Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اسلامی فوجی اتحاد

سعودی عرب کے شہر حفر الباطن میں ہونے والی ’’نارتھ تھنڈر‘‘ (شمال کی گرج) نامی اسلامی ممالک کی مشترکہ فوجی مشقوں کو خطے کی سب سے بڑی اور اہم فوجی مشق قرار دیا جا رہا ہے۔ بارہ روز تک جاری رہنے والی ان فوجی مشقوں میں 21 اسلامی ممالک کے 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد فوجیوں نے 20 ہزار ٹینکوں، 4500 لڑاکا اور بمبار طیاروں، 460 ہیلی کاپٹروں، طیارہ شکن نظام اور جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ حصہ لیا۔ فوجی مشقوں میں سعودی عرب، پاکستان، مصر، مراکش، تیونس، سوڈان، ملائیشیا اور اردن سمیت درجنوں خلیجی و افریقی ممالک کے فوجی دستے شریک تھے۔

ان مشقوں کی اختتامی تقریب گزشتہ دنوں منعقد کی گئی جس میں وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف جن کا دو ماہ کے مختصر عرصے میں سعودی عرب کا یہ دوسرا دورہ ہے، نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اس موقع پر سعودی فرمانرواں خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے تقریب میں شریک 21 ممالک کے سربراہان مملکت کو خوش آمدید کہا جبکہ فوجی مشقوں میں شریک اسلامی ممالک کے دستوں نے ان سربراہان مملکت کو سلامی پیش کی۔

دوران تقریب پاکستان کے تھنڈر جنگی طیاروں نے شاندار پرفارمنس دکھائی جبکہ پاک فوج کے اسپیشل گروپ نے فضا سے ز مین پر چھلانگ لگا کر اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا۔ فوجی مشقوں کی اختتامی تقریب میں وزیراعظم میاں نواز شریف بالخصوص آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی شرکت کو خصوصی اہمیت دی گئی جنہوں نے مشترکہ فوجی اتحاد کی تشکیل اور مشقوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس موقع پر سول و فوجی قیادت نے ایک بار پھر اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ علاقائی سالمیت اور خود مختاری کو درپیش کسی بھی خطرے سے نمٹنے کیلئے سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دیں گے۔

واضح ہو کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دفاعی تعاون کئی عشروں پر محیط ہے اور پاک فوج کی 3 بریگیڈ گزشتہ کئی عشروں سے سعودی عرب میں متعین ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین اس سے پہلے بھی چھوٹے پیمانے پر فوجی مشقیں ہوچکی ہیں مگر اتنے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں پہلی بار دیکھنے میں آئی ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ میں کامیابی کو پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک میں سراہا جارہا ہے۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ جنرل راحیل شریف کے سعودی عرب میں قیام کے دوران سعودی فرمانرواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اُنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد 34 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی قیادت کی پیشکش کی ہے جو یقینا پاکستان اور جنرل راحیل شریف کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ مشترکہ فوجی مشقوں کا مقصد شریک افواج کی فنی اور لڑائی سے متعلق اہلیت کو بڑھانا، ترسیل و اسٹرٹیجک نقل و حرکت کے منصوبوں پر عملدرآمد یقینی بنانا اور خطے کے امن و استحکام کو درپیش چیلنجوں کا مقابلے کرنے کیلئے شریک ممالک کی افواج کے درمیان مشترکہ مشن کی صلاحیت پیدا کرنا تھا، ساتھ ہی خطے کے ان چند ممالک کو سخت پیغام بھی دیناتھا جو خطے کے دیگر ممالک میں مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

فوجی اتحاد میں عراق، ایران اور شام کی عدم شمولیت سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ فوجی اتحاد عراق، ایران اور شام کے خلاف ہے جسے شام اور یمن میں مداخلت کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے مگر سعودی عرب نے اس کی تردید کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ مشترکہ اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ممالک بڑی آبادی رکھنے کے ساتھ ساتھ بڑی فوج بھی رکھتے ہیں جبکہ سعودی عرب نے مشترکہ فوجی اتحاد میں 10 دیگر اسلامی ممالک کی شمولیت کا بھی عندیہ دیا ہے جن میں آبادی اور فوج کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک انڈونیشیا بھی شامل ہے۔

