Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سپر پاورکے صدر کے والد کی خستہ حال مرقد کا نوحہ

سپرپاور امریکا کے سیاہ فام صدر براک اوباما نے اپنے ملک اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے نہ معلوم کیا کچھ کیا ہوگا مگر وہ  اپنے آنجہانی والد اور خاندان کو کچھ ایسے فراموش کر بیٹھے ہیں کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے مسلمان غریب والد کی کینیا میں موجود قبر کی 'رکھوالی ان دنوں کتے، بلیاں اور مرغیاں' کر رہی ہیں۔ صدر اوباما کو اپنے والد کی ٹوٹی پھوٹی قبر کا خیال نہیں آیا مگر بھلا ہو کینیا کی حکومت کا جس نے اپنی غربت کے باوجود امریکی صدر کے والد کی آخری آرام گاہ کی مرمت کے لیے 10 لاکھ شلنگ یعنی 10 ہزار امریکی ڈالر کے مساوی رقم مختص کی ہے۔

کینیا میں موجود امریکی صدر کے والد کی قبر کی خستہ حالی پر العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایک ایسے وقت میں روشنی ڈالی ہے جب صدر اوباما آج جمعہ کو کینا کا دورہ کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بیٹے کی آمد پر والد باراک حسین اوباما کی روح قبرپرانتظار کرے لیکن امکان یہ ہے کہ صدر اوباما کینیا کے حکام سے ساتھ عالمی اور علاقائی اموربات چیت میں کچھ ایسے مصروف ہوں کہ اُنہیں والد کی قبر کو سلام کہنے کی فرصت نہ ملے کیوںکہ انہیں آخر عالمی مسائل کی گتھیاں سلجھانے کے لیے کل ہفتے کو ایتھوپیا بھی پہنچنا ہے۔
براک حسین اوباما کی قبر کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے 400 کلو میٹر دور افریقی ملک یوگنڈا کی سرحد سے متصل "کوغیلو" قصبے میں ہے۔ قبر کیا ہے؟ محض ایک گڑھا ہے۔ اگر کوئی اجنبی دیکھے تو اسے یقین نہیں آئے گا کہ یہ دنیا کی سپرپاور امریکا کے حاضر سروس صدر باراک اوباما کے والد کی آخری آرام گاہ ہے۔
اگرچہ صدر اوباما ارب پتی نہیں لیکن ان کا شمار امریکا کے متمول لوگوں میں ہوتا ہے۔ ان کی دولت کے اور کئی مصرف ہوں گے۔ اس لیے وہ آج تک والد کی قبر کی خستہ حالی دور کرنے کے لیے ایک دھیلہ تک صرف نہیں کرپائے ہیں۔ دو ماہ قبل کینیا کے محکمہ سیاحت نے اوباما کے والد کی آخری آرام گاہ کی مرمت کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے 1 ملین کینی شلن مختص کیے ہیں۔

کینیا کی حکومت کی جانب سے باراک حسین اوباما کی صرف قبر کی مرمت کا اعلان نہیں کیا گیا بلکہ حکومت اسے ایک سیاحتی مرکزبنانے کےلیے کوشاں ہے کیونکہ قبر کی زیارت کرنے روزانہ دنیا بھر سے کم سے کم 30 افراد وہاں آتے ہیں۔

کینیا کے ایک مقامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق صدر اوباما پہلی بار سنہ 1987ء میں والد کی قبرپرآئے۔ جہاں انہوں نے ایک خاتون عزیزہ "ماما سارہ" سے ملاقات کی۔ ماما سارہ رشتے میں صدر اوباما کی دادی ہیں جو ان کے دادا حسین اونیانگو کی تیسری اہلیہ ہیں۔ اوباما کے دادا کی قبر بھی والد کی قبرکے قریب ہے۔ باراک اوباما کے والد جن کا پورا نام باراک حسین اوباما تھا سنہ 1982ء میں نشے کی حالت میں ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ تب 21 سالہ باراک اوباما امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھے۔

والد زمین میں والدہ سمندر میں

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق باراک اوباما نے 28 سال قبل اپنے والد کی قبر کی زیارت کی۔ کسی کویہ معلوم نہیں کہ والد کی قبر پرانہوں نے ایک مسلمان کے طورپر فاتحہ خوانی کی تھی یا نہیں۔ وہ کتنی دیر کھڑے رہے۔ یا یہ کہ انہوں نے عیسائی مذہب کے مطابق والد کی قبر پرکچھ دیر تعزیتی کلمات کہے۔ "کوغیلو" قصبے کی مقامی آبادی کے 3700 نفوس میں کوئی نہیں جانتا کہ اوباما کے نزدیک ان کے والد کی قبر کی کتنی حیثیت ہے کیونکہ مقامی لوگوں نے تو ان کی قبر کے آس پاس ہروقت کتے، بلیاں اور مرغیاں ہی پھرتی دیکھی ہیں۔

صدر اوباما دوسری مرتبہ سنہ 2006ء میں کینیا کے دورے پرآئے۔ تب وہ امریکی کانگریس میں سینٹر تھے۔ان کے اس دورے میں ان کی اہلیہ مشل اوباما اور دونوں بیٹیاں بھی ہمراہ تھیں۔ نیوز ویب پورٹل news 24 کے مطابق کینیا آمد پروہ اپنے والد کی قبر پرحاضری دینے آئے لیکن انہوں نے قبر کی خستہ حالی پرکوئی توجہ نہیں دی۔

مقامی اخبارات نے اوباما کے والد کے انتقال کے بارے میں مختلف کہانیاں شائع کی ہیں۔ زیادہ مشہور روایت کے مطابق باراک حسین اوباما کو جب کینیا کی ایک آئل کمپنی نے نوکری سے نکال دیا تو وہ ذہنی اور نفسیاتی طورپر بری طرح متاثر ہوئے تھے اور اس کے بعد انہوں نے شراب نوشی شروع کردی تھی۔ 45 سال کی عمرمیں باراک حسین نیروبی کے قریب ایک شاہراہ عام پر نشے کی حالت میں ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ پسماندگان میں انہوں نے آٹھ بیٹے اور پانچ بیگمات چھوڑیں۔ ان میں ایک یہودی بیوی بھی تھی جس سے ایک بیٹا ہوا۔ صدر اوباما کا یہودی سوتیلی ماں سے ہونے والے سوتیلے بھائی کا نام "مارک اوباما نڈیسانگو ہے اور وہ اس وقت چین میں ہے۔

اوباما کی والدہ "آن ڈونھام" کی کوئی قبر نہیں۔ وہ سرطان میں مبتلا ہوئیں۔ سنہ 1995ء میں اپنی وفات سے قبل انہوں نے وصیت کی انتقال کے بعد ان کی میت کو جلا دیا جائے اور راکھ سمندر میں بہا دی جائے۔ سنہ 2008ء میں ان کی وفات کے بعد وصیت پرعمل کرتے ہوئے ہوائی کے سمندر میں بہا دی تھی۔

لندن ۔ کمال قبیسی

Post a Comment

0 Comments