Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

حکومت آئی ایم ایف کے سامنے بے بس

آئی ایم ایف مذاکراتی ٹیم کے حکومت کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے میں بیرونی فنانسنگ اور پاور سیکٹر خسارے پر تشویش پائی جاتی ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف، حکومت کو نہایت ٹف ٹائم دے رہی ہے اور حکومت کے پاس ان شرائط کو ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں آئی ایم ایف نے بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کا 4.9 فیصد رکھنے کا ہدف دیا ہے جبکہ معاشی اشاریوں کو دیکھتے ہوئے رواں مالی سال بجٹ خسارہ 6.5 سے 7 فیصد تک جا سکتا ہے جس کیلئے آئی ایم ایف نے 900 ارب روپے جو پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصد بنتا ہے، خسارے کو کم کرنے کیلئے شرائط حکومت کو پیش کر دی ہیں جنہیں حکومت نے کافی حد تک مان لیا ہے جس میں ایکسپورٹ شعبے کو 110 ارب روپے کی بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ، پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 855 ارب روپے کی وصولی کا ہدف دیا ہے جس کیلئے حکومت کو پیٹرول اور ڈیزل پر مجموعی 50 روپے فی لیٹر PDL لگانا ہو گا۔ آئی ایم ایف نے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے 500 ارب روپے کے بجٹ خسارے، کسان پیکیج اور ٹیوب ویل سبسڈی کو مان لیا ہے لیکن آئی ایم ایف جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے پر آمادہ نہیں۔ 

اس کے علاوہ گردشی قرضوں میں نظرثانی ڈیٹ مینجمنٹ پلان کے ذریعے کمی اور حکومتی اخراجات میں 600 ارب روپے کی کمی تاکہ زیادہ سے زیادہ مالی خسارہ 400 سے 450 ارب روپے رہے جس کیلئے حکومت نے سگریٹ، مشروبات، جائیداد کے لین دین، بیرون ملک فضائی سفر پر ودہولڈنگ ٹیکسز، امیر طبقے، امپورٹس اور بینکنگ سیکٹر کے منافع پر سیلاب ٹیکس لگانے پر آمادگی ظاہر کی ہے جس پر منی بجٹ کے ذریعے عملدرآمد متوقع ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے 30 جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب 20 کروڑ ڈالر تک لانا، امپورٹ پر عائد پابندیوں کا خاتمہ LCs کھولنے کیلئے 4 ارب ڈالر کی فراہمی اور بجلی گیس کے نرخوں میں 50 فیصد اضافے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو اس سال کا ریونیو ہدف 7470 ارب روپے دیا ہے جس کی ایف بی آر نے یقین دہانی کرائی ہے۔ ڈالر کے انخلا کو روکنے کیلئے اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر نے بیرون ملک سفر کرنے والے افراد کیلئے زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کرنسی بیرون ملک لے جانے کی حد کم کر کے 5000 ڈالر فی وزٹ اور 30000 ڈالر سالانہ مقرر کر دی ہے۔ 

اس وقت پاکستان کی معیشت کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سیاسی عدم استحکام، مہنگائی یعنی افراط زر 32 فیصد، بیرونی ذخائر کم ہو کر 3 ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح تک آجانا، ملکی ایکسپورٹس میں 18 فیصد، ترسیلات زر میں 10 فیصد، روشن ڈیجیٹل اکائونٹ (RDA) میں نومبر 2020ء سے مسلسل کمی، روپے کی قدر 20 فیصد کمی سے 277 سے 280 روپے تک پہنچ جانا اور موجودہ معاشی صورتحال میں ریونیو وصولی کے ہدف کو پورا کرنا ایک ٹاسک ہے جس سے ملک میں ایک معاشی بحران پیدا ہوا ہے۔ ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے امپورٹ پر پابندیاں لگا کر سپلائی چین متاثر ہوئی ہے جس کا فائدہ ذخیرہ اندوز اشیاء کی قیمتیں بڑھا کر اٹھا رہے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بابائے قوم قائداعظم نے ایک زرعی صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھا لیکن ہم نے زراعت اور صنعت کے شعبوں کو نظر انداز کر کے آج ملک کو ٹریڈنگ اسٹیٹ بنا دیا ہے۔ ہمیں دوبارہ پاکستان کی اصل طاقت زراعت کے شعبے کو ترجیح دینا ہو گی۔

یہ افسوس کی بات ہے کہ پہلے جن زرعی اجناس میں ہم نہ صرف خود کفیل تھے بلکہ ایکسپورٹ بھی کرتے تھے، آج ہم انہیں امپورٹ کر رہے ہیں جس کیلئے ہمارے پاس ڈالر نہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے اور ڈالر روپے کے ریٹ کو مصنوعی طریقے سے روکنے سے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں 30 روپے کے فرق کی وجہ سے 1.5 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ہنڈی اور حوالہ سے بھیجی گئیں جس سے ملکی ترسیلات زر میں 1.5 ارب ڈالر کی کمی ہوئی جبکہ ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کے مدنظر برآمدات کی رقوم باہر روکنے سے بھی ڈیڑھ ارب ڈالر ایکسپورٹ کم ہوئی۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام جاری رہتا تو تقریباً 3 ارب ڈالر کی کمی کو روکا جاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے ہمیں ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے ملنے والے فنڈز نہیں روکے جاتے اور دوست ممالک کے سافٹ ڈپازٹس کو رول اوور کرنے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام بحالی کی شرط نہ لگائی جاتی۔ 

قارئین! آئی ایم ایف کے معاہدے سے مہنگائی کا ایک طوفان آجائے گا جس کا مقابلہ کرنا غریب آدمی کیلئے نہایت مشکل ہو گا لیکن اگر حکومت آئی ایم ایف کی مطلوبہ اصلاحات کے ذریعے اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دے کر اور جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے پہلے مرحلے میں موجودہ 10 فیصد سے 15 فیصد تک لے آتی ہے تو اس کے ملکی معیشت پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ غریب عوام کی قربانیوں کے پیش نظر اگر ہم ملک میں کرپشن کے خاتمے، گڈ گورننس، شاہ خرچیوں اور پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر پابندی اور آمدنی کے مطابق حکومتی اخراجات میں کمی سے مستقبل میں پاکستان کو بار بار ہاتھ پھیلانے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ بات نہایت تکلیف دہ ہے کہ آج 75 سالوں کے بعد جب ہمارے علاقائی ممالک دنیا میں معاشی رینکنگ میں تیزی سے اوپر جارہے ہیں، ہم ڈیل یا ڈیفالٹ کی باتیں کررہے ہیں۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments