Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بھائی پھر مسٹیک ہوگئی....وسعت اللہ خان




عراق پر اقوامِ متحدہ کی رضامندی کیے بغیر امریکہ اور برطانیہ کی فوج
کشی کا معاملہ اس مردے کی طرح ہے جو بارہ برس بعد بھی عالمی ضمیر کی سطح پر تیر رہا ہے ۔ یہ مردہ بار بار ساحل پر آ جاتا ہے اور بار بار اسے بانس کے ذریعے بےحسی کے گہرے پانی میں دھکیلنا پڑتا ہے۔

اگر تو اس فوج کشی کے نتیجے میں عراق ایک پرامن جمہوری ملک بن جاتا اور آس پاس کے علاقے بھی اس ’خوش نیت تجربے‘ سے منور ہوجاتے تو دو ہزار تین میں صدام حسین حکومت کی برطرفی کا شاخسانہ کسی کو یاد بھی نہ رہتا۔لیکن عراق پر حملے نے دراصل وہ پٹاری پھاڑ دی جس میں سے بھانت بھانت کے کوبرے نکل بھاگے اور اب وہ ہر ایک کو یہاں سے وہاں تک ڈستے پھر رہے ہیں۔
حالانکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی اب عراق پر حملے کو ایک تجزیاتی غلطی کے طور پر دیکھتی ہے لیکن اس حوالے سے سرکاری سطح پر بے وقوفی تسلیم کرنے اور معافی مانگنے کا مستقبلِ قریب میں کوئی امکان نہیں۔ بلکہ سابق صدر بش تو آج بھی اس عقیدے پر کار بند ہیں کہ امریکہ نے عراق میں جو کیا رضاِ الہی سے کیا۔
البتہ ان کے ساجھے دار سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کم ازکم یہ تسلیم کرنے تک تو آ گئے ہیں کہ میں اس پر معافی مانگتا ہوں کہ عراق سے متعلق انٹیلیجنس اطلاعات غلط تھیں ، میں اس پہ بھی معافی مانگتا ہوں کہ یہ سمجھنے میں غلطی ہوئی کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد عراق میں کیا ہوگا مگر صدام حسین کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے فعل پر معافی مانگنا مشکل ہے۔

امریکی نیوز نیٹ ورک سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے دس برس برطانوی وزیرِ اعظم رہنے والے ٹونی بلیئر نے کہا کہ اگر صدام حسین اقتدار میں رہتا تو عراق بھی شام کی طرح خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ مگر ٹونی بلیئر یہ بھی کہتے ہیں کہ آج داعش سمیت علاقے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری کسی حد تک دو ہزار تین کے واقعات پر بھی عائد ہوتی ہے۔

یہ اچھی بات ہے کہ بش کے برعکس ٹونی بلیئر جزوی ہی سہی مگر ذمہ داری قبول کر رہے ہیں ۔لیکن پورے پورے ملک صرف اندازے کی غلطی سے برباد کر دینے کے بعد محض آئی ایم سوری کہہ دینا کیا کافی ہے؟

اگر میں لندن یا واشنگٹن میں محلے کے کسی گھر کو صرف اس شبہے میں گولیوں سے چھید ڈالوں کہ یہاں کوئی سیریل قاتل چھپا بیٹھا تھا اور بعد میں معلوم ہو کہ ایسا کچھ نہیں تھا تو برطانوی اور امریکی سماج ، قانون اور انشورنس کمپنی مجھے محض ’آئی ایم سوری‘ کہنے پر معاف کردیں گے؟
آپ نے تو ڈیڑھ کروڑ افریقی غلاموں کو بیچ ڈالنے سے لے کے ہیروشیما، ناگاساکی، ہندوستان کی عاجزانہ خونی پارٹیشن ، ویتنام کو کھدھیڑنے ، انڈونیشیا میں تیس لاکھ مخالفین کی قاتل سہارتو حکومت کو اسلحہ بیچنے، اسرائیل کے قبضے کو ڈی فیکٹو تسلیم کرنے، سرد جنگ کے چکر میں تیسری دنیا کو کرپٹ آمرانہ شکنجے میں دینے، جنوبی افریقہ کے اپارتھائیڈ کو دامے درمے کھڑا رکھنے، افغانستان کو منہ تک بارود سے بھر دینے اور محض ایک قذافی کے شکار کے لیے پورے لیبیا کو ادھیڑ دینے سمیت کیا کیا نہیں کیا اور اب شام میں کیا کیا نہیں ہو رہا ۔اس سب کی قیمت صرف ایک ’آئی ایم سوری‘؟

اگر انصاف یہی ہے تو پھر عظیم ملک، عظیم اقدار اور عظیم تہذیب کا ڈھنڈورا کس کے لیے پیٹا جاتا ہے؟ اگر یہی فراست ہے تو ایسی فراست تو مجھ جیسا کوئی بھی دکھا سکتا ہے۔ اس کے لیے ادھ موئے سنسار کو بش یا ٹونی بلئیر یا ان کی طرح کے ذہنوں کی کیا ضرورت؟

جہاں جہاں آپ کے غلط اندازے تباہی لائے ان کے نتیجے میں لاکھوں لوگ تو جو مرے سو مرے مگر ان ممالک، سماجوں اور افراد کی زندگیوں کو بحال کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ تباہ تو آپ کی غلط انداز ادائیں کریں اور تعمیر و تباہی کا بوجھ برباد ہونے والے اٹھائیں؟ اور آپ پھر ایک نئے ایڈونچر پر نکل کھڑے ہوں دس برس بعد یہ کہنے کے لیے کہ بھائی پھر مسٹیک ہوگئی۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments