Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سعودی عرب میں شاہ خرچیوں کا دور ختم ؟

یہ ہفتہ سعوری عرب کے لیے خاصا ڈرامائی ہفتہ رہا ہے۔ سرکاری اخراجات میں
کمی کر دی گئی ہے اور سعودی عرب نے اپنی گزشتہ 18 ماہ سے جاری وہ پالیسی ختم کر دی ہے جس کے تحت وہ زیادہ سے زیادہ تیل پیدا کر رہا تھا، یعنی 350 ہزار بیرل یومیہ۔ اصلاحات کی خبر آتے ہی عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت میں پانچ فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اگرچہ عالمی منڈیوں کا یہ رد عمل ضرورت سے زیادہ ہی ہے، لیکن تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کے لیے یہ خوشی کی خبر ہے کہ اب انھیں اچھی قیمتییں ملنے جا رہی ہیں۔ یہ ممالک 18 ماہ سے اس انتظار میں تھے کہ سعودی عرب اپنے تیل کی پیداوار کو معمول کی سطح پر لائے تا کہ ان ممالک کی قومی پیدوار میں بہتری آئے جائے گزشتہ 18 ماہ سے خراب چلی آ رہی ہے۔

لیکن سعودی عرب کی معاشی پالیسی میں تبدیلی اور اصلاحات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود سعودی عرب کی معیشت کا حال کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ ان اصلاحات سے ایک بات تو کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ سعودی عرب نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے عالمی منڈی میں زیادہ سے زیادہ تیل لا کر قیمتوں کو مصنوعی طریقے سے کم رکھنے کی جو حکمت عملی اپنا رکھی تھی وہ بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
سعودی عرب اس سے زیادہ مدت تک تیل کی قیمتیں کم سطح پر رکھ نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں اس کے خزانے میں اب تک 180 ارب ڈالر کی کمی ہو چکی ہے۔ اس دوران سعودی حکومت کو سرکاری اخراجات کے لیے اپنی جیب دور تک ٹٹولنی پڑ گئی تھی۔
یہ بات ماننا پڑے گی کہ قومی خزانے میں کمی کے اس دور میں سعودی عرب نے اپنی پالیسی پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں ، بلکہ نائب ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سعودی حکومت نے اس دوران اپنے معاشی مسائل کا اظہار حیران کن حد تک کھل کر کیا۔ ابھی اپریل کی ہی بات کہ 'بلُوم برگ' میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک سینیئر معاشی مشیر نے اپنے ملک کی معیشت کے تلخ حقائق کھل کر بیان کر دیے تھے۔ مشیر کا کہنا تھا کہ ان کا ملک سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر فضول کاروباری معاہدوں جیسی چیزوں پر خرچ کر رہا ہے جہاں اتنے زیادہ اخراجات کی کوئی معاشی منطق نہیں بنتی۔ مشیر کے بقول اگر سعودی حکومت نے اپنی یہ روش جاری رکھی اور بہت بڑے اقدامات نہ کیے توسنہ 2017 کے آغاز تک اس کا دیوالیہ نکل جائے گا۔
 سعودی شہزادہ محمد بن سلمان ان اصلاحات کے روح رواں ہیں.

عظیم منصوبہ

اگر سعودی عرب نے خود کو مقروض ہونے سے بچانا تھا تو اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ معاشی درد برادشت کرے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس درد یا دباؤ کے اثرات ملک کی حقیقی معیشت پر مرتب ہونا تھے اور سرکاری ملازمین کی اتنی بڑی فوج بھی ان اثرات سے بچ نہیں سکتی تھی۔ معاشی بحالی کے لیے ضروری تھا کہ سرکاری اخراجات میں کمی کی جائے اور بجلی، پانی اور ایندھن جیسی روزمرہ استعمال پر حکومتی رعایت کو ختم کیا جائے۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کرنا بھی ضروری تھا۔ جس کے نتیجے میں یا تو کئی لوگوں کو ملازمت سے فارغ ہونا پڑنا تھا یا ان کی مراعات میں کمی کرنا ضروری تھا۔

چونکہ سعودی معاشرے میں لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں سرکاری ملازمت کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، اس لیے وہاں کسی سرکاری ملازم کو فارغ کرنا آسان نہیں اور اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو اسے اس کا خمیازہ بھی بگھتنا پڑ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے پاس اخراجات کم کرنے کا یہی راستہ بچا تھا کہ وہ تنخواہوں میں کمی کر دے۔ اسی خیال کے تحت حکومت نے اس سال جون میں ہدف مقرر کیا تھا کہ سنہ 2020 تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر اٹھنے والے اخراجات کو چھ اعشاریہ 4 ارب ڈالر سے کم کر کے چار اعشاریہ نو ارب ڈالر کر دیا جائے گا۔ اسی لیے پیر کی شام شاہی حکم ناموں کی طویل فہرست سن کر کسی کو حیرت نہیں ہوئی جن کے تحت تنخواہوں میں 20 فیصد تک کمی کرنے کے علاوہ سرکاری ملازمین کو تعطیلات کے دوران ملنے والی تنخواہ بھی کم کر دی گئی اور بونس بھی۔

