2023 فلسطینیوں کیلئے بدترین سال ثابت ہوا اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت سال کے آخری دن تک جاری رہی، جس میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 23 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اس دوران غزہ اسرائیل جنگ بندی کی تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور امریکہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق استعمال کر کے اسرائیل کا ساتھ دیتا رہا جس سے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی غزہ اسرائیل جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں۔ اسرائیلی فوج کا ترجمان پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ غزہ جنگ 2024ء میں بھی جاری رہے گی اور اسرائیل بہت جلد غزہ کا سیکورٹی کنٹرول سنبھال لے گا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل پر 5 مستقل ارکان کا غلبہ ہے اور یہ کونسل اُس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لے سکتی جب تک مستقل ارکان کسی قرارداد پر متفق نہ ہوں۔ ان مستقل ارکان میں شامل امریکہ، فرانس اور برطانیہ حماس، اسرائیل جنگ بندی کیلئے آمادہ نہیں اور ان ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر دیتا ہے تو قرارداد بے معنی ہو جاتی ہے۔ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے یہ صاف ظاہر ہے کہ صہیونی ریاست کا ہدف غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے یہاں یہودی بستیاں بسانا ہے اور اس سازش میں امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک بھی شامل ہیں۔
ایسی صورتحال میں اسرائیل عالمی تنہائی کے باوجود امریکی تعاون کے بل بوتے پر غزہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور جنگ کو طول دینے کیلئے امریکہ نے گزشتہ دنوں اسرائیل کو 150 ملین ڈالر کا گولہ بارود اور فوجی ساز و سامان سپلائی کرنے کی منظوری دی ہے تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رہے لیکن امریکی اشیرباد کے باوجود اسرائیل کے پاس اب تک ایسا کوئی پلان نہیں کہ وہ حماس کو کس طرح ختم کرے جسکے سیاسی و نظریاتی رابطے صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ہیں۔ ایسے میں جب غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے، یہ امر قابل ستائش ہے کہ جنوبی افریقہ نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا ہے جس میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا مقصد فلسطینی قوم اور نسل کو تباہ کرنا ہے۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ فلسطینیوں کیلئے اسرائیلی پالیسیاں نسل کشی کے مترادف ہیں تاہم اسرائیلی وزیر خارجہ نے جنوبی افریقہ کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں بوسنیا جنگ کے دوران مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم اور نسل کشی کے مجرم یوگوسلاویا کے سابق جرنیل 72 سالہ سلوبودان پرالجک کو عالمی عدالت انصاف نے بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مجرم قرار دیا تھا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ سلوبودان پرالجک کے خلاف بوسنیا جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ زیر سماعت تھا اور عالمی عدالت کی جانب سے عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد اس نے عدالت میں ہی زہر پی کر خود کشی کرلی تھی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ کسی اسلامی ملک نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر نہیں کیا اور یہ مقدمہ ایک غیر اسلامی ملک کی طرف سے دائر کیا گیا ہے۔ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی پر اسلامی ممالک اور ان کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے بالکل خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ تنظیم میں شامل کئی ممالک امریکی، یورپی دباؤ اور اسرائیل سے اپنے تجارتی مفادات کے باعث آواز یا کوئی سخت ایکشن لینے کے حق میں نہیں تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے عوام اسرائیل کے خلاف کھل کر سامنے آگئےہیں اور انفرادی طور پر مسلمانوں کی جانب سے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ایک اچھی حکمت عملی ثابت ہوئی ہے جس سے امریکہ اور اسرائیل کی معیشت کو کافی دھچکا لگا ہے اور انکی کمپنیوں کی مصنوعات کی سیلز آدھے سے زیادہ گرچکی ہیں۔
میرے خاندان کے کچھ چھوٹے بچوں نے بھی اسرائیلی کمپنیوں کی اشیاء کھانے سے انکار کر دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ وہ اس کمپنی کی اشیاء استعمال نہیں کریں گے جن کا تعلق اسرائیل سے ہو۔ اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک بالخصوص مراکو جہاں گزشتہ دنوں وزٹ پر گیا تھا، وہاں پہلے غیر ملکی فاسٹ فوڈ کے حصول کیلئے قطاریں لگی ہوتی تھیں مگر آج وہ ویران ہیں۔ اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو فلسطینی عوام کسی قسم کی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے پاس اتنے جنگی وسائل نہیں کہ وہ اسرائیل جیسی قوت، جس کا امریکہ ساتھ دے رہا ہے، کا مقابلہ کر سکیں جبکہ فلسطینیوں کے پاس کوئی باقاعدہ فوج بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسرائیل کی طرح جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے غزہ مکمل تباہ و برباد ہو چکا ہے جبکہ دیگر فلسطینی علاقے بھی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہو رہے ہیں اور ان علاقوں کے فلسطینی عوام ترک وطن پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گونتویریس نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کی یہ کوشش ہے کہ غزہ کی صورتحال اس قدر بگڑ جائے کہ وہاں سے بڑے پیمانے پر فلسطینی سرحد پار نقل مکانی کر جائیں تاکہ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کے منصوبے میں کامیاب ہوسکے۔
اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو اسرائیل کے خلاف جہاد کیلئے ایک زرخیز زمین (Breeding Ground) بنا دیا ہے جہاں شہداء کے لواحقین جوق درجوق حماس کا حصہ بن رہے ہیں اور 23 ہزار شہید فلسطینیوں کے خاندان کے افراد اپنے پیاروں کی شہادت کا بدلہ لینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ اس طرح مستقبل میں اسرائیل کے خلاف جنگ گوریلا وار میں تبدیل ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل، فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کر کے یہ سوچ رہا ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا مگر وہ یہ بھول گیا ہے کہ مستقبل میں اِن 23 ہزار شہداء کے خاندان کے بچےاپنے پیاروں کے قاتل اسرائیل سے قتل کے انتقام کا جذبہ لے کر جوان ہونگے اور اِس طرح اسرائیل کے خلاف جنگ ہمیشہ جاری رہے گی اور اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضے کا خواب کبھی پورا نہ ہو گا۔
0 Comments