Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پیڑا - ایک گمشدہ تاریخی شہر

کئی صدیاں گم رہنے والے تاریخی شہر پیٹرا بارے جاننے سے پہلے اس کے جغرافیائی پس منظر کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ مملکت اردن، دریا اردن کے مشرقی کنارے واقع مغربی ایشیاء کا ایک اہم ملک ہے جس کے مشرق میں سعودی عرب اور مغرب میں اسرائیل واقع ہیں۔ اردن کا زیادہ تر حصہ صحرائے عرب پر مشتمل ہے۔ تاریخی اعتبار سے اردن کو یہ انفرادیت حاصل رہی کہ یہاں بہت ساری تہذیبیں بستی اجڑتی رہی ہیں۔ اردن پر مصری فرعونوں کا قبضہ بھی رہا اس کے علاوہ یہاں مقدونیائی، یونانی، رومن، بازنطینی اور عثمانی ثقافت کے ادوار بھی ہو گزرے ہیں۔ تاہم ساتویں صدی عیسوی کے بعد یہاں عرب مسلمانوں کی ثقافت کے آثار گہرے ہونے لگے۔

پیٹرا کا عروج کا زمانہ
اب تک کے دستیاب ثبوتوں کے مطابق پیٹرا 9000 قبل مسیح میں آباد ہو گیا تھا۔ اور ممکنہ طور پر400 قبل مسیح میں نباطینی یہاں آکر آباد ہو گئے۔ نباطینی دراصل شمالی عرب کے خانہ بدوش عرب قبائل تھے جو ایک منفرد تہذیب کا پس منظر رکھتے تھے۔ ان کو عربی میں الابناط بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ پیٹرا کو اردن کا دارلحکومت بنایا۔ اس قدیم تہذیب کے باسیوں کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ جدید عربی رسم الخط انہی کی اختراع تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پیٹرا کے اردگرد کے علاقوں سے تجارت کی شروعات بھی کی۔ یہ اس دور کا ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔ یونانی جیو گرافر سٹریبو کے مطابق پیٹرا اپنے عروج کے اس زمانے میں شمالی دنیا کا سب سے اہم تجارتی مرکز تھا۔ اس دور میں پیٹرا انتہائی طاقت ور ہوا کرتا تھا اور موجودہ اسرائیل تک کاعلاقہ ان کے زیر انتظام تھا۔ بلکہ پہلی صدی عیسوی کے اوائل میں پیٹرا کے لوگوں نے شام پر بھی حکومت کی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق پیٹرا کا سب سے خوبصورت دور 50 قبل مسیح سے 70عیسوی کے درمیان تھا جب پوری دنیا میں یہ علاقہ تجارت کا مرکز گردانا جاتا تھا۔

اسی لئے محقیقین اس دور کو پیٹرا کا '' سنہری دور‘‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نبطی بادشاہ آریٹس یہاں کا حکمران تھا جسے یونانیوں نے فیلو ڈیمس یعنی '' اپنے لوگوں سے پیا ر کرنے والا ‘‘ کا لقب دیا تھا۔ پیٹرا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پورے خطے میں واحد واٹر سپلائی یعنی نل کے ذریعے پانی کی ترسیل وادیء موسیٰ میں متعارف کرائی گئی تھی۔ پیٹرا شہر سرخ سفید اور گلابی شوخ رنگوں کے ساتھ پتھر کی سنگلاخ چٹانوں پر نقش ونگار سے آراستہ وادیء موسیٰ میں پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ چٹانوں کے منفرد رنگوں کے باعث اسے '' روز سٹی ‘‘ بھی کہتے ہیں جو اپنے قدرتی حسن کی کشش کے باعث ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے اس شہر میں رسائی کیلئے ایک کلومیٹر لمبی '' سک ‘‘ نامی گھاٹی سے گزرنا پڑتا ہے جو سیدھا پہاڑی کے اوپر '' الخزینہ ‘‘ نامی انتہائی پر کشش عمارت تک لیجاتی ہے۔

