دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد برطانوی سامراج کا چراغ گل ہوا۔ امریکا اور سوویت یونین دو بڑی طاقتوں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے، پاکستان امریکا کا اتحادی بن گیا۔ امریکا اور یورپی ممالک نے پاکستان کو اقتصادی امداد دینا شروع کی۔ کولمبو پلان اور دیگر امدادی پروگراموں کے تحت صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ امریکا کا تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ترقی کا فلسفہ یہ تھا کہ ان ممالک میں چھوٹی بڑی صنعتیں قائم کی جائیں، تاکہ ان ممالک کا انحصار صرف درآمدات پر رہے۔ ان صنعتوں کے لیے امریکا اور یورپی ممالک مشینری اور ماہرین فراہم کرے۔ امریکی اقتصادی ترقی کے ماڈل میں بنیادی صنعتی ڈھانچہ کا قیام شامل نہیں تھا۔ امریکی ماہرین اقتصادیات کا کہنا تھا کہ بنیادی صنعتی ڈھانچہ کے لیے ہیوی اسٹیل ملز پاکستان جیسے ممالک کے لیے زیادہ کارآمد نہیں ہیں، امریکی ماڈل کے مطابق ملک میں نجی شعبہ میں فولاد بنانے کے چھوٹے کارخانے قائم کیے گئے۔
دوسری جانب سوویت یونین کے اقتصادی ماہرین اس بات پر زور دیتے تھے کہ تیسری دنیا کے ممالک کو صنعتی ڈھانچہ کو ترقی دینی چاہیے اور اس کے لیے ہیوی اسٹیل ملز کی تعمیر ضروری ہے۔ سوویت یونین کے ماہرین کا استدلال تھا کہ یوں تیسری دنیا کے ممالک کی برآمدات بڑھیں گی اور ان کا بیرونی امداد پر انحصارکم ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ سوویت یونین نے پاکستان ، بھارت، ایران اور مصر وغیرہ کو اسٹیل ملز قائم کرنے کے لیے مکمل امداد کی پیشکش کی، جب جنرل ایوب خان کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کچھ عرصہ کے لیے وزیر صنعت بنے تو انھوں نے چین، سوویت یونین اور مشرقی یورپی ممالک سے صنعتی تعلقات قائم کرنے میں پیش قدمی کی تھی۔ سوویت یونین نے جنرل ایوب خان کی حکومت کو کراچی میں اسٹیل ملز کے قیام کی پیشکش کی تھی مگر جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے ادوار میں اسٹیل ملز کی فائل مختلف وزارتوں میں گردش کرتی رہی۔
صدر ذوالفقارعلی بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی سامراجی دفاعی معاہدے سیٹو اور سینٹو سے علیحدگی اختیار کی اور سوویت یونین سے اسٹیل ملز کے قیام کے معاہدہ کو حتمی شکل دی۔ 30 جون 1973ء پاکستان کی تاریخ کا یادگار سال ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی میں اسٹیل ملزکا سنگ بنیاد رکھا۔ اسٹیل ملز کے ساتھ کراچی کی دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم کی تعمیر کا منصوبہ شروع ہوا۔ سوویت یونین نے اسٹیل ملز کے لیے مشینری فراہم کی۔ تکنیکی عملے کو تربیت کے لیے سوویت یونین ، ایران اور مصر کی اسٹیل ملز میں بھیجا گیا۔ حکومت سوویت یونین کی امداد کے علاوہ بینکوں سے قرضے لیے اور اسٹیل ملز کی تعمیر پر 25 ارب روپے کی لاگت آئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسٹیل ملز کے لیے پرائم لوکیشن کا انتخاب کیا۔ اسٹیل ملز نیشنل ہائی وے اور مرکزی ریلوے لائن کے وسط میں واقع ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے قدیم گوٹھوں سے 19 ہزار ایکڑ زمین خریدی۔ اسٹیل ملز 1980ء میں مکمل طور پر پیداواری عمل میں شامل ہوا۔ اسٹیل ملز کا منصوبہ 11 لاکھ ٹن سالانہ سے شروع ہوا۔
