Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یہ انصاف ہے : قصا ص پور ے معاشرہ کو قتل سے روکتا ہے

دسمبر 2012 کی بات ہے ،عیش وعشرت اور نازونعم میں پلا سعودی شہزادہ ترکی الکبیر اپنے دوست عادل المحیمد کے ساتھ ریاض کے اطراف میں واقع سیاحتی مقام الثمامہ میں تفریح کیلئے جاتاہے ،اس مقام پر پہنچتے ہی ایک خوفناک منظر نظر آتاہے ،اسلحہ سے لیس چند نوجوانون آپس میں لڑرہے تھے ۔ صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے عادل بن سلیمان المحیمد اپنی گاڑی سے اتر کر دیکھتے ہیں کہ فائرنگ ہو رہی ہے۔ اپنے بچائو میں شہزادہ ترکی الکبیر بھی اپنے پستول سے فائرنگ شروع کردی ۔ایک گولی عادل المحمید کو جا لگتی ہے اور وہ موقع پر ہلاک ہوجاتا ہے۔ پولس جائے ورادات پر پہنچتی ہے اور شہزادہ سمیت وہاں موجود تمام کو گرفتار کرلیتی ہے ،پولیس تحقیق میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ عادل کی موت شہزادہ کی فائرنگ سے ہوئی ہے ،یہ خبر خود شہزاد ہ کیلئے بھی صدمہ کا سبب بنتی ہے ۔
معاملہ عدالت میں پہنچتا ہے اورصرف تین سال کی مدت میں مکمل تحقیق وتفتیش کے بعد شہزادہ کو عادل المحیمد کے قتل کا مجرم قراردیکر قصاص کی سزا سنائی جاتی ہے۔ اپیل عدالت اور عدالت عظمی میں بھی یہی فیصلہ برقراررکھا جاتا ہے اور پوراشاہی خاندان بغیر چوں چراکہ نہ صرف عدالت کے اس فیصلے کو تسلیم کرتاہے بلکہ سزا پر عمل در آمد کیلئے شاہی حکم نامہ بھی جاری کیا جاتا ہے، سعوی فرماں رواشاہ سلمان شہریوں کے نام ایک فرمان جاری کرتے ہیں ’’جو کوئی بھی بے گناہ لوگوں پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گا اور ان کا خون بہائے گا تو وہ قانونی سزا سے نہیں بچ سکے گا‘‘ دوسری طرف شہزاد ہ کے اقربا ء نے قصاص میں قتل کئے جانے سے بچنے کیلئے مقتول نوجوان عادل المحمیدکے اقرباکی دہلیز پر دستک دی ۔

مقتول کے لواحقین کو منہ مانگی دیت دینے کی پیشکش کی۔ ریاض کے گورنر امیر فیصل بن بندر بن عبدالعزیز نے بھی مقتول کے لواحقین سے سفارش کی لیکن مقتول کے والد قصاص پر قائم رہے۔ بالآخر 18 اکتوبر 2016 کو شام 4 بج کر 13 منٹ پرالصفہ مسجد کے مرکزی چوک پر مقتول عادل کے والد کے سامنے شہزادہ ترکی الکبیر کا سر قلم کردیا گیا اور شاہی خاندان کے افراد ،ارباب اقتدار نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا۔ شاہی خاندان کا یہ دوسرا فرد ہے جسے قصاص میں قتل گیا گیا ہے ،قبل ازیں 70 کے عشرے میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو شہید کرنے والے ان کے سگے بھتیجے کو تہ تیغ کیا گیا تھا۔ حالیہ واقعہ کی پہلے سے زیادہ اہمیت ہے کیوں کہ یہاں ایک عام شہری کے ناحق قتل میں شاہی خاندان اور شاہ سلمان کے انتہائی قریب فرد کا قصاص میں سرقلم کیا گیا ہے ۔ سعودی عرب کا یہ واقعہ پوری دنیا کی عدالت اور حکومت کیلئے نمونہ،مشعل راہ اور عظیم الشان مثال ہے ،جرائم کے خاتمہ،امن وسلامتی کے قیام ،اور شہریوں کو مساوات کا یقین دلانے کیلئے اس سے بڑی کوئی اورچیز نہیں ہوسکتی ہے۔

یہاں مکمل انصاف بھی ہے اور مظلوم کو انصاف دینے میں تعجیل بھی ہے۔ اسلامی تعلیم کی وہ پوری جھلک نظر آتی ہے جس میں کہاگیا ہے شاہ وگدا ،امیر وغریب  عربی وعجمی سبھی قانون کی نظر میں یکساں ہیں۔ شاہ فیصل ایک مرتبہ بھارت تشریف لائے تھے تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈٹ جواہرلال نہرو نے ان سے پوچھا کہ اسلامی قانون کا یہ فلسفہ مجھے سمجھ میں نہیں آسکا’’جب ایک شخص کسی کو قتل کردیتا ہے تو اس کے انتقام میں اسے قتل کیوں کیا جاتا ہے جبکہ قاتل کو قتل کرنے سے مقتول کوکوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے ‘‘،شاہ فیصل نے پنڈت نہروسے پوچھا کہ آپ کے یہاں سال میں قتل کے کتنے واقعات پیش آتے ہیں پنڈت نہروں نے جواب دیا کہ بے شمار ،شاہ فیصل نے کہاہمارے یہاں سالوں سال میں کبھی کبھار اس طرح کا واقعہ پیش آ جاتا ہے ،کیوں کہ قصا ص پور ے معاشرہ کو قتل سے روکتا ہے۔ 

فائزہ نذیر احمد

Post a Comment

0 Comments