Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ.....

چند دہائیوں پہلے کی بات ہے کہ جس بھی بچے سے پوچھا جاتا تھا کہ بڑے ہوکر پڑھ لکھ کر کیا بنو گے تو وہ جواب دیتا ’ڈاکٹر‘ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں ڈاکٹر بننے کا میرٹ سب سے زیادہ رہا اور آج بھی میڈیکل میں داخلہ لینا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔

بلاشہ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو مسیحائی بذات خود خدمت خلق اور ثواب کا کام ہے اور آپس کی بات ہے اس میں پیسہ بھی بہت ہے اگر آپ کی پریکٹس چلتی ہے تو آپ کو کوٹھیاں پلاٹ اور بینک بیلنس بڑھانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میڈیکل ریپ جیسی مخلوق اپ کو اپنی ادویہ مریضوں کو لکھنے پر گراں قدر تحائف اور غیر ملکی دورے تک کرواسکتی ہے۔ اگر کوئی مریض مالدار مرض ہتھے چڑھ گیا تو جانو سونے کی کمان ہاتھ میں آگئی۔ اس مریض نے انے دوست کی لیبارٹری سے مہنگے ٹیسٹ کرائیں اور کمیشن کھائیں۔

اگر ملک میں دال نہیں گلتی اور کوئی سینئر اوپر نہیں آنے دیتا تو پریشانی کی قطعاً ضرورت نہیں، عرب ممالک میں جائیں، یہاں سے چھٹی لے جائیں اور ریال درہم اور دینار کو ضربیں دیتے زندگی گزار دیں۔ اگر یہ بھی پسند نہیں ہے کہ عرب ممالک میں پابندیاں بہت ہیں تو مغربی ممالک بھی تو ہیں ذہن کی کریم اس شعبے میں جاتی رہی ہے اور آج تک اس کا رجحان کم نہیں ہوا۔ اچھے بھلے ڈاکٹر تو ہر جگہ ہوسکتے ہیں، اگر کوئی زیادہ فیس نہیں دے سکتا تو اس کے لئے سستا ڈاکٹر تو ہونا چاہیے، جو ملک سے باہر چلے جاتے ہیں آخر وہ بھی تو زر مبادلہ بھیج کر ملک کی خدمت ہی کررہے ہیں۔

 باقی رہی دوائی مافیا، ٹیسٹ مافیا اور آپریشن مافیا میں شامل ڈاکٹروں کی بات تو ضابطہ اخلاق اور سخت قوانین سے ان کی اصلاح ممکن ہے۔ آخر بیرون ملک جاکر بھی تو یہی ڈاکٹر مثالی مسیحائی کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ڈاکٹروں کو قتل کرنا شروع کردیاجائے۔ صرف سندھ میں بھتے کے نام پر شیعہ سنی کے نام پر اور پسند ناپسند کے نام پر 21 ڈاکٹر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ان 21 انسانوں نے کتنی راتیں پڑھ کر گزاری ہوں گی، کتنے ہزار طلبہ کو میرٹ میں شکست دی ہوگی، قدرت نے ان کے ہاتھ میں کتنی شفاء دی ہوگی کہ یہ مشہور و معروف ہوئے اور ٹارگٹ کلر کو یہی نظر آئے۔ میرا ٹارگٹ کلرز سے یہ کہنا ہے کہ یہ ڈاکٹر اس ملک کے بہترین دماغوں میں سے تھے۔

 ان کے بھی خواب ہوں گے، ان کے بھی والدین ہوں گے جنہوں نے نہ جانے کتنے جتن کرکے انہیں پڑھایا ہوگا۔ ان کے بھی بچے ہوں گے جو والد کی راہ تکتے ہوں گے، ان کو شیعہ ڈاکٹر اورسنی ڈاکٹر مت شمار کرو کیونکہ طبیب مریض سے اس کا مذہب نہیں پوچھتا اس کے لئے سب مریض برابر ہوتے ہیں۔ اس طرح مریض کے لئے ڈاکٹر صرف مسیحا ہے اور جو مشورہ اس نے دے دیا وہ اس نے ضرور ماننا ہے۔ 

خدارا اس مقدس رشتے کو اپنے تعصبات کی بھینٹ مت چڑھاؤ۔ آخر تمہیں بھی تو زندگی میں ڈاکٹر سے واسطہ پڑنا ہے یہ نہ ہو کہ لوگ ڈاکٹر بننا چھوڑ دیں جو بن چکے ہیں وہ ہجرت کرجائیں اور قوم نیم حکیموں اور عطائیوں کے ہتھے چڑھ جائے، ٹارگٹ کلرز کو اپنے بوڑھے والدین کے لئے، اپنے دودھ پیتے بچے کے لئے، اپنی بیوی کے لئے اور مقابلے میں زخمی ہونے کے بعد اپنے لئے ڈاکٹر کی ضرورت ہو اور ڈاکٹر نہ ملے۔

خالد حسن

Post a Comment

0 Comments