Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

تاجکستان کے مسلمانوں کی حالت زار

تاجکستان وسط ایشیا کی ایک اہم اسلامی ریاست ہے، اس کی99 فیصد آبادی
مسلمان ہے۔ پاکستان آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود نے یکم مارچ 2016ء کو تاجکستان کا ایک روزہ دورہ کیا اور تاجکستان کے فوجی تربیتی اداروں کا معائنہ کیا۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف نے پاکستان کے فوجی وفد کا شاندار استقبال کیا اور کہا کہ آپریشن ضرب عضب دنیا کے لئے رول ماڈل ہے اور مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اقدامات اور دیگر امور میں باہمی تعاون کے فروغ کے فیصلے کا اعلان بھی کیا گیا۔

وسط ایشیا لگ بھگ 6 اسلامی ریاستوں ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان، تاجکستان وغیرہ کا مجموعہ ہے۔ یہ علاقے اموی خلیفہ ولید بن عبدالمالک کے دور میں مجاہد جرنیل قتیبہ بن مسلم نے تسخیر کئے تھے۔ امت مسلمہ کے عظیم منتظم حجاج بن یوسف نے 712ء میں محمد بن قاسم کو ہندوستان قتیبہ بن مسلم کو وسط ایشیا موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد کو اندلس اور، سپین روانہ کیا تھا گو وسط ایشیا کا خطہ فوجی فتح تھی مگر خطے میں اسلام کا نفاذ اور نفوذ امام بخاری جیسے اولیاء اور علماء کا کارنامہ تھا۔

 بعد ازاں ماسکو اور سائبیریا بھی اسلامی ریاست کا حصہ بن گئے تھے روسی صدر گوربا چوف کی بیوی رئیسہ سائبیریا کے مرتد مسلم گھرانے سے تعلق رکھتی تھی زوالِ امت کے بعد یہ علاقے پہلے عیسائی زار روس کے غلام رہے اور بعد ازاں اشتراکی یعنی یہودی و صلیبی روس کے مشترکہ مقبوضات کہلانے لگے، اس خطے کے مسلمان صدیوں ریاستی جبر کا شکار رہے مگر انہوں نے اپنی اسلامی شناخت نہیں چھوڑی افغان جہاد نے قدرے تسلی دی مگر بہاولپور فضائی سازش (17 اگست 1988ء) نے سب امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
 جنرل ضیاء الحق کی پالیسی تھی کہ روس کے فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں پاکستان کی حلیف مجاہد حکومت قائم کی جائے گی جو بذریعہ جہاد مذکورہ وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں کو روسی غلامی سے آزاد کرائے گی پھر افغان مجاہدین اور مہاجرین مقبوضہ کشمیر کی جانب رخ کریں گے اور پاکستان کی سکھ پالیسی بھارت کا مقبوضہ کشمیر سے زمینی رابطہ ختم کر دے گی مگر اللہ کی مرضی کچھ اور رہی اور مذکورہ منظر تاخیر اور فی الحال التوا کا شکار ہو گیا۔

جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد بدقسمتی سے پاکستان عالمی طاقتوں اور اداروں کی اجارہ داری میں چلا گیا پاکستان کی موجودہ عالمی پالیسی کی بنیاد جونیجو کا جنیوا معاہدہ ہے جبکہ مذکورہ پالیسی کی تکمیل جنرل پرویز مشرف کی دباؤ بہ نیم شب ہے جس کے بارے میں حملہ آور عالمی اتحادی قوتوں کا فرمان ہے کہ وہ پرویزی یوٹرن کو ضیاء الحق کی ملی پالیسی میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے یہی سبب تھا کہ جنیوا معاہدے کے بعد امریکہ اور روس نے سرد جنگ ختم کی اور ہلسنکی معاہدے کے تحت اپنے اپنے عالمی حلقوں اور حلیفوں سمیت پاکستان کی اسلامی پالیسی کے خلاف عالمی اتحاد بنانے میں کامیاب ہو گئے جس کے نتیجے میں پاکستان میں حزب اقتدار، اختلاف اور سول و عسکری قوتیں عالمی اتحادی حملہ آوروں کی حلیف بن کر رہ گئیں۔

