Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

فیصلے کا وقت : برطانوی مسلمان

اس قدر خوف اور بے یقینی میں نے کبھی ان کے چہروں پر نہیں دیکھی اور نہ ہی ان کی گفتگو سے عیاں ہوئی۔ ان کا تو حال ہی  میں ایک شخص صادق خان لندن کا میئر منتخب ہوا ہے۔ پاکستان میں رہنے والوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں۔ ہر کوئی مغربی نظام حکومت اور طرز معاشرت کے گیت گا رہا ہے۔ وہ دیکھو تم انھیں نفرت کے علمبردار کہتے ہو، انھوں نے ایک مسلمان اور وہ بھی پاکستانی پس منظر والا میئر منتخب کیا ہے اور وہ بھی اپنے سب سے بڑے شہر لندن کا۔  لیکن گزشتہ کل سے میں پاکستانیوں کے اجتماعات کی جس سیریز میں مدعو ہوں ان کا عنوان ہی بتاتا ہے کہ یہاں کے رہنے والے پاکستانیوں کو خطرے کی گھنٹی کا احساس ہو گیا ہے۔

عنوان ہے   Time to Decide:  Save the Genration،  فیصلے کا وقت: ’’اپنی نسلوں کو بچایئے‘‘ یہ خوف کس چیز کا ہے، کس چیز سے نسلوں کو بچانا مقصود ہے۔ یہ سوال ان تمام لوگوں کے چہروں پر تحریر تھا جو کل مانچسٹر کے  یورپین اسلامک سینٹر میں موجود تھے۔ وہ لوگ جو خود یا ان کے آباؤ اجداد رزق کی تلاش میں برطانیہ آئے تھے۔ آج صرف اسی صورت میں قابل قبول ہیں کہ وہ ان کے رنگ میں رنگ جائیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ انھوں نے کس قدر عقیدت اور احترام سے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا، جب تک اسے معاشرے میں اس نام سے نفرت کی سنگینی کا احساس نہ ہوا، وہ یہ کہلواتا بھی رہا اور وقت بھی گزرتا رہا۔
لیکن اب اس نے اپنے دوستوں بلکہ گھر والوں سے بھی کہا ہے کہ اسے ’’مو مو‘‘ کہ کر پکارا جائے۔ نئی نسل کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو صادق خان کی طرح ہم جنس پرستی، بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنا، الحاد یعنی خدا کے نہ ہونے پر یقین رکھنا، اسلام کے عقائد کو جدید لائف اسٹائل کے لیے ایک خطرہ تصور کرنا جیسے خیالات کے قائل ہیں اور وہ اس معاشرے کے اندر قابل قبول ہیں جب کہ دوسری جانب وہ نوجوان ہیں جنھیں اس معاشرے میں پائے جانے والے ایسے تمام رویوں سے نفرت کی بو آتی ہے جو ان کی اقدار، روایات اور مذہب کے خلاف ہیں۔ یہ مسلمان اور اسلام سے پائی جانے والی نفرت اور تعصب کو دیکھ کر ایک دوسری انتہا کو جا پہنچے ہیں اور وہ اس پوری تہذیب سے لڑنے کو تیار ہیں۔

ان تک دین کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے پہنچا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد اس پوری دنیا کا ہدف مسلمان ہیں۔ وہ پوری دنیا جسے مغرب جدید سیکولر جمہوری دنیا کہتا ہے۔ ان نوجوانوں تک معلومات با آسانی پہنچ جاتی ہیں کہ یہاں کسی بھی قسم کی پابندی نہیں۔ وہ صرف میڈیا پر ہونے والے یک طرفہ پراپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہوتے۔ ان تک صرف افغانستان اور عراق کی فتح کی ٹی وی نشریات نہیں پہنچتیں بلکہ ہزاروں ویب سائٹس ایسی ہیں جو وہاں پر مرنے والی عورتوں اور بچوں کی لاشیں، بھوک میں بلکتے، سسکتے اور تڑپتے لوگوں کی ویڈیوز اور ظلم و تشدد کرتے سپاہیوں کے کلپ دکھاتی ہیں۔

یہ نوجوان براہ راست اس انٹرنیٹ سے ان لوگوں تک رابطے میں آ جاتے ہیں جو شام، عراق، فلسطین اور افغانستان میں لڑ رہے ہیں یہ صرف پاکستانی نہیں ہیں بلکہ ہر مسلمان ملک کے شہریوں کے بچے ہیں یہ بچے نفرت سے جنم لینے والی نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ یہ اپنے حلیے سے بھی مکمل مسلمان لگنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ممکن ہو تو برطانیہ چھوڑ کر ان ملکوں میں جا نے کی تگ و دو میں ہوتے ہیں جہاں امریکا اور یورپ سے جنگ ہو رہی ہو۔ یہ برطانیہ کے لیے سب سے تشویشناک بات ہے، اس لیے کہ ان ملکوں میں جانے والے صرف غیر ملکی پس منظر رکھنے والوں کے بچے شامل نہیں بلکہ وہ گورے بھی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور جو اپنے گوروں کو بہتر انداز میں جانتے ہیں اور ان کی پالیسیوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔

9 مارچ 2016ء کو ایم آئی 6 کے ڈائریکٹر نے شام میں دولت اسلامیہ کے لیے جانے والوں کے ایک بہت بڑے ڈیٹا کے پکڑے جانے کا انکشاف کیا جن میں بائیس ہزار نوجوانوں کے فارم تھے جو انھوں نے شام و عراق میں لڑنے کے لیے دولت اسلامیہ کے لیے بھیجے۔ انٹر نیٹ پر موجود ان فارموں پر تئیس (23) سوالات کے جوابات دینا ہوتے ہیں۔ ان میں برمنگھم کے جنید حسین اور کارڈف کے ریاض خان کے فارم بھی شامل تھے جو شام میں امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہوئے۔ اسی ڈائریکٹر نے بتایا کہ ان میں سے گرفتار ہونے والے ایک شخص نے بتایا کہ جلد ہی امریکا پر بہت بڑا حملہ ہونے والا ہے۔ دوسری جانب توپوں کا رخ صرف اور صرف پاکستان کی جانب موڑا جا رہا ہے اور میڈیا اس کے لیے مکمل طور پر کمربستہ ہے۔

چند دن پہلے بی بی سی نے ایک طویل ڈاکومینٹری نشر کی جو مولانا مسعود اظہر کے بارے میں تھی۔ ڈاکو مینٹری کا ٹائٹل تھا۔ ’’The Man Who Brought Jihad to Britain‘‘ (وہ شخص جو برطانیہ میں جہاد لے کر آیا‘‘۔ ڈاکو مینٹری کا آغاز مولانا مسعود اظہر کے 1993ء میں برطانیہ کے ایک دورے سے  ہوتا ہے جب وہ کشمیر میں لڑنے والے نوجوانوں کے گروہ حرکت المجاہدین کے سربراہ تھے۔ ان کا یہ دورہ ایک ماہ پر مشتمل تھا اور انھوں نے یہاں چالیس تقریریں کیں۔ وہ اس وقت 25 سال کی عمر کے تھے جب برطانیہ میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

ڈاکو مینٹری کے مطابق مولانا اظہر کا پہلا جہادی برمنگھم کا محمد بلال تھا جس نے 2000ء میں سرینگر میں خود کو ایک آرمی چھاؤنی کے باہر بم سے اڑایا تھا جس میں 6 بھارتی فوجی اور تین شہری مارے گئے تھے۔ پوری ڈاکو مینٹری اس بات کے گرد گھومتی ہے کہ پاکستان کے مخصوص مسلک کے مدرسے جہاد کی نرسریاں ہیں۔ ان کے مطابق برطانیہ میں 45 فیصد مدارس اور مسجدیں دیوبندی مکتبہ فکر کی ہیں اور یہ مکتبہ فکر کشمیر اور افغانستان میں جہاد کا سب سے بڑا علمبردار ہے اور برطانیہ میں بھی پاکستانی اور افغان نوجوانوں کو جہاد کی ترغیب دیتا ہے۔

اس ڈاکو مینٹری میں برطانیہ میں موجود پاکستانی مسلمانوں کو جہاد کے تصورات رکھتے ہوئے بتایا گیا ہے۔ اسی میں خاص طور پر سپاہ صحابہ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا بھی ذکر ہے ۔ ڈاکو مینٹری دیکھ کر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کو کس طرح میڈیا میں موجود بھارتی لابی نے پاکستان، اور پاکستان میں کشمیر جہاد اور آئی ایس آئی کی جانب موڑا ہے۔ تمام توپوں کا رخ پاکستان کی جانب ہے اور اردو ریڈیو پر ا علانات ہو رہے ہیں کہ پاکستانی پس منظر والے نوجوان ایم آئی 5 اور 6 میں نوکری کریں۔ جو پاکستانی ان اداروں میں کام کرتے ہیں ان کے انٹرویو نشر ہوتے ہیں کہ انھیں کیا کیا سہولتیں میسر ہیں پھر بھرتی کے لیے راغب کیا جاتا ہے۔

یہ ہے ایک ہلکی سی تصویر جو اس معاشرے کی آیندہ نسلوں کی ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ ایسے میں لیبر پارٹی کا نیا سربراہ جرمی کوربائن Jeremy Cor byn ایسے خیالات لے کر سامنے آیا ہے کہ برطانیہ کو داعش، شام اور افغانستان پر حملے نہیں کرنا چاہیے۔ وہ اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، حماس اور حزب اللہ کو درست کہتا ہے لیکن ہم جنس پرستی اور الحاد کا بھی علمبردار ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ کنفیوژن کا شکار مسلمانوں کی نئی نسل ہے۔ ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور راستہ بتانے والا کوئی نہیں جو کوئی جیسا چاہتا ہے اس سمت روانہ ہو جاتا ہے۔

اوریا مقبول جان

Post a Comment

0 Comments