اسٹیل ملز کے انجنیئروں کا کہنا ہے کہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اسٹیل ملز کی پیداوار کو 33 لاکھ ٹن تک لے جایا جاسکتا تھا۔ اسٹیل ملز کے ایک سابق انجنیئر غیاث الدین پارس جنھوں نے ایران کے شہر اصفہان کی اسٹیل ملز میں تربیت حاصل کی اور دنیا کی دیگر اسٹیل ملزمیں کام کیا تھا کہ کہنا ہے کہ سوویت ماہرین نے آلات اس طرح تربیت دیے تھے کہ فرنس پلانٹ کے ساتھ دیگر فاؤنڈیشن پہلے ہی Install کر دی گئی تھی اور منصوبہ کے اصل ڈیزائن کے مطابق پیداوار کے اگلے 5 برسوں میں اس میں توسیع ہوئی تھی۔ اسٹیل ملز برے حالات میں ملک کی ضرورت کا 8 فیصد فولاد تیار کرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ 2008ء تک اسٹیل ملز ایک منافع بخش ادارہ تھا۔ سوویت یونین کے ماہرین نے اسٹیل ملز کی منصوبہ بندی اس طرح کی کہ 165 میگاواٹ کا تھرمل پاور پلانٹ بھی تعمیر کیا۔ اس پاور پلانٹ کی خوبی یہ ہے کہ جب آپریشن ہوتا ہے تو اس کی اپنی Heavy Gasses جو فرنس Coke Oven اور Steel Making Department سے پیدا ہوتی ہیں۔ان Gasses کو پاور پلانٹ میں لے جا کر ملک کی سب سے سستی بجلی پیدا کی جاتی تھی۔
یہ پلانٹ ملز کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ اسٹیل ٹاؤن کے 30 ہزار سے زائد گھروں کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ فاضل بجلی کراچی الیکٹرک کو فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اسٹیل کا اپنا 110 ملین گیلن پانی کی ریزرو واٹر اور فلٹر پلانٹ ہے جس کی اسٹیل کی 50 کلومیٹر کی پائپ لائن ہے جو 50 کلومیٹر دور ٹھٹھہ کی کینجھر جھیل سے پانی فراہم کرتی ہے۔ اسٹیل ملز کا آکسیجن پلانٹ کراچی کے سرکاری اسپتالوں کو مفت میں آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ اسٹیل ملزکا اپنا ریلوے کا نظام ہے اور 15 انجن موجود ہیں۔ ماہرین نے اسٹیل ملز کو 7 کلومیٹر طویل کنوینر بیلٹ کے ذریعہ پورٹ قاسم سے منسلک کیا ہے، یوں بحری جہاز پورٹ قاسم سے مال اس کنوینر بیلٹ کے ذریعہ اسٹیل ملز کو منتقل کرتے ہیں۔
ادارے کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس وقت 2008ء کے مارکیٹ نرخوں کے مطابق تقریباً 22 ارب روپے مالیت کا لوہا اسٹیل ملز میں بکھرا ہوا ہے۔ اسٹیل ملز نے صنعتی ڈھانچہ کی توسیع اور دفاعی ضروریات پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسٹیل ملز کے انجینئروں کا کہنا ہے کہ کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کے لیے جدید ترین اسٹیل کی پلیٹس یہاں تیار ہوئیں۔ پاکستان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 310 ارب روپے کا اسٹیل درآمد کر رہا ہے۔ اسٹیل ملز کے بارے میں تحقیق کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایک بہت بڑی لابی جس میں اسٹیل کے مختلف کارخانوں کے مالکان اور درآمد کرنے والے تاجر شامل ہیں شروع سے اسٹیل ملزکے خلاف تھے۔ اس لابی کے نظریات سے متاثر بعض سینئر صحافی 80ء کی دہائی میں کہتے تھے کہ اسٹیل ملزکا اتنا بڑا ڈھانچہ قابل قبول نہیں ہے۔