پیٹرا کو وادیء موسی کیوں کہتے ہیں
جب حضرت موسی ؑ نے فرعون کے ظلم وستم سے تنگ آ کر بنی اسرائیل کے ہمراہ دریا پار کیا تو اس مقام پر آ کر انہوں نے بنی اسرائیل والوں کی پیاس بجھانے کیلئے پتھر پر عصا مارا جس سے دیکھتے ہی دیکھتے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اسی لئے اس علاقے کو وادیء موسیٰ کہا جاتا ہے۔

بیرونی حملے
پیٹرا ہمیشہ سے بیرونی حملوں کی زد میں رہا۔ سکندر یونانی کی وفات کے بعد سکندر کے ایک جرنیل اینٹی گنس نے پیٹرا کو اپنی بادشاہت کا حصہ بنانا چاہا لیکن نبطیوں نے ان کا پیچھا کر کے ان کی فوج کو نیست و نابود کر دیا۔ اسکے بعد ایک مرتبہ پھر اینٹی گنس کے بیٹے نے حملہ کیا جسے نبطیوں نے ناکام بنا دیا۔ اس کے کافی عرصہ بعد پہلی صدی قبل مسیح رومی جنرل مارک انتھونی نے قلو پطرہ کو پیش کش کی کہ میں تمہارے لئے پیٹرا فتح کر سکتا ہوں لیکن اس مرتبہ بھی نبطیوں نے رومی فوج کو مار بھگایا۔

پیٹرا کا زوال
پیٹرا کی اصل طاقت اور اہمیت دو بڑی شاہرائیں تھیں۔ پہلی اہم شاہراہ مشرق اور مغرب یعنی عرب اور خلیج فارس کو بحیرہء روم سے ملاتی تھی جبکہ دوسری شاہراہ جنوب اور شمال یعنی شام اور بحیرہ ء احمر کو آپس میں ملاتی تھی ۔ ذرائع آمدورفت کے ان شاندار منصوبوں کے طفیل اس پورے خطے کی تجارت کا انحصار پیٹرا پر ہی تھا۔ پیٹرا کے حکمرانوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ وہ کبھی زوال کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ جب اچانک رومیوں نے اپنا پرانا روٹ دوبارہ کھول دیا جو پیٹرا کے شمال میں پیٹرا سے کافی دوری پر واقع تھا۔ جسے بعد میں شہنشاہ ڈایا کلیشن کے دور میں تیسری صدی عیسوی کے آس پاس از سر نو فعال کیا۔ یہ شاہراہ دمشق کے شمال میں دریا ئے فرات کے کنارے تک جاتی تھی۔ جس سے دریائی راستوں اور خشکی کے راستوں کی ساری ٹریفک اس شاہراہ پر منتقل ہو گئی جس کی وجہ سے پیٹرا کے خشکی کے رستے یک دم ویران ہو گئے جس سے پیٹرا کی تجارت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا اور تیزی سے ابھرتا یہ تجارتی مرکز ویرانی میں بدل گیا۔ 

پھر جب مسلمانوں نے اپنا مرکز دمشق سے بغداد منتقل کیا تو پیٹرا سے گزرنے والا رستہ بالکل ویران ہو گیا جسے ریت اور مٹی کی دبیز تہوں نے دنیا کی نظروں سے صدیوں اوجھل رکھا۔ تقریباََ سات سو سال بعد پیٹرا کو ازسر نو دریافت کرنے کا سہرا ایک سوئس سیاح جان لوئس برکھا رٹ کے سر ہے جس نے اس گمشدہ شہر کو دوبارہ ڈھونڈ نکالا۔ کہتے ہیں جان لوئس کی دور بین نظریں اس وادی کے ایک مختصر قیام کے دوران جان چکی تھیں کہ یہ وادی ضرور کوئی غیر معمولی ورثہ کی مالک ہے چنانچہ ایک بدو کا روپ دھار کر وہ ایک لمبے عرصے تک شہر کا جائزہ لیتا رہا اور بلاخر اس کا قیاس درست ثابت ہوا اور وہ ایک عالیشان تہذیب کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔

