Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیسی سٹرائیک، بس فائرنگ زیادہ تھی، اور تو کچھ دیکھا نہ سنا

بارڈر پر فائرنگ سے مجھے تو ڈر نہیں لگتا مگر امی پریشان رہتی ہیں'۔ یہ الفاظ
ہیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں آٹھویں جماعت کے طالبعلم احسان اللہ کے جو لائن آف کنٹرول کے قریب اپنے اہلخانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ یہاں بچوں کے ساتھ بڑے بھی تذبذب کا شکار ہیں، اگر مگر کے مخمصے میں پھنسے یہ کشمیری لاکھ پریشانیوں کے باوجود اپنی زمین نہیں چھوڑنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ کشیدگی کے باوجود کسی گھر پر تالا نہیں لگا۔ احسان اللہ نے بتایا کہ 28 اور 29 ستمبر کی رات فائرنگ کی آوازیں معمول سے کچھ زیادہ تھیں مگر وہ اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ 'فائرنگ تھی مگر ہیلی کاپٹر اور جہاز کی آوازیں بالکل نہیں تھیں۔ میں صبح اٹھا تو سکول آ گیا۔ کسی کو یاد ہی نہیں تھا کہ رات فائرنگ ہوئی تھی۔'

احسان اللہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بھمبھر سیکٹر میں تین کمروں پر مشتمل سرکاری مڈل سکول میں زیر تعلیم ہیں۔ سنیچر کو جب پاکستانی فوج کے ہمراہ بھمبھر سیکٹر پہنچے تو ہیلی کاپٹر سے اترتے ہی پہلی نظر اسی چھوٹے سے سکول پر پڑی جو چاروں جانب سے پہاڑوں میں گھرا ہے، اس کےعقب میں پہاڑ کی چوٹی پر باغسر فورٹ تھا، اور دائیں جانب پہاڑ کی پچھلی طرف پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو جدا کرتی لائن آف کنٹرول۔ ' کیا آپ کو ڈر نہیں لگا؟' اس سوال کے جواب میں احسان اللہ بولا 'مجھے تو خاص ڈر نہیں لگتا، مگر امی بہت پریشان ہوتی ہیں۔ انھیں ڈر رہتا ہے کہ سکول آتے ہوئے فائرنگ نہ ہو جائے۔'
قریب ہی بھارتی فوجی پوسٹوں کے سامنے بلندی پر واقع باغسر کمانڈ پوسٹ ہے، یہاں دونوں جانب کی چوکیوں میں فاصلہ انتہائی کم ہے اور تمام فوجی نقل و حرکت نظر میں رہتی ہے۔ کمانڈ پوسٹ کو جاتی انتہائی خستہ حال سڑک پر کئی مقامات پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گھر بنے ہیں، جن کی چھتوں پر بچے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے اور خواتین گھریلو کام کاج میں جبکہ گِنی چُنی دکانوں کے دکاندار باہر بیٹھے آتی جاتی اِکا دُکا گاڑیوں کو دیکھنے میں مگن دکھائی دیے۔
باغسر کمانڈ پوسٹ کے سامنے نظر دوڑائیں تو کم بلند پہاڑی چوٹیاں ہیں، جنہیں فوجی فٹ ہلز کہتے ہیں۔ ان پر تین مقامات پر انگریزی حروف تہجی لکھے ہیں جو پاکستان کے علاقوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان پہاڑوں کے نچلے سرے پر پاکستان کے فوجی دستے تعینات ہیں جبکہ اوپر کے دو مقامات پر بھارتی فوجی پوسٹیں ہیں۔

 اس علاقے میں تعینات جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل محمد چراغ حیدر نے بتایا کہ انھی چوکیوں کے بیچ لائن آف کنٹرول ہے، جہاں باڑ لگی ہے، کڑی نگرانی کی جاتی ہے اور دونوں طرف جدید ترین ہتھیار نصب ہیں۔ ان کے مطابق اس متنازع سرحد پر ’کسی بھی قسم کی نقل و حرکت پر 24 گھنٹے نظر رہتی ہے، پاکستانی فوج کے اگلے مورچوں کے نچلی جانب آبادی شروع ہوجاتی ہے جو ایک لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے‘۔ موقع پر موجود پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ 'خاندانوں کی صورت میں پھیلی یہ آبادی اکثر بھارتی فائرنگ کا نشانہ بنتی رہتی ہے۔ ذرا سے واقعے کی خبر بھی پورے علاقے میں آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ ایسے میں سرجیکل سٹرائیک اور اس سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کو چھپانا کسی صورت ممکن نہیں۔‘
باغسر سے بذریعہ ہیلی کاپٹر ایک اور سیکٹر تتہ پانی پہنچے۔ یہ علاقہ بھارتی فوجی چوکیوں سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

تتہ پانی سیکٹر میں بھارتی چوکیوں کے عین نشانے پر موجود ایک گھر میں داخل ہوئے جہاں نہ تو کوئی بیرونی دیوار تھی نہ ہی دروازہ۔ سرجیکل سٹرائیک سے متعلق سوال پر گھر کے مکینوں کی طرف سے جواب ملا ’کیسی سٹرائیک، بس فائرنگ زیادہ تھی، اور تو کچھ دیکھا نہ سنا۔‘ ایک بزرگ نے بتایا کہ حالات جیسے بھی ہوں انھوں نے یہاں سے جانے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا: 'ہم جدی پشتی یہیں رہ رہے ہیں، 1947 سے اب تک بس گولیوں کی آوازیں ہیں، پھر وہی روزمرہ کی زندگی۔ اب تو یہاں کی عادت ہو گئی ہے۔ اپنے گھر چھوڑ کر نہ کہیں جائیں گے نہ ہی فوج نے آبادی خالی کرنے کا کہا ہے۔'

اسی مکان میں موجود ریٹائرڈ سرکاری ملازم برکت علی خان نے بتایا: 'فائرنگ تو روز کا معمول ہے، اس سے کاروبار متاثر ہوتے ہیں، لوگ یہاں نیا کاروبار شروع نہیں کرتے۔ جب حالات کشیدہ ہوجائیں تو روزگار کی، کاروبار کی، دکانوں کی پریشانی ہوتی ہے کہ پتا نہیں اب کیا ہوگا؟ یہی سب سے بڑی پریشانی ہے۔' اس سیکٹر میں ڈیوٹی پر تعینات فوجی افسر اور جوان یوں تو مطمئن نظر آتے ہیں کہ فائرنگ ہونا ایک معمول ہے، مگر کئی ایسے فوجیوں سے بات کر کے غصے اور ناراضگی کا تاثر ضرور ملا جن کا ایک ساتھی بھارتی فائرنگ سے ہلاک ہوا تھا۔ ایک افسر نے کہا: 'یہاں کی مقامی آبادی ہمارے لیے بہت بڑی سپورٹ ہے، جب حالات خراب ہوں تو یہ ہمارے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔'

فرحت جاوید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، بھمبھر

Post a Comment

0 Comments