھی کارروائی شروع ہوئی جس پر 2012ء میں بھارتی عدالت نے سابق بھارتی کپتان پر پابندی لگا دی۔ کینیا کے اوڈومبے بھی رشوت لینے پر پکڑے گئے اور پابندی کا شکار ہوئے۔ بھارت ہی کے فاسٹ بائو لر منوج پربھارکر کو بھی میچ فکسنگ کے الزامات ثابت ہونے پر 5 سالہ پابندی اٹھانا پڑی۔ بنگلہ دیشن کے اشرافل کو بھی بی پی ایل کے دوران کرپشن میں ملوث ہونے پر کھیل کے میدان سے آئوٹ ہونا پڑا۔

سوال یہ ہے کہ سابقہ واقعات کے باوجود نئے کرکٹرز کیوں کرپشن اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق مینیجر اظہر زیدی کاکہنا تھا کہ ان کے دور میں ٹیم کے ڈسپلن پر بہت توجہ دی جاتی تھی۔ کسی کھلاڑی کو کسی اجنبی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی اور رات کو بھی کھلاڑی اپنے کمروں میں جلد سونے کے لئے چلے جاتے تھے اور اگر کبھی کوئی ڈسپلن کی چھوٹی موٹی خلاف ورزی ہوتی تھی تو ہلکا پھلکا جرمانہ کر کے اورآئیندہ محتاط رہنے کی تنبیہ کر کے معاملہ کو ختم کر دیا جاتا تھا۔ اظہر زیدی کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اپنے دور میں غیرملکی دوروں کے لئے ایک بائونسر رکھا ہوتا تھا جو کھلاڑیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا تھا اورکسی بھی غیر معمولی صورت حال پر وہ ٹیم مینجمنٹ کو فورا آگاہ کرتا تھا۔ ایک دفعہ ایسے ہوا کہ ایک کھلاڑی بار بار لابی کے چکر لگاتا تھا اور وہاں ٹہلتا تھا جس پر بائونسر نے فوراً آ کر بتایا تو ہم نے کھلاڑی کے کمرے میں جا کر اس کو نوٹس دیا اور اسے محتا ط رہنے کو کہا۔

ہم کھلاڑیوں کے ٹھہرنے کی جگہ اور آنے جانے پر بھرپور نظر رکھتے تھے۔ اب بھی چیک اینڈ بیلنس کو زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ میچ فکسنگ کرنے والے کھلاڑیو ں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیئے۔ مایہ ناز لیگ سپنر عبدالقادر نے بھی میچ فکسرز کیخلاف سخت کارروائی کرنے کا کہتے ہوئے کہا ہے کہ ڈسپلن پر کوئی کمپرومائز نہیں ہونا چاہیے۔ کرکٹ کوایک پاکیزہ کھیل کی طرح ایک صحت مند سرگرمی کے طور پر معاشرے کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے تا کہ سیاست کے بعد کھیل اس آلودگی سے پاک رہے جس سے کھلاڑی سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہوتے ہیں۔

تحریر: طیب رضا عابدی

 

Post a Comment

0 Comments