پیٹرا کی عمارتیں
پیٹرا کے اندر جا بجا پتھروں سے تراشے ہوئے بت اور مقبرے موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں اب تک 800 کے لگ بھگ مقبرے دریافت ہو چکے ہیں۔اسکے علاوہ دریافت کی گئی مندرجہ ذیل عمارتیں سیاحوں کی سب سے زیادہ توجہ حاصل کرتی رہی ہیں :

الخزینہ: ایک چٹان پر قائم خوبصورت تاریخی عمارت الخزینہ اپنی پوری آب و تاب سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا ہمیشہ سے مرکز رہی ہے۔ یہ عمارت 30 میٹر اونچی ہے۔ یہاں کے بدوؤں کی روایت کے مطابق اس عمارت میں مصر کے فرعون نے اپنا خزانہ چھپا رکھا تھا۔ جس کے سبب اسے الخزینہ کا نام دیا گیا تھا لیکن درحقیقت یہ عمارت نبطیوں کے بادشاہ اریطس اور اس کی دو ملکاؤں کا مقبرہ ہے۔

الدیر : آگے جا کر الخزینہ سے ملتی جلتی ایک دو منزلہ عمارت ہے۔ جسے '' الدیر‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بارے مقامی لوگوں کی روایت ہے کہ یہ 85 قبل مسیح میں تیار کی گئی تھی اور نبطیوں کی مذہبی کونسل کی عمارت ہے جہاں ان کے مذہبی پیشواؤں کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ بعد میں جب رومیوں نے پیٹرا پر قبضہ کیا, تو انہوں نے اسے اپنے معبد خانے میں بدل دیا۔

تھیٹر گھر
اس سے تھوڑا آگے جائیں تو نبطیوں کے دور کا ایک تھیٹر آتا ہے جس میں تقریبا 3500 لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ ماہرین کے خیال کے مطابق چونکہ پرانے زمانے میں ایسے تھیٹروں کی سیٹوں کی تعداد شہر کی آبادی کے دسویں حصے کے برابر ہوتی تھی لہٰذا اس حساب سے پیٹرا کی آبادی 35000 نفوس کے لگ بھگ ہو گی۔

قصرالبنت : تھوڑا آگے جا کر دائیں جانب رومیوں کے زمانے کا بنا ہوا ایک کلیسا نظر آتا ہے۔ جس کے اب بچے کچے کھنڈرات نظر آتے ہیں۔ اس کلیسا سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک بڑا سا محل نظر آتا ہے جس کو مقامی لوگ '' قصر البنت‘‘ کہتے ہیں۔ اس بارے صدیوں سے ایک کہاوت چلی آ رہی ہے کہ مصر کے فرعوں نے اپنی بیٹی کو دشمنوں سے بچانے کیلئے یہ محل تعمیر کروا کر اس کو یہاں حفاظت کی خاطر منتقل کر دیا تھا۔ جبکہ حقیقت میں یہ نبطی بادشاہوں کا قائم کردہ معبد خانہ تھا۔ الغرض پیٹرا کاشہر اپنی بلند و بالا عمارات اور پہاڑوں کے اندر بنا ئے گئے اپنے محلات و مقابر کی وجہ سے ایک عجوبہ کی حیثیت رکھتا ہے اور چونکہ یہ پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا ہے اسی لئے شاید اس کے کھنڈرات زلزلوں اور گردش ایام کے باوجود محفوظ رہے۔ پیٹرا فن تعمیر اور قدرت کے خوبصورت رنگوں کا ایک ایسا شاہکار ہے کہ 2007 میں مرتب کی گئی '' سات نئے عجائبات عالم ‘‘ کی فہرست میں اسے بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل شہر میں جا بجا بدو گھوڑوں ،اونٹوں اور گدھوں پر سوار نظر آیا کرتے تھے جو پیٹرو کے کھنڈرات میں رہا کرتے تھے۔ چنانچہ اس شہر کی تاریخی حیثیت برقرار رکھنے کیلئے 1985 میں اقوام متحدہ نے ایک معاہدے کے تحت ان بدوؤں کو مختلف مراعات مفت گھر دے کر پیٹرا سے اوپر پہاڑوں پر جا بسایا۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments