جوہری ہتھیار بنانے کے لیے افزودہ یورینیم کی کافی مقدار حاصل کرنے کے لیے ہزاروں سنٹری فیوجز کی ضرورت ہوتی ہے، دنیا میں صرف چند ہی ممالک کے پاس ایسی تنصیبات موجود ہیں، جو بہت وسیع اور مہنگی ہوتی ہیں۔ غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ایران نے حالیہ برسوں میں انتہائی افزودہ یورینیم جسے ’بم گریڈ کے قریب‘ یعنی بم کے قریب معیار کا مواد کہا جاتا ہے، کی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر حملہ کیا، صہیونی ریاست کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کیا گیا تھا، ایک ایسا مقصد جس سے تہران انکار کرتا ہے۔ تاہم، جوہری ہتھیار بنانا اور اسے ہدف تک پہنچانا کئی پیچیدہ مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔
یورینیم اور افزودگی کا عمل جوہری بم کا بنیادی جزو افزودہ یورینیم یا پلوٹونیم ہوتا ہے، جو یورینیم کو جلانے کے عمل سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یورینیم ایک نسبتاً عام معدنیات ہے، لیکن عالمی نیوکلیئر ایسوسی ایشن کے مطابق دنیا کی 85 فیصد سے زائد یورینیم پیداوار صرف 6 ممالک (قازقستان، کینیڈا، آسٹریلیا، نمیبیا، نائجر اور روس) سے حاصل ہوتی ہے۔
قدرتی یورینیم 2 بنیادی اقسام پر مشتمل ہوتا ہے۔ یورینیم 238 (یو-238)، جو 99.3 فیصد ہوتا ہے یورینیم 235 (یو-235)، جو باقی 0.7 فیصد ہوتا ہے۔ صرف (یو-235) جسے ’فِسائل یورینیم‘ کہا جاتا ہے، جوہری ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب (یو-235) کی مقدار کو بڑھا کر اتنا بنایا جاتا ہے کہ وہ جوہری بم کے لیے ایندھن فراہم کر سکے، اس عمل کو افزودگی کہا جاتا ہے۔ پہلے، یورینیم کی کان سے حاصل شدہ معدنیات کو پیس کر سلفیورک ایسڈ کے ساتھ دھویا جاتا ہے، پھر، زیر زمین پانی اور آکسیجن کو چٹان میں داخل کیا جاتا ہے تاکہ یورینیم نکالا جا سکے ۔ اسے خشک کرنے کے بعد ایک ٹھوس مادہ حاصل ہوتا ہے جسے ’یلو کیک‘ کہا جاتا ہے، اسے بعد میں یورینیم ہیکسا فلورائیڈ میں تبدیل کیا جاتا ہے اور پھر گیس کی شکل میں گرم کیا جاتا ہے تاکہ افزودگی کے عمل کے لیے تیار کیا جا سکے۔
یو-235 اور یو-238 کی علیحدگی اور سنٹری فیوجز کا عمل یو-238 (بھاری) کو یو-235 (ہلکے) سے الگ کرنے کا سب سے عام طریقہ سنٹری فیوجز کا استعمال ہے، جو یورینیم کو انتہائی تیز رفتاری سے گھماتے ہیں۔ افزودہ یورینیم کی مطلوبہ مقدار حاصل کرنے کے لیے ہزاروں سنٹری فیوجز درکار ہوتے ہیں, صرف چند ہی ممالک کے پاس ایسی تنصیبات موجود ہیں، جو نہایت وسیع اور مہنگی ہوتی ہیں۔ امریکا میں قائم جوہری پھیلاؤ پر کام کرنے والے ادارے انسٹیٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی کے مطابق ایران کے پاس تقریباً 22 ہزار سنٹری فیوجز ہیں، جو 2015 کے جوہری معاہدے میں طے شدہ تقریباً 6 ہزار 100 کی حد سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر یورینیم میں یو-235 کی مقدار 3.5 سے 5 فیصد ہو تو اسے جوہری بجلی گھر کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 20 فیصد تک افزودہ یورینیم طبی مقاصد جیسے کہ کینسر کی کچھ اقسام کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے والے آئسوٹوپس کی تیاری میں استعمال ہو سکتا ہے۔ جوہری بم بنانے کے لیے افزودگی کو 90 فیصد تک لے جانا ضروری ہوتا ہے، اس سطح کو ’ویپنز گریڈ‘ کہا جاتا ہے، جو اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ جوہری دھماکہ شروع کرنے والی ’چین ری ایکشن‘ کے لیے درکار ’کریٹکل ماس‘ (وہ مقدار جو ایٹمی دھماکے کو ممکن بناتی ہے)، مہیا کر سکے۔
نیوکلیئر فِشن بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مطابق ایک جوہری ہتھیار بنانے کے لیے 42 کلوگرام انتہائی افزودہ یورینیم درکار ہوتا ہے۔ اگر ایران کے پاس موجود ’نیئر ویپنز گریڈ‘ مواد کو مزید صاف کیا جائے، تو نظری طور پر وہ 9 سے زائد جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جوہری بم نیوکلیئر فِشن کے اصول پر کام کرتے ہیں، جہاں ایٹمز کو توڑ کر توانائی خارج کی جاتی ہے، اور یہ ایک انتہائی تباہ ’چین ری ایکشن‘ پیدا کرتا ہے۔
میزائل کے ذریعے بم کی ترسیل کسی جوہری بم کو میزائل کے ذریعے ہدف تک پہنچانا ایک الگ اور پیچیدہ چیلنج ہوتا ہے، اس کے لیے 2 مہارتیں ضروری ہوتی ہیں۔ بیلسٹکس پر مکمل عبور حاصل کرنا (یعنی وہ تمام حسابات جو وارہیڈ کو اپنے ہدف تک پہنچانے میں مدد دیتے ہیں) نیوکلیئر چارج کو اس حد تک چھوٹا بنانا کہ اسے میزائل کے وارہیڈ پر نصب کیا جا سکے۔ تاریخ میں اب تک صرف 2 مرتبہ ایٹمی بموں کا استعمال کیا گیا ہے، پہلا 6 اگست 1945 کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرایا گیا اور دوسرا 3 دن بعد ناگاساکی پر گرایا گیا، ان دونوں حملوں میں مجموعی طور پر تقریباً 2 لاکھ 14 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
0 Comments