Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

احترام لازم ہے لیکن جماعتِ اسلامی الوداع

زندگی میں پہلا فری ہسپتال دیکھا تو اسے جماعتِ اسلامی کے ایک ڈاکٹر چلاتے تھے۔ پہلی دفعہ لائبریری دیکھی تو اسکے لائبریرین جماعتِ اسلامی کے رفیق تھے۔ زندگی میں پہلی دفعہ سکول میں کوئی کارنامہ کرنے پر انعام ملا تو وہ مولانا مودودی کی ایک کتاب تھی۔ لاہور میں ایک دوست کے دونوں ہاتھوں پر پلاسٹر چڑھا دیکھا تو اس کے ہاتھ اسلامی جمعیت طلبہ نے توڑے تھے۔ جب شروع میں صحافت سے رجوع کیا تو نام نہاد لبرل صحافیوں نے خبردار کیا کہ پاکستانی اخباروں کے نیوز روم جماعتِ اسلامی کے تربیت یافتہ سب ایڈیٹروں سے بھرے پڑے ہیں۔

جماعتِ اسلامی کے امیر میاں طفیل کو بھٹو کی پھانسی اور حلوے کی دیگوں کی یادوں میں گم دیکھا۔ قاضی حسین احمد کو ظالمو قاضی آ رہا ہے، ظالمو قاضی چھا رہا ہے کہ نعروں کے قوم کے دلوں کو گرماتے دیکھا۔ جناب منور حسن کی شوخ مسکراہٹ اور جمہوریت نہیں قتال چاہیے کے جلوے دیکھے۔ حضرت سراج الحق کا ٹیلیویژن پر چھوٹا سا گھر دیکھا، ان کی ترچھی ٹوپی کا طنطنہ دیکھا۔ اگر فین بننے میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ یوں پوری ہوئی کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے جو اپنے فیصلوں میں خلیل جبران اور گاڈ فادر کے حوالے دے کر ادبی چاشنی پیدا کرتے ہیں، فرمایا کہ اگر پاکستان کی پارلیمان میں صادق اور امین والا قانون نافذ کیا جائے تو صرف سراج الحق ہی پارلیمان میں بیٹھے نظر آئیں گے۔ فوجی آمروں کو چھوڑ کر عدالتِ عالیہ نے کسی اور کو ایسا کیریکٹر سرٹیفیکیٹ دیا ہے تو مجھے پتہ نہیں۔

ایسی اٹھان اور ایسی شان کے بعد لاہور میں ایک ضمنی انتخاب ہوتا ہے اور جماعتِ اسلامی کے امیدوار کو کتنے ووٹ ملتے ہیں۔ احترام پیشِ نظر ہے، دل بھی بیٹھا سا جاتا ہے لیکن 592! حضور اس سے تو زیادہ لوگ پلّے سے ٹکٹ خرید کر نسیم وکی کا ڈرامہ دیکھنے چلے آتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ووٹ آپ کو لاہور شہر میں ملے ہیں جہاں پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں نصف صدی سے جمعیت کے بھائی بگڑے ہوئے طالب علموں کی ٹانگیں توڑ کر ان کی اخلاقی تربیت کر رہے ہیں۔ جہاں ہر وقت ہر بہن کی عفت و حیا پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے بعد بھی تین لاکھ میں سے 592 ووٹ؟ 

اور بازی کون لے گیا؟ دو بڑوں کو چھوڑیں۔ ایک ایسا عالمِ دین جس کا نام بھی ایک سال پہلے تک کوئی نہیں جانتا تھا۔ دوسرا امیدوار ایک مایوس مجاہد جس کی جماعت ابھی بنی ہی نہیں۔ احترام لازم ہے لیکن خیال آتا ہے کہ اگر مودودی مرحوم حیات ہوتے تو منصورہ میں پوری شوریٰ کے کان نہ پکڑوائے ہوتے؟ بزرگوں سے سنا ہے کہ جب مولانا مودودی نے سنہ پچاس کے عشرے میں جماعت کو ایک دینی اصلاحی تحریک سے سیاسی جماعت بنانے کا سوچا تو ان کے کچھ سینیئر ساتھی اختلاف کر کے علیحدہ ہو گئے۔ مولانا نے خود بھی فرمایا کہ ان کا فیصلہ ایک لوہے کا چنا ہے جو بہرحال چبانا ہے۔ گذشتہ 60 سال میں جماعتِ اسلامی نے پوری قوم کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی لوہے کے چنے چبوا دیے لیکن یہ انتخابی سیاست والا چنا اس کے اپنے گلے میں اٹکا ہوا ہے۔

جماعتِ اسلامی نے تربیت کر کے جن جوانوں کو پہاڑوں پر چڑھایا تھا وہ کہیں غاروں میں گھس گئے۔ جنھوں نے تربیت حاصل کر کے سماج کو بدلنا تھا، انھوں نے فری ہسپتال چھوڑ کر ایئرکنڈیشنڈ اسلامی سکول کے نیٹ ورک بنا کر مال کمانا شروع کر دیا۔ جنھوں نے سیاست کے میدان میں آ کر اپنے کردار کی بدولت مثال قائم کرنی تھی وہ بھی پروٹوکول اور ٹھیکوں کے چکر میں آ کر دوسرے بھائیوں جیسے بن گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ جماعت سے تربیت پانے کے بعد جن مشاہیر نے اپنا راستہ اپنایا وہ صحیح تھے۔ امین الدین اصلاحی، ڈاکٹر اسرار احمد، حسین حقانی، کیسے کیسے ہیرے جماعت نے اس ملک کو دیے۔ لگتا ہے جو جماعت سے پوری تربیت حاصل کر لیتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ اسے خیرباد کہہ دے۔ 

احترام لازم ہے لیکن 592 کا ہندسہ دیکھ کر دل بیٹھا سا جاتا ہے۔ کیا وہ وقت آ گیا ہے؟ مودودی صاحب نے کبھی اپنے آپ کو ولی یا پیمبر نہیں کہا۔ ہو سکتا ہے کہ 60 سال پہلے کیے گئے فیصلے میں کوئی سقم رہ گیا ہو۔ آج اس ملک کو جتنی فری ہسپتالوں کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ غریب عوام کو جتنی مفت سکولوں کی آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی اور دین کی دعوت کا کام تو ابد تک جاری رہنا ہے۔ تو کیا ہی اچھا ہو کہ اگر جماعت اگلے الیکشن میں پھر ضمانتیں ضبط کروانے کی بجائے فلاحی کاموں پر توجہ دے۔ جماعت ہر سال عورتوں کے لیے یومِ حیا مناتی ہے اس سال مردوں کے لیے بھی ایک یومِ حیا کا اعلان کرے۔
شدید ضرورت ہے۔۔۔!.

محمد حنیف
صحافی، تجزیہ کار

بشکریہ بی بی سی اردو
  


Post a Comment

0 Comments