Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

انڈیا کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے پر مودی کا شکریہ

کچھ لوگوں کا یہاں خیال ہے کہ پاکستان کو ہندوستان کی انتہا پسندی کے تازہ
واقعات پر سختی سے جواب دینا چاہیے۔ بحث یہ بھی کی جا رہی ہے کہ ہم نے شہریار خان، نجم سیٹھی اور خورشید قصوری کو کیوں انڈیا جانے دیا اور اپنی بے عزتی کروائی۔ بجائے اس کے ہندوستان سے کرکٹ کھیلنے کی بھیک مانگی جائے، ہمیں کہہ دینا چاہیے کہ ہم انڈیا سے نہیں کھیلیں گے۔ انڈیا ہمارے ساتھ امن قائم نہیں رکھنا چاہتا تو ہم امن کی بات کیوں کریں!! حقیقت میں ہندوستان کے رویّے نے ہندوستان کی ہی اصلیت کو دنیا کے سامنے ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا ہندوستان کی خرابیوں اور خباثتوں پر اس طرح سے react نہیں کرتی جس طرح پاکستان کے معاملات کو بڑھاوا دے کر خوب پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہندوستان میں پے درپے انتہا پسندی کے واقعات نے نام نہاد "Shinning India" کے سیکولرازم کو تار تار کر دیا۔ نرندر مودی کی قیات میں ہندو انتہاپسند اس وقت وہاں ایک ایسے پاگل پن پر اتر آئے ہیں جس کا شکار مسلمانوں سمیت وہاں بسنے والی دوسری اقلیتوں کے ساتھ ساتھ نچلی ذات کے ہندو بھی ہیں۔ یہ سب تو آخر کار ہونا ہی تھا۔ شکر ہے ان واقعات سے کسی حد تک ہمارے درمیان موجود اُس طبقہ کی آنکھ کھول دی جو نظریہ پاکستان کے مخالفت میں ہمیشہ زور دیتا رہا کہ ہمارے اور ہندوستان میں رہنے والوں میں تو کوئی فرق ہی نہیں۔ وہ تو ضدکرتے تھے کہ ہم تو ایک ہیں۔

لیکن اچھا ہوا کہ گزشتہ انتخابات میں مسلمانوں کے خلاف چھپی نفرت کا اظہار کرتے ہوے ہندوستان کی اکثریت نے مسلمانوں کے قاتل اورہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے تربیت یافتہ نرندر مودی کو بھارت کا وزیر اعظم منتخب کیا۔ اب چھپی نفرت کھل کھل کر سامنے آ رہی ہے ۔ شیو سینا جو اس وقت ہندوستان کا منہ کالا کر رہی ہے وہ نرندر مودی کی بھارتی جنتا پارٹی کے ساتھ حکومت میں بھی شامل ہے۔ دونوں میں مسلمانوںکے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ دونوں پاکستان کو برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے اس لیے تڑپ رہے ہیں کہ کیسے پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے۔ اس تڑپ میں مودی مائنڈ سیٹ جس کو آپ بے شک شیو سینا کا نام دیں یا آر ایس ایس کا، کچھ ایسا جنونی ہو چکا کہ انہیں کسی پاکستانی کا بھارت میں وجود ہی برداشت نہیں۔ خورشید قصوری ہندوستان گئے تو اُن کے میزبان کا منہ ہی کالا کر دیا۔
شہریار خان اور نجم سیٹھی انڈین کرکٹ بورڈ کی دعوت پر وہاں گئے تو شیو سینا کے غنڈوں کو ان کے پیچھے لگا دیا گیا۔ مودی مائنٹ سیٹ نے تو پاکستان سے تعلق رکھنے والے کرکٹ ایمپائر علیم ڈار کو وہاں ایمپائرنگ کرنے سے رکوا دیا اور انٹرنیشنل کرکٹ کے بڑے تماشہ دیکھتے رہے۔ وسیم اکرم اور شعیب اختر جو ہندوستان میں کرکٹ کمنٹری کےلیے گئے ہوئے ہیں انہیں بھی ڈرا دھمکا کر پاکستان واپسی پر مجبور کرنے کو کوشش کی جا رہی ہے۔

