Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

امریکی امداد کی بندش سے پاکستان کو فرق پڑے گا ؟

امریکہ کی جانب سے افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں کی مدد کے لیے پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد بند کرنے کا اعلان بعض تجزیہ کاروں کی نظر میں اس خطے میں امریکہ کی ایک بار پھر کم ہوتی دلچسپی کا اعلان ہے۔
امریکہ نے افغانستان میں سنہ 2001 میں شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی مدد کے عوض اسے ہر سال قریباً ایک ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس فوجی مدد کو کولیشن سپورٹ فنڈ قرار دیا گیا تھا۔

امریکی حکام کے مطابق اس کولیشن سپورٹ فنڈ کے سلسلے کی آخری ادائیگی اس سال کر دی جائے گی جس کے بعد اس سلسلے کی مزید ادائیگیاں نہیں ہوں گی۔
یہ بات اتوار کے روز امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات کے دوران انھیں بتائی۔

اس ملاقات میں موجود پاکستانی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز نے ملاقات کے بعد ایک نجی ٹیلی وژن چینل کو بتایا کہ انھوں نے اپنی امریکی ہم منصب پر واضح کیا کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کے دوران امریکہ کو مطلوب حقانی نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کر رہا ہے لہذا امریکہ کولیش سپورٹ فنڈ روکنے سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
’ہم نے انھیں بتایا ہے کہ اب جبکہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی آخری مراحل میں ہے آپ نے یہ فنڈنگ روک دی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس فیصلے پر نظر ثانی کریں کیونکہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ کافی معنی خیز ہے اور آنے والے چند دنوں اور ہفتوں میں آپ اس کا اثر دیکھ لیں گے۔

پاکستان گذشہ چند برسوں سے قبائلی علاقوں میں جاری پاکستان کی فوجی کارروائیوں پر اٹھنے والے اخراجات بھی اسی کولیشن سپورٹ فنڈ سے ادا کرتا رہا ہے۔
گذشتہ سال شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کو بھی اسی فنڈ سے رقم فراہم کی جاتی رہی ہے۔
 
امریکہ کولیش سپورٹ فنڈ روکنے سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے
دفاعی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کولیشن سپورٹ فنڈ بند ہونا اس بات کا ایک طرح سے اعلان ہے کہ امریکہ پاکستان اور افغانستان کے معاملات میں اب زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا اور یہ کہ اس خطے سے امریکہ کی مکمل روانگی کا وقت آ گیا ہے۔

دفاعی مبصر بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد کے مطابق پاکستانی پالیسی سازوں کے لیے یہ بات باعث حیرت باکل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکہ نے اپنا مطلب پورا ہونے پر اس خطے سے منہ موڑا ہے۔

امریکہ نے سنہ 1965 میں یہی کیا، سوویت یونین کے خلاف جہاد کے خاتمے پر بھی یہی کیا اور آئندہ بھی یہی کریں گے۔ جب پاکستان نے دوسری افغان جنگ کے وقت امریکہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا تو لوگوں نے اس وقت بھی حکومت پاکستان سے کہا تھا کہ وہ امریکہ پر اعتبار نہ کریں یہ پھر آپ کو تنہا چھوڑ جائے گا۔ اس نے وہی کیا ہے۔

بریگیڈیئر سعد کے مطابق اب بہت جلد امریکہ افغانستان کو بھی بھول جائے گا۔
’میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ جیسے ہی نیا امریکی صدر آئے گا وہ افغانستان سے اپنے تمام لوگ واپس بلا لےگا اور پھر امریکہ بھول جائے گا کہ افغانستان نام کا کوئی ملک بھی اس دنیا میں ہے۔

بظاہر تو بریگیڈیئر سعد کا یہ تجزیہ مایوس کن حالات پر انحصار کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ملنے والی فوجی امداد کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ خدشات درست دکھائی دیتے ہیں۔
امریکی غیر سرکاری ادارے سینٹر فار گلوبل ڈیویلپمنٹ کی تحقیق کے مطابق قیام پاکستان کے بعد سے امریکہ نے تین مواقع پر پاکستان کو فوجی امداد دی جو چند برس جاری رہنے کے بعد خطے میں اس کی دلچسپی کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔
 
امریکہ نے پہلی بار پاکستان کو فوجی امداد دینے کا سلسلہ سنہ 1955 میں شروع کیا اور ایک ارب ڈالر سالانہ سے شروع ہونے والی یہ مدد 11 برس میں یعنی سنہ1966 میں مکمل طور پر ختم ہوگیا۔
دوسری بار امریکی فوجی امداد ’افغان جہاد‘ کے دوران یعنی سنہ 1982 میں شروع ہوئی اور افغانستان سے روسی انخلا کے ساتھ ہی پاکستان کو دی جا نے والی یہ فوج امداد بھی جاتی رہی۔

تیسری بار یہ فوجی مدد سنہ 2001 کے آخر میں شروع ہوئی اور امریکی اعلان کے مطابق اب ختم ہونے کو ہے۔
سینٹر فار گلوبل ڈیویلپمنٹ نے پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد کے بارے میں ایک گوشوارہ بنایا ہے جس پر ایک نظر ڈالتے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ جب جب امریکہ کی جانب سے فوجی امداد شروع ہوئی، پاکستان کے لیے امریکی سویلین امداد بھی اس عرصے میں بڑھ گئی۔

خطے میں امریکی فوجی دلچسپی کے ساتھ فوجی امداد تو ختم ہوئی، سویلین امداد میں بھی اس کے بعد نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔
ماہرین معیشت کے مطابق ایک ارب ڈالر سالانہ پاکستان کے لیے خاصی بڑی رقم ہے لیکن پچھلے چند سالوں میں پاکستانی معیشت اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ اس امداد کے بند ہونے سے پہنچنے والے دھچکے کو برداشت کر لے۔

پاکستانی حکومت کے سابق اقتصادی مشیر ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ امریکی کولیشن سپورٹ فنڈ کے بند ہونے سے ملکی معیشت کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
’کچھ سال پہلے تک تو یہ رقم بہت اہم تھی لیکن اب جبکہ ہمارے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ہیں تو ہمارے بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کے لیے اس رقم کے نہ ہونے سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔‘
ثاقب شیرانی کے مطابق ایک طرح سے اس امدادی رقم کا بند ہو جانا پاکستانیوں کے لیے اچھا ہے۔
 
پاکستان کی فوجی کارروائیوں پر اٹھنے والے اخراجات بھی اسی کولیشن سپورٹ فنڈ سے ادا کرتا رہا ہے
’ہم نے اس غیر ملکی امداد کو اپنے لیے خوا مخواہ کا ہوّا بنایا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے غیر ملکی مدد پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ مدد بند ہونے سے ہم نفسیاتی طور پر اس انحصاری کیفیت سے بھی نکل آئیں گے۔
ثاقب شیرانی نے کہا کہ ’یہ کوئی اتنی بڑی رقم بھی نہیں ہے کہ ہم اتنے پیسے اپنے طور پر خرچ نہ کر سکیں۔

یعنی پاکستانی عسکری اور معاشی ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امریکی امداد کی بندش پاکستان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ گویا بقول شاعر

گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے۔
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے۔

آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments