Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

14 اگست کو کیا ہو گا ؟


نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ کی پاک ذات جانتی ہے لیکن بزرگوں کا کہنا ہے کہ بری نیت انسان میں خوف پیدا کر دیتی ہے اور خوفزدہ انسان اکثر اوقات غلط فیصلے کر ڈالتے ہیں۔ اگر حکمران خوفزدہ ہو جائیں تو ان کے غلط فیصلوں کی سزا پوری قوم کو بھگتنی پڑ جاتی ہے۔ اکثر حکمران اپنے غلط فیصلوں کو آئین کے عین مطابق قرار دیتے ہیں لیکن نیت کی خرابی کے باعث درست آئینی فیصلے بھی منفی سیاسی نتائج کو جنم دیتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں فوج کو بلانا آئینی لحاظ سے ایک درست فیصلہ ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 245 کے تحت فوج کو بلانا ایک غلط سیاسی فیصلہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ حکومت فوج کے ذریعہ 14 اگست کو اسلام آباد میں عمران خان کے آزادی مارچ کو روکنا چاہتی ہے ۔ حکومت کے وزرا کا دعویٰ ہے کہ فوج کو بلانے کا فیصلہ عمران خان کے آزادی مارچ کے اعلان سے بہت پہلے کر لیا گیا تھا اور یہ کہ فوج کو بلانے کا اصل مقصد وفاقی دارالحکومت کو 
دہشت گردی سے محفوظ رکھنا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کو بلانے کا اصل مقصد دہشت گردی کے خطرات
 سے نمٹنا ہے تو پارلیمینٹ کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ وہ جماعتیں جو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کر رہی ہیں انہیں اسلام آباد میں فوج بلانے کا فیصلہ غلط کیوں نظر آ رہا ہے؟ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے فوج کو غلط نہیں کہہ رہے بلکہ فوج کو بلانے والوں کی نیت پر شک کر رہے ہیں۔ کچھ آئینی ماہرین یہ بھی یاد دلا رہے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران ساتویں آئینی ترمیم کے ذریعہ دفعہ 245 میں یہ شق شامل کی کہ بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے دوران وفاقی حکومت سول انتظامیہ کی مدد کیلئے فوج کو طلب کر سکتی ہے ۔ یہ آئینی ترمیم 21 اپریل کو منظور ہوئی اور چند دن کے بعد لاہور میں قومی اتحاد کے جلوسوں کو روکنے کیلئے فوج کو طلب کر لیا گیا ۔ قومی اتحاد کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کیخلاف تحریک چلائی جا رہی تھی ۔25 اپریل 1977ء کو قومی اتحاد میں شامل ایک جماعت کے سربراہ ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے ایک خط جاری کیا جس میں فوجی افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو حکومت نے الیکشن میں دھاندلی کی ہے لہٰذا ایک غیر قانونی حکومت کی حفاظت کرنا فوج پر لازم نہیں۔ پھر جب لاہور میں ایک جلوس روکنے کیلئے فوج کو فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی افسران نے فائرنگ سے انکار کر دیا۔ اس بحران کا نتیجہ مارشل لا کی صورت میں نکلا اور یہی وہ مارشل لا تھا جس کے منفی نتائج آج بھی بھگتے جا رہے ہیں۔

1977ء میں دفعہ 245 کے تحت فوج کو بلانا آئینی طور پر درست فیصلہ تھا لیکن اس درست آئینی فیصلے کے سیاسی نتائج غلط تھے ۔ 2014ء میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ انہوں نے 14 اگست کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور نواز شریف حکومت کی مخالف کچھ جماعتوں نے انکی حمایت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 245 کا نفاذ انہیں روکنے کی کوشش ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسلام آباد کو دہشت گردی کے ممکنہ خطرے سے بچانے کا تاثر بھی دیدیا اور اگر 14 اگست کو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی ذمہ داری سے بچ نکلنے کا راستہ بھی تلاش کر لیا ۔ تاہم یہ خبر بھی زیر گردش ہے کہ 245 کے اختیار کا مطالبہ خود فوجی قیادت نے کیا تھا کیونکہ یہ اطلاعات ملی تھیں کہ رمضان المبارک کے اختتام پر ملک کے اہم شہروں میں دہشت گردی کے واقعات شروع ہو سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ عمران خان انتخابی اصلاحات نہیں چاہتے بلکہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں ۔یہ خاکستار پرویز رشید صاحب سے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہے کہ تختہ الٹنا ایک غیر سیاسی اور غیر آئینی اصطلاع ہے۔ تختہ الٹنے کا مطلب ہے مارشل لا لگانا لیکن عمران خان ایک سے زائد بار مارشل لا کی مخالفت کر چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے کچھ سیاسی اتحادی فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے درپے ہیں لیکن عمران خان کو مارشل لا کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

عمران خان کی طرف سے 14 اگست کے دن اسلام آباد میں دھرنے کے اعلان کی ٹائمنگ اور ان کے مطالبات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن عمران خان سے مارشل لا کی حمایت کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ مارشل لا نواز شریف کو ایک نئی سیاسی زندگی اور عمران خان کو سیاسی موت سے ہمکنار کرے گا ۔ عمران خان سے کہا جا رہا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفوں کی دھمکی دیکر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے ۔نئے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کی جائیں ۔ یہ اصلاحات صرف اور صرف منتخب پارلیمینٹ کے ذریعہ ممکن ہیں ۔تحریک انصاف کے کئی رہنمائوں کا خیال ہے کہ 14 اگست کے دھرنے کا اختتام انتخابی اصلاحات کے ایک پیکج پر کر دیا جائے تو یہ بہت بڑی سیاسی کامیابی ہو گی ۔ پھر پارلیمینٹ کو چھ ماہ یا ایک سال کا ٹائم فریم دیا جا سکتا ہے اس عرصے میں انتخابی اصلاحات نہ ہوں تو پھر ایک زوردار تحریک چلائی جا سکتی ہے جس میں پیپلز پارٹی سمیت دیگر اہم جماعتیں بھی شامل ہو جائیں گی۔

اتوار کی صبح تحریک انصاف کے ایک رہنما نے ناشتے کی میز پر کہا کہ ملک میں مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟فرمانے لگے کہ پہلی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف مارشل لا کو سپورٹ نہیں کرے گی ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پروفیشنل سولجر ہیں وہ اپنی وردی پر سیاست میں مداخلت کا داغ نہیں لگنے دیں گے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ مارشل لا کی توثیق نہیں کریگی۔

میں نے کہا کہ تحریک انصاف کے کچھ مخالفین کا الزام ہے کہ عمران خان کچھ خفیہ ہاتھوں کے ذریعہ استعمال ہو رہے ہیں اور یہ خفیہ ہاتھ نواز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں ۔ تحریک انصاف کے رہنما نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ اگر عمران خان خفیہ ہاتھوں کا کھلونا ہوتا تو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کر رہا ہوتا ۔ خفیہ ہاتھ جانتے ہیں کہ عمران خان ڈکٹیشن نہیں لیتا اور اگر وہ وزیر اعظم بن گیا تو ایک دفعہ پھر طالبان سے مذاکرات شروع کر دے گا لہٰذا یہ خفیہ ہاتھ عمران خان کو کبھی وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے ۔ اس دلیل میں کافی وزن تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان آنے والے دنوں میں حکومت کے استعفے کا مطالبہ کر دیں لیکن اگر حکومت 14 اگست سے پہلے پہلے انتخابی اصلاحات کے پیکج پر تحریک انصاف سے مذاکرات شروع کرنے میں کامیاب ہو جائے اور 14 اگست کو اس پیکج کا اعلان ہو جائے تو یہ یوم آزادی کا بہت بڑا تحفہ ہو گا اور اگر حکومت نے خوفزدہ ہو کر مزید غلط فیصلے کر دیئے تو پھر اس حکومت کیلئے اصل خطرہ عمران خان نہیں بلکہ یہ حکومت اپنے لئے خود خطرہ بن جائے گی ۔

حامد میر
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 

Post a Comment

0 Comments