مزدور یونین کے ایک عہدیدارکا کہنا ہے کہ 1988ء میں اسٹیل ملزکی نجکاری کا نظریہ تقویت پا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت مارگریٹ تھیچر کے اس نظریہ سے متاثر نظر آتی تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 10 جون 2015ء کو گیس سپلائی منقطع کر کے اسٹیل ملز کو مکمل طور پر بند کر دیا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ سوویت یونین نے 70ء کی دھائی میں پاکستان کے علاوہ ایران، مصر، بھارت اور برازیل کو بھی اسی طرح کی اسٹیل ملز تیار کر کے دی تھیں۔ ان ممالک نے نئی ٹیکنالوجی آنے کے ساتھ اسٹیل ملز کی ٹیکنالوجی کو Upgrade کیا ، یوں وہاں یہ ملیں کامیابی سے معیشت کو مضبوط کر رہی ہیں۔ سوویت یونین سے تعلیم حاصل کرنے والے ایک انجینئر کا کہنا ہے کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد روس کی حکومت نے اسٹیل ملز میں دلچسپی برقرار رکھی تھی اور 90ء کی دہائی میں روس کی حکومت نے پیشکش کی تھی کہ وہ اسٹیل ملز کی مشینری Upgrade کرنے کو تیار ہیں۔
اس انجینئر نے مزید بتایا کہ روسی ماہرین کا کہنا تھا کہ روس حکومت کی سطح پر پاکستان اسٹیل ملز کو Upgrade کرنے کا خواہاں تھا مگر پاکستان کی بیوروکریسی مل کو نجی شعبہ کے حوالہ کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی، یوں روس کی اس پیشکش سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ اسٹیل ملز کی تباہی کی ذمے داری اسلام آباد کی بیوروکریسی، اور اسٹیل ملز کے حکام، مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کی ذیلی مزدور تنظیموں پر عائد ہوتی ہے۔ ان مافیاز نے 2008ء سے اسٹیل ملز کے وسائل کو اس طرح لوٹا اور اتنی زیادہ غیر ضروری بھرتیاں کرائیں کہ معاشی صورتحال بگڑ گئی۔ مزدوروں کو متحد کرنے والے کارکنوں کی جاری کردہ ایک دستاویز کے مطابق مشرف حکومت کے دور میں مختلف ممالک سے اسٹیل کی مصنوعات درآمد کرنے والے تاجروں کے کہنے پر اسٹیل کی اشیاء پر امپورٹ اور کسٹم ڈیوٹی کو 17 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد پر لایا گیا، یوں درآمدی اسٹیل کی قیمتیں کم ہو گئیں اور پاکستان اسٹیل ملز کی مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مافیا کے ساتھ اسٹیل ملزکے افسران ملوث تھے ، یوں تاجروں نے اسٹیل ملز کی مصنوعات خریدنے سے انکار کیا۔ ادارے میں جان بوجھ کر انتظامی بحران پیدا کیا گیا جس کے نتیجہ میں اسٹیل ملز بحران کا شکار ہوئی، مگر برسر اقتدار حکومتوں نے اسٹیل ملز کی بدحالی کی وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی، یوں یہ وقت آیا کہ 9 ہزار کارکنوں کو برطرف کر کے اسٹیل ملز کو فروخت کیا جارہا ہے۔ سینیٹر رضا ربانی کا کہنا ہے کہ اسٹیل ملز کی نجکاری کا مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش ہونا چاہیے۔ سندھ کی حکومت ملز کی زمینوں کی دعویدار ہے مگر مسئلہ صرف 9 ہزار مزدوروں کا نہیں، ملک کے صنعتی ڈھانچے کا ہے۔ روس کی مدد سے اسٹیل ملز کو جدید ٹیکنالوجی اور جدید انتظامی سائنس کی مدد سے دوبارہ منظم کرنا ہی معقول فیصلہ ہے۔
0 Comments