Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

انڈیا کو پانی کی جنگ مہنگی پڑے گی

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے اوڑی میں انڈین فوج پر حملے میں 18
فوجیوں کی ہلاکت کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی نے نیا موڑ لے لیا ہے۔ انڈین حکومت نے 65 سال پرانے اُس معاہدے کو توڑنے کا اشارہ دیا ہے، جس کے تحت کشمیری علاقوں سے بہہ کر مشرقی اور مغربی پنجاب کے میدانوں کو سیراب کرنے والے چھ دریاؤں کے استعمال کے حقوق دونوں ممالک کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں۔ 1960 میں ورلڈ بینک اور کئی مغربی ممالک نے انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے درمیان اس معاہدے کی ثالثی کی اور یہ معاہدہ سندھ طاس معاہدہ یا انڈس واٹر ٹریٹی کے نام سے مشہور ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر سے دریائے سندھ، ستلج، بیاس، راوی، چناب اور جہلم بہتے ہیں۔ معاہدے میں ستلج، بیاس اور راوی پر انڈیا کے قدرتی حق کو تسلیم کیا گیا جبکہ پاکستان کو چناب، سندھ اور جہلم پر حقوق دیے گئے۔
اوڑی حملے کے بعد پہلے تو انڈیا میں پاکستان پر فوجی کارروائی کی باتیں ہوئیں اور بعد میں اسلام آباد کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے مشن کا آغاز ہوا۔ مسلح تصادم کی دھمکیوں یا سفارتی مورچہ بندی اپنی جگہ، لیکن اب انڈیا میں پاکستان کے خلاف پانی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

مصنف اور کالم نویس پی جی رسول کہتے ہیں کہ یہ ’غیر ضروری اور غیرذمہ دارانہ باتیں ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پاکستان کو خصوصی رعایت نہیں دی گئی تھی بلکہ دریاؤں کے رُخ اور جغرافیائی حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ’اگر پانی کو جنگی ہتھیار بنا کر انڈیا نے پاکستان کی طرف جانے والے دریاؤں کا پانی روکا تو کشمیر میں ہر لمحہ سیلاب آئے گا اور پھر اگر چین نے یہی حربہ استعمال کر کے تبت سے آنے والے برہم پترا دریا کا رُخ موڑا تو بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں برباد ہو جائیں گی۔

پی جی رسول کہتے ہیں کہ انڈین حکومت نے انڈس واٹر ٹریٹی پر سوال اُٹھا کر پاکستان کے اُس موقف کو خود ہی تقویت دے دی ہے جس کے تحت وہ کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتا رہا ہے۔ ’اس کے علاوہ کشمیریوں کو انڈیا کے اس اقدام سے بقا کا خطرہ لاحق ہوگا اور انڈیا مخالف تحریک مزید زور پکڑے گی۔ پانی کی یہ جنگ کشمیریوں کو ہی نہیں انڈیا کو بھی مہنگی پڑے گی۔‘ آبی وسائل کے سابق انڈین وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے سندھ طاس معاہدے کو توڑنے کی باتیں کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈین حکومت سیاسی موقف کی خاطر ملک کو داؤ پر لگا رہی ہے۔ ’یہ مہذب بات نہیں مگر میں مجبور ہوں۔ اس معاہدے کو توڑا گیا تو انڈیا کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ چین کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ وہ ہفتوں کے اندر برہم پترا کا رُخ موڑ سکتا ہے، پھر تو پنجاب، ہریانہ، دہلی اور دیگر کئی ریاستوں میں اندھیرا چھا جائے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ورلڈ بینک نے اس معاہدے کی ثالثی کر کے بھارت اور پاکستان کو ایک رحمت عطا کی ہے، جس کی قدر کرنی چاہیے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مصر، لبنان، عراق اور ترکی جیسے عرب ممالک کے درمیان بھی دریاؤں کے پانی کی شراکت کے معاہدے ہیں۔ ناراضی اور کشیدہ تعلقات کے باوجود وہاں پانی کو جنگی ہتھیار نہیں بنایا گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کشمیر کے نائب وزیراعلیٰ نرمل سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ جموں کشمیر کی حکومت نریندر مودی کے کسی بھی فیصلے کی حمایت کرے گی۔

 واضح رہے حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی وجہ سے کشمیر کو ہر سال ساڑھے چھہ ہزار کروڑ روپے کا نقصان بھگتنا پڑتا ہے، کیونکہ جہلم، چناب اور سندھ کے دریاؤں پر انڈیا کو بند تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم اکثر اوقات کشمیر میں انڈین کنٹرول والے پن بجلی منصوبوں کی تعمیر کو لے کر پاکستان اعتراض کرتا ہے، اور بعد میں ان اعتراضات کی سماعت انڈس واٹر کمیشن میں ہوتی ہے۔ قابل ذکر یہ بات ہے کہ جموں کشمیر حکومت نے چناب اور جہلم پر بجلی کی پیداوار کے درجنوں منصوبوں کا خاکہ تیار کیا ہے لیکن سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے ان کی اجازت نہیں مل رہی ہے۔ حکومت کا کشمیر کو ساڑھے چھہ ہزار کروڑ روپے کے سالانہ نقصان کا دعویٰ اس بنا پر کیا جاتا ہے کیونکہ بھارت یہاں کے دریاؤں پر بڑے پن بجلی کے منصوبے تعمیر نہیں کر سکتا۔ تاہم سماجی کارکن شکیل قلندر کہتے ہیں کہ کشمیر میں موجودہ بجلی کے منصوبوں پر انڈین حکومت کا مکمل کنٹرول ہے اور 20 ہزار میگاواٹ کی صلاحیت کے باوجود کشمیریوں کو کئی سال سے لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ درپیش ہے۔

ریاض مسرور
بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر

Post a Comment

0 Comments