 کامیاب افغان جہاد نے روسی استعمار کو شکست و ریخت کا شکار کیا مگر روس کی قیادت نے استعماری شکست کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کیا یورپ کی مشرقی عیسائی ریاستوں کو خوشی سے آزادی دی اور نو آزاد مشرقی یورپی ریاستوں میں عیسائی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی سرپرستی کی جس کے نتیجے میں ممکنہ بوسنیا کی مسلم ریاست کے مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی پالیسی اپنا لی گئی جبکہ شکست خوردہ روس نے وسط ایشیائی مسلم ریاستوں میں اسلام دشمن مسلمان حکمران مسلط کئے جنہوں نے جہاد کو، بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا نام دے کر مذکورہ اسلامی ریاستوں کے مسلمان مردوں اور جوانوں کو مارنے کی پالیسی اپنائی حتیٰ کہ پاکستان اور افغانستان نے بھی ازبک، تاجک مسلمانوں کو غیر ملکی، فسادی اورجہادی کہہ کر مار دیا اب ان علاقوں میں مرد نایاب اور عورتیں عام ہیں، کچھ عرصہ قبل امریکہ نے کرغزستان میں اسلامی انتہا پسندی کے خلاف فساد کرائے اور واشنگٹن میں متعین کرغزی خاتون سفیر کو کرغزستان کا وزیر اعظم بنوا دیا۔

آج تاجکستان کے مسلمانوں کی حالت زار انتہائی غم ناک بلکہ المناک ہے یہاں مسجدوں اور مدرسوں کو قہوہ خانوں، قحبہ خانوں اور کھیل کے میدانوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ وہاں کے ایک شہر ’’فوجاند‘‘ کے میئر کا ارشاد ہے کہ علماء اور مدارس کے طلباء اسلامی شریعت کے معاملے میں جاہل مطلق ہیں اور مسجدکے مسلمان اسلامی روح سے نا آشنا ہیں تاجکستان میں عورتوں کے حجاب اور مردوں کی داڑھی پر پابندی ہے۔ عالمی نیوز ایجنسی ڈی این ڈی کے حوالے سے لکھا ہے کہ تاجکستان کی حکومت نے مسلمانوں کی زبردستی داڑھی مونڈھنے کی مہم شروع کر دی ہے۔

 رواں ہفتے پولیس نے 13 ہزار افرد کی داڑھی مونڈ ڈالی۔ حکومت نے داڑھی مونڈھنے کی توجیہہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ انسداد بنیاد پرستی پالیسی کا حصہ ہے۔ داڑھی، حجاب، مسجد، مدرسہ، قرآن و سنت بنیاد پرستی کے موجب اور محرک ہیں۔ بقول حکومت اسلامی ثقافتی اقدار، اطوار اور آثار بنیاد پرستی اور غیر ملکی کلچر کی نمائندگی ہے، لہٰذا اسلام مقامی سیکولر کلچر میں رکاوٹ ہے۔ اسلامی کلچر کی بیخ کنی ہی مقامی سیکولر معاشرے کی خشت اول ہے۔ حکومت کی مذکورہ مہم کے تحت ہزاروں افراد گرفتار کر لئے گئے، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں حجاب اور اسلامی ثقافت کے اظہار پر پابندی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حجاب فروخت کرنے والی 160 دکانیں بند کر دی گئی ہیں۔ تقریباً 1800 خواتین کو ترک حجاب پر آمادہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں صدر امام علی رحمانوف نے تاجک باشندوں کو خبردار کیا کہ وہ غیر ملکی روایات کے مطابق عبادت نہ کریں۔ نام، لباس، تہوار مقامی رسم و رواج کے مطابق ہونے چاہئیں، اسلام ریاست میں غریب الوطن یعنی پردیسی اور غیر ملکی ہے لہٰذا عوام از خود اسلام ترک کر دیں، وگرنہ ریاستی رٹ زبردستی مجبور کر دے گی۔  تاجک حکومت کی انسداد بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مہم کے خدوخال مذکورہ بالا ہیں۔ طرفہ تماشا ہے کہ ہندو بھارت کی کروڑوں کی مسلم اقلیتی آبادی کے بارے میں یہی سرکاری پالیسی ہے۔

پروفیسر یوسف عرفان


Post a Comment

0 Comments