Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا پاکستان نے امریکیوں کو اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا بتایا تھا ؟

پاکستانی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان اسد درانی اور اے ایس دولت نے اپنی ایک مشترکہ کتاب میں کشمیر، ملکی سیاست اور مستقبل میں قیام امن جیسے موضوعات پر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں کتاب، ’سپائی کرونیکلز‘ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ اس موقع پر بھارت کا ویزا نہ ملنے کے باعث اسد درانی دہلی نہیں پہنچ پائے تھے۔ تقریب میں بھارت کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ، نیشنل کانفرنس کے رہنما ڈاکٹر فارق عبداللہ، بھارت کے سابق وزیر یشونت سنہا اور دیگر شخصیات موجود تھیں۔

اس کتاب کو درانی اور دولت نے مختلف ممالک میں ملاقاتوں کے دوران مرتب کیا، جسے بعد ازاں باقاعدہ طور پر بھارتی صحافی آدیتیا سنہا نے تحریر کیا۔ ’سپائی کرونیکلز‘ سے متعلق بھارتی صحافی برکھا دت نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں لکھا،’’ کتاب کا بنیادی بیانیہ یہ ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے سابق سیاسی فارمولے ناکام ہو گئے ہیں، پاکستان کی سول حکومتیں خودمختار نہیں ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں آپس میں مذاکرات کریں۔‘‘

کتاب میں لیفٹیننٹ جرنل ریٹائرڈ اسد درانی لکھتے ہیں کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کا کارگل آپریشن ایک بے وقوفانہ آپریشن تھا۔ درانی کے مطابق اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو اس بارے میں بہت کم معلومات تھیں لیکن انہوں نے مشرف کو اس آپریشن کی اجازت دی تھی، لہذا انہیں سیاسی طور پر اس کی ذمہ داری اٹھانا تھی۔ درانی اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ اس آپریشن کے بعد مشرف کو معلوم تھا کہ وہ آرمی چیف کے عہدے سے ہٹا دیے جائیں گے اور انہوں نے اس حوالے سے ایک منصوبہ بنایا، ’’ستمبر میں نواز شریف نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس طاقت ور عہدے پر مشرف کو نہیں رکھنا چاہتے اور انہوں نے مشرف کو جوائنٹ چیف آف سٹاف بنانے کا فیصلہ کیا، مشرف نے یہ پیشکش ٹھکرا دی تھی اور وہ سمجھ گئے تھے کہ انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔‘‘

کتاب میں درانی یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان نے امریکی فوجیوں کو سن 2011 میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا بتایا تھا۔ کشمیر کے معاملے پر درانی لکھتے ہیں کہ جب کشمیر میں مزاحمت کا آغاز ہوا تو پاکستان کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کہاں تک بڑھ سکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں،’’ہم نہیں چاہتے تھے کہ حالات قابو میں نہ رہیں اور بات جنگ تک پہنچ جائے جو نہ پاکستان چاہتا تھا نہ بھارت۔‘‘ درانی 1990 سے 1992 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے جب کشمیر میں مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔

درانی اور دولت کے ساتھ اس کتاب کو تحریر کرنے والےآدتیا سنہا نے ’خلیج ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ دولت بنیادی طور پر مثبت سوچ رکھتے ہیں جبکہ درانی حقیقیت پسند ہیں۔ دولت یقین رکھتے ہیں کہ دونوں ممالک میں اعتماد سازی جیسے ویزے کے حصول میں نرمی، بھارت اور پاکستان کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقاتیں اور آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل کرنے جیسے اقدامات دونوں مالک میں امن قائم کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ سنہا کہتے ہیں کہ دوسری جانب درانی سمجھتے ہیں کہ آہستہ آہستہ اور خاموشی کے ساتھ ایک منظم حکمت عمل کے تحت بھارت اور پاکستان میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ درانی چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹس سے ایک ایک شخص مذاکراتی عمل کو آگے لے کر چلے۔

بشکریہ DW اردو
 

Post a Comment

0 Comments