میں نے گزشتہ سال اپنے کالم میں مشترکہ اسلامی فوج کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تجویز دی تھی کہ جب امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے نیٹو کی شکل میں فوجی اتحاد قائم کر سکتے ہیں تو اسلامی ممالک کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی مشترکہ فوج تشکیل دیں۔ دنیا میں اس وقت 56 اسلامی ممالک ہیں جن کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد ہے اور یہ ممالک ایک کروڑ سے زائد تربیت یافتہ فوجی رکھتے ہیں۔

 اسلامی ممالک ہر سال اپنے دفاع پر اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں لیکن اگر وہ مشترکہ فوج تشکیل دیں اور اپنے دفاعی بجٹ کا صرف 10 فیصد حصہ مشترکہ فوج پر خرچ کریں تو اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط فوج بن کر ابھرے گی جو نہ صرف اسلامی جذبے سے سرشار ہوگی بلکہ ان کے پاس جدید تکنیک اور مہارت بھی ہوگی مگر حال ہی میں تشکیل دی جانے والی مشترکہ اسلامی فوج نیٹو سے قدرِ مختلف ہے جس کا مقصد صرف اتحاد میں شامل رکن ممالک میں دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنانا ہے۔

اس کے برعکس نیٹو انتہائی منظم اور طاقتور فوجی اتحاد ہے جس میں شامل رکن ممالک کی سلامتی و تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے اور کسی بھی رکن ملک پر حملے کو نیٹو پر حملہ تصور کرکے اس ملک کا دفاع کیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب اسلامی ممالک منقسم ہیں، 34 اسلامی ممالک کا مشترکہ فوجی اتحاد مثبت پیشرفت ہے جس کی کمی ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ مشترکہ فوجی اتحاد کو نیٹو کی طرز پر تشکیل دے کر مشترکہ اسلامی فوج قائم کی جائے جو دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کی سلامتی و تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ دور میں بیشتر اسلامی ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں۔ شام اور عراق میں داعش، پاکستان اور افغانستان میں طالبان، ترکی میں کرد، یمن اور لیبیا میں القاعدہ، نائیجریا میں بوکوحرام جبکہ مصر اور مالی میں مختلف دہشت گرد تنظیمیں اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مشترکہ اسلامی فوج کے قیام کے بعد یہ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردی کا شکار ان اسلامی ممالک میں دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گا لیکن اسلامی فوجی اتحاد کے بارے میں یہ منفی تاثر زائل ہونا چاہئے کہ یہ کسی اسلامی ملک کے خلاف ہے۔

زیادہ اچھا ہوتا کہ مشترکہ اسلامی فوجی مشقوں کو انگریزی نام ’’نارتھ تھنڈر‘‘ (شمال کی گرج) دینے کے بجائے کوئی اسلامی نام دیا جاتا مگر اسلامی ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ سعودی عرب اور اتحاد میں شامل برادر اسلامی ممالک تمام تر چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور خطے کا امن و استحکام برقرار رکھنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں جس کیلئے وہ سعودی عرب کے وژن سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ 34 ملکی فوجی اتحاد میں پاکستان کا کردار کہاں تک متعین ہے۔

 پاکستان ایٹمی طاقت اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی حامل بڑی فوج رکھنے کے سبب مشترکہ فوجی اتحاد میں نہایت اہمیت رکھتا ہے جو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے دوست اسلامی ممالک کو تربیت اور انٹیلی جنس شیئرنگ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ سعودی فرمانرواں خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز، وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سمیت 21 ممالک کے سربراہان مملکت نے ایک ہی صف میں نماز جمعہ ادا کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ امت مسلمہ مشکل کی ہر گھڑی میں ایک ساتھ کھڑی 
ہے۔

اشتیاق بیگ
 بشکریہ روزنامہ جنگ 

Post a Comment

0 Comments