ان واقعات سے بے عزت کون ہو رہا ہے، کس کا چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے اس کا جواب تلاش کرنا کوئی مشکل نہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو غصہ نہیں بلکہ تدبر کے ساتھ اپنا ردعمل دینا چاہیے۔ ہمیں ان واقعات پر ہندوستان سے معافی کا مطالبہ تو ضرور کرنا چاہیے لیکن ایسے مواقع ضرور ڈونڈھنے چاہیے جس سے ہندوستان کی انتہاہ پسندی اور کھل کر سامنے آئے۔ چند روز قبل ایک ٹی وی شو میں پروگرام کے میزبان نے نرندر مودی اور انڈیا کی انتہاپسندی کا حافظ سعید صاحب اور اُن کی تنظیم سے تقابلہ پر مجھ سے سوال کیا تو میں نے کہا کہ نرندر مودی تو بھارتی مسلمانوں کا قاتل ہے اور اُسے ہندوستانیوں نے اپنا وزیر اعظم بنالیا۔

حافظ سعید یا اُن کی تنظیم کے متعلق کیا کوئی ایک مثال کسی کے سامنے ہے جہاں ان کی طرف سے کسی ایک بھی پاکستانی ہندو، عیسائی، سکھ کو تکلیف دی گئی ہو یا انہیں نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس انہوں نے سیلاب اور زلزلہ کے دوران اور رفاع عامہ کے کاموں میں لاکھوں پاکستانیوں کی مدد کی اور اس سلسلے میں مذہب، رنگ، اور نسل کی کبھی کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود کہ حافظ صاحب اور اُن کی تنظیم نے گزشتہ سال جنگ جیو کے ساتھ کسی کے اشارہ پرجو رویہ اپنایا اُس سے مجھے سخت اختلاف ہے لیکن حافظ صاحب اور نرندر مودی کا کوئی موازنہ نہیں۔ ہندوستان میں برسر اقتدار ہندو انتہاپسند گروہ تو مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں جان سے مار دیتے ہیں، وہاں تو ہزاروں مسلمانوں اور کرسچنز کو زبردستی ہندو بنایا جا رہا ہے، وہاں تو مسجد محفوظ ہے نہ چرچ۔ چند بھارتی ریاستوں کو چھوڑ کر بھارت میں تو گائے کو ذبح کرنا جرم ہے۔

اس کے باوجود انتہا پسندی کا الزام ہم پر لگایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود امریکا اور یورپ اپنے معاشی مفاد کی خاطر ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور انڈیا کی پاک دشمنی کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود امریکا انتہا پسند ہندوستان کو نیو کلئیرپاور تسلیم کرتے ہوئے ایک طرف اس کے ساتھ معاہدے کر رہا ہے تو دوسرے طرف پاکستان پر پریشر ڈال رہا ہے کہ ہم اپنے نیو کلئیر پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی کو محدود کریں۔

 امریکا پاکستان کو انتہا پسند ہندوستان کے ہاتھوں یرغمال بنانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں وزیر اعظم نواز شریف کے موجودہ دورہ امریکا کے موقع پر اوباما ایڈمنسٹریشن کی خواہش تھی کہ پاکستان کو نیوکلئیر انرجی کے سلسلے میں تعاون کا لالچ دے کرہمارے نیو کلئیر اور میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی کو روک کر اسے اس حد تک کمزور کر دیا جائے کہ بھارت پریشان نہ ہو۔ لیکن پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے کسی ایسے سودے بازی کو قبول کرنے سے وزیر اعظم کی امریکا روانگی سے پہلے ہی انکار کر دیا تھا۔ اس معاملہ پر مودی سرکارکافی پریشان ہوگی۔ ہندوستان تو پہلے ہی پاک چائینا راہداری منصوبے کی وجہ سے پاگل ہوا بیٹھا ہے۔ انڈیا کے اس پاگل پن کو انجوائے کریں۔ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں مودی مائنڈ سیٹ خود بھارت کی تباہی کا ساماں پیدا کر رہا ہے۔ ہو سکے تو ہندوستان کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے پر مودی کا شکریہ ادا کر دیں۔

انصار عباسی
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘

Post a Comment

0 Comments