اگر دیکھا جائے تو شہزادہ محمد نے سال کے شروع میں جن اقدامات کی جانب اشارہ کیا تھا وہ سرکاری اخراجات میں اسی قسم کی کٹوتیاں تھیں۔ 'وژن 2030 ' کے نام سے سعودی حکومت نے جن اصلاحات کا منصوبہ بنایا تھا اس کے تحت سعودی معیشت میں بڑی بڑی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ تیل اور گیس کی برآمد پر انحصار کم کر کے معیشت میں تنوع لایا جا رہا ہے اور نجی کاروباروں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اسی منصوبے کے تحت 'ارامکو' جیسی اس دیو ھیکل کمپنی کے کچھ حصوں کی نجکاری کی جاری ہے جو ابھی تک سعودی عرب کی آمدن اور اندورنی محصولات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکومت کے بلند و بانگ دعوے اپنی جگہ، لیکن اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ وہ کبھی بھی ان اصلاحات پر عمل کر سکے گی۔ اس لیے یہ سمجھنا زیادہ عقلمندی ہو گی کہ وژن 2030 کا منصوبہ کبھی بھی ان معاشی دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکتا جو سعودی عرب کو لاحق ہیں۔ ماہرین معیشت کے علاوہ کچھ بڑی بڑی سعودی شخصیات بھی اس سے انکار نہیں کرتی۔ یہ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وژن 2030 کی کامیابی کے امکانات کم ہی ہیں۔ ان کے خیال میں انھیں معلوم ہے کہ اتنے قلیل وقت میں معیشت میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں لائی جا سکتی، بلکہ اس منصوبے کا اصل مقصد سعودیوں کی قومی ذہنیت کو تبدیل کرنا تھا۔

معاشرتی اثرات
اگر اس منصوبے میں کامیابی ہو جاتی ہے اور حکمران خاندان اپنے شہریوں کو اس بات پر رضامند کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ عیاشی کا دور ختم ہو چکا ہے، تو پھر سعودی عرب میں فی الحال سب ٹھیک ہو جائے گا۔ خاندانِ سعود کو ملک کے طول و عرض میں عوامی مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہے اور نوجوان شہزادے اور ان کی ٹیم نے اپنی قوم کو یہ بتانے میں بہت محنت کی ہے کہ اب بچت کرنے کا وقت آنے والا ہے۔ لیکن قوم کو یہ بتانا کہ برا وقت آنے والا ہے اور قومی بچت کے منصوبے پر عمل کرنا، ان دونوں چیزوں میں بہت فرق ہے۔ اسی لیے جوں جوں ملک میں کفایت شعاری کے منصوبوں پر عمل میں اضافہ ہو رہا ہے ، ایسا محسوس ہوتا کہ سعودی عرب کا متوسط طبقہ ایک 'دبے ہوئے متوسط طبقے' کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

اگرچہ مغربی ممالک میں 'دبا ہوا متوسط طبقہ' کی اصطلاح ضرورت سے زیادہ استعمال کی جاتی رہی ہے، لیکن ہمیں اس دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے کہ آنے والے ماہ و سال میں سعودی عرب میں معاشرے کا جو حصہ سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہو گا وہ اس کا متوسط طبقہ ہی ہوگا۔  حکومت کی جانب سے دی جانے والی رعایات میں کمی سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقے کے لوگ ہی ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں کفایت شعاری کی سب سے زیادہ قیمت ان ہی گھرانوں کو ادا کرنا پڑے گی جن کے پاس گھر چلانے اور بچوں کی فیسیں دینے کے پیسے بمشکل ہی ہوتے ہیں۔ بجلی، پانی اور ایندھن کے بِلوں میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ ہر مہینے کے آخر میں سعودی معیشت کے اس اہم حصے پر دباؤ بہت زیادہ ہو جائے گا۔ باہر سے دیکھنے والوں کو یہی لگتا ہے کہ سعودی عرب میں معیشت کو بہتر کرنے کا بہترین حل شاید یہی ہے کہ بے تحاشا سرکاری اخراجات میں کمی کی جائے، لیکن اس سے سعودی معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوں گے ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سعودی عرب ایک مشکل دور میں داخل ہو رہا ہے جس میں سعودی معاشرے کو کم پیسے میں گزارا کرنے کی عادت ڈالنا پڑے گی اور اس کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان کی اس بات پر بھی یقین کرنا ہو گا کہ وہ ملک کو درست سمت میں لیجانے کی کوشش کر رہا ہے۔

Post a Comment

0 Comments