Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا اس لیے ٹیکس دوں؟

کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں 99 فیصد لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور جو ایک فیصد دیتے بھی ہیں وہ بھی پورا نہیں دیتے سوائے ان سرکاری ملازموں کے جن کا ٹیکس تنخواہ سے ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔

نجی شعبہ جیسا کیسا بھی ٹیکس دیتا ہے اس میں سے بھی 62 فیصد راستے میں ہی ٹیکس دہندہ، ٹیکس کلیکٹر اور ٹیکس پریکٹیشنر کے درمیان کہیں غتربود ہو جاتا ہے اور صرف 38 فیصد سرکاری خزانے تک پہنچتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ لوگ سرکاری کارندوں کو رشوت اور گن مین کو بھتہ دینا زیادہ پسند کرتے ہیں، ایدھی فاؤنڈیشن جیسے اداروں کو آنکھ بند کر کے بلا رسید خیرات و چندہ دینے سے قطعاً نہیں ہچکچاتے۔

رمضان میں افطار کے لیے فٹ پاتھ پر ایک ایک کلومیٹر طویل دسترخوان سجا دیتے ہیں مگر سرکار کو ٹیکس نہیں دینا چاہتے۔ عجیب قوم ہے جو خیرات و صدقہ دینے کے معاملے میں دنیا کی دس بڑی مگر ٹیکس کے معاملے میں دس سب سے نچلی قوموں میں شمار ہوتی ہے۔
وجہ جاننے کے لیے اقتصادیات میں پی ایچ ڈی قطعاً ضروری نہیں۔ بات سیدھی سیدھی ہے۔ ریاست کو لوگوں پر اور لوگوں کو ریاست پر اعتماد نہیں اور اعتماد یوں نہیں کہ لوگوں سے یا ان کے نام پر جو بھی ٹیکس، قرضہ یا امداد اکٹھی ہوتی ہے اسے خرچ کرنے کے بارے میں لوگوں سے نہ پوچھا جاتا ہے نہ بتایا جاتا ہے۔
جن ممالک میں کرپشن قابلِ برداشت حد میں ہے وہاں ٹیکس زیادہ وصول ہوتا ہے۔ جہاں کرپشن ناقابلِ برداشت ہے وہاں لوگ ٹیکس نہیں دینا چاہتے اور ان کا عمومی رویہ یہ ہوتا ہے کہ میں ٹیکس آخر کیوں دوں جب سرکاری اسپتال کے کاریڈوری فرش پر میرا لختِ جگر دو گھنٹے تک ابتدائی طبی امداد کے انتظار میں تڑپ تڑپ کے مرجائے۔

کیا ان سادوں اور باوردیوں کے لیے ٹیکس بھروں جو میرے چھوٹے بھائی کو بلا جرم بتائے گھر میں کود کر لے جائیں اور پھر اس کا نشان تک نہ ملے۔
مجھے اپنی بیٹی کو کسی مہنگے پرائیویٹ اسکول میں اپنا پیٹ کاٹ کر اور خوشامد کر کے ہی داخل کروانا ہے تو مفت، لازمی اور معیاری تعلیم کی آئینی پابند حکومت کو مجھ سے ٹیکس لینے کا کیا حق؟
ہاں میں خود جا کے ٹیکس کا گوشوارہ بھروں اگر یقین ہو کہ میرے چچا کا قاتل پکڑا گیا تو پولیس بھی اسے عدالتی غیض و غضب سے نہیں بچا پائے گی۔
ہاں میں اس دن تمام بل بیباق کردوں جس دن مجھے کوئی یہ بتا دے کہ گیس، بجلی اور پانی کے سب سے بڑے مقروض عام لوگ نہیں وفاقی و صوبائی ادارے ہیں۔

چلیے آپ ان میں سے کچھ بھی نہ کیجیے۔ بس اتنا یقین دلا دیجیے کہ سینٹرل بورڈ آف ریونیو نے اس سال پوری وفاقی و صوبائی کابینہ اور ارکان اسمبلی سے ٹیکس اور واجب الادا بل وصول کر لیے ہیں۔اس کے بعد ٹیکس نہ دوں تو کسی فوجی عدالت کے حوالے کردیں۔

اس وقت پاکستان دنیا کی 44 ویں بڑی معیشت ہے جس کا حجم تقریباً ڈھائی سو ارب ڈالر ہے لیکن اس دستاویزی معیشت کے 90 فیصد کے برابر وہ متوازی معیشت بھی ہے جسے عرفِ عام میں غیر دستاویزی یا بلیک اکانومی کہتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں اتنی بڑی بلیک اکانومی کا وجود المناک ہے۔ مگر پاکستان میں بلیک اکانومی کا ہونا نعمت ہے کیونکہ سرکار نے ایک مدت سے لوگوں کے بنیادی حقوق اور ضروریات سے تقریباً ہاتھ اٹھا لیا ہے۔

غریب کو جو چھت سرکار کو دینا تھی وہ لینڈ مافیا دے رہی ہے۔ جن لاکھوں لوگوں کو روزگار کا تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری تھی وہ بلیک اکانومی کی چھتری تلے زندہ ہیں۔

جان و مال کا تحفظ سرکار کے بجائے مقامی مسٹنڈے دے رہے ہیں۔ جو ریاست کسی عام مریض کو علاج معالجے کی تسلی بخش سہولت نہیں دے سکتی اس مریض کے لیے کسی ٹیکس چور سیٹھ کا خیراتی ہسپتال بہت بڑا آسرا ہے۔
یہ بلیک ان ڈاکومنٹڈ اکانومی ہی تو ہے جو اب تک لاکھوں لوگوں کو خودکشی سے روکے ہوئے ہے۔

ویسے بھی سود کی ادائیگی، دفاعی خرچے اور انتظامی اخراجات کے بعد سرکار کے پاس عام آدمی کے لیے بچتا ہی کیا ہے؟

اور ادھار تو خیر سے ریاستی نفسیات میں اتنا اتر چکا کہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اس خبر پر بھی قوم کو مبارک باد دیتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے پانچ سو ملین ڈالر کی نئی قسط ملنے کے بعد پاکستان کے زرِ مبادلہ کے زخائر ساڑھے 18 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے۔

جو حکمران قرض کو بھی آمدن شمار کریں ایسوں کو دیگر ذرائع آمدنی کی بھلا کیا حاجت اور دوسروں کی کیا پرواہ۔

( اس وقت وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ اور اسحاق ڈار سعودی عرب میں دس روزہ اعتکاف کے لیے تشریف فرما ہیں۔ ایک دعا ان ڈیڑھ ہزار سے زائد لوگوں کی مغفرت کے لیے بھی جو سندھ میں گرم موسم ، لوڈ شیڈنگ اور ریاستی بے حسی کی نظر ہوگئے اور آپ میں سے کوئی ان کی تعزیت کے لیے اپنا ایک قیمتی لمحہ بھی ضائع نہ کرسکا۔ بس ایک دعا ان کے گناہوں کی مغفرت کے لیے بھی)۔

وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments