Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا شام میں روسی اور امریکی فوجیں ایک دوسرے سے براہ راست ٹکرا سکتی ہیں؟

شام میں گزشتہ ہفتے ’ہلاک یا زخمی ہونے والے روسی شہریوں‘ کی تعداد تین سو کے قریب بنتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ماسکو حکومت سے تعلق رکھنے والی نجی سکیورٹی کمپنی سے وابستہ قریب تین سو روسی گزشتہ ہفتے شام میں ہلاک یا زخمی ہو گئے۔  اس معاملے سے تعلق رکھنے والے ذرائع کے مطابق ہلاک یا زخمی ہونے والے افراد شام میں سرگرم روسی نجی سکیورٹی کمپنی سے تعلق رکھنے والے جنگجو تھے۔ ایک روسی فوجی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ شام میں گزشتہ ہفتے قریب سو روسی فائٹر ہلاک ہوئے جب کہ ایک اور ذریعے نے ان ہلاکتوں کی تعداد 80 سے زائد بتائی ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں ان ہلاکتوں کی اطلاعات ایک ایسے وقت پر سامنے آ رہی ہیں، جب اتفاقیہ طور پر قریب اسی وقت سات فروری کو شامی شہر دیرالزور میں امریکی فورسز کی جانب سے شامی حکومتی فورسز کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔ دوسری جانب روسی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں ’شاید پانچ روسی شہری‘ ہلاک ہوئے ہیں تاہم ان کا تعلق روسی مسلح افواج سے نہیں تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اگر یہ روسی ہلاکتیں امریکا کی جانب سے شامی فورسز کے خلاف کارروائی کے دوران ہوئی ہیں، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روس شامی تنازعے میں کس شدت کے ساتھ موجود ہے اور یہ خطرات بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے کہ روس اور امریکا شام میں ایک دوسرے کے براہ راست مدمقابل آ جائیں۔

شام میں یہ تازہ روسی ہلاکتیں سن 2014ء میں یوکرائن کے مشرقی حصے میں شروع ہونے والے تنازعے کے بعد سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔ تب سو سے زائد روسی جنگجو مشرقی یوکرائن میں مارے گئے تھے۔ ماسکو حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے کہ اس کے فوجی یا رضاکار یوکرائن میں موجود ہیں اور اس حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کی بھی ماسکو حکومت نے کبھی تصدیق نہیں کی۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے روسی عسکری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ کچھ دنوں میں زخمی ہونے والے روسی جنگجوؤں کو شام سے نکالا گیا اور وہ اب مختلف فوجی ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔

پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔ ان مریضوں کا علاج کرنے والے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دن سے اب تک ان کے ہسپتال میں پچاس سے زائد زخمی منتقل کیے جا چکے ہیں اور یہ تمام زخمی ایسے ہیں، جنہیں شام سے روس پہنچایا گیا۔ اس ڈاکٹر کے مطابق ہسپتال منتقل کیے گئے زخمیوں میں سے تیس فیصد شدید زخمی ہیں۔

بشکریہ DW اردو

 

Post a Comment

0 Comments