Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاکستان کا نام واچ لسٹ میں ڈالنے کی تحریک کے اصل مقاصد کیا ہیں

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا چھ روز اجلاس پیرس میں شروع ہوا جس میں دیگر امور کے علاوہ اس تحریک کا بھی جائزہ لیا جائے گا جس میں پاکستان کو ان ملکوں کی فہرستوں میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جومبینہ طور پر دہشت گردی کے لیے فنڈز کی فراہمی کو روکنے میں ناکام رہے۔ واضح رہے کہ یہ تجویز امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے پیش کی گئی تھی اور بعد ازاں جرمنی اور فرانس نے بھی اس کی تائید کر دی۔ حالیہ سالوں میں بعض ایسی شدت پسند تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نا کرنے کی وجہ سے پاکستان کو تنقید کا سامنا رہا ہے جن پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور امریکہ تعزیرات عائد کر چکے ہیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس پاکستان کو دہشت گردی کی فنانسنک سے متعلق واچ لسٹ میں شامل کر دیتا ہے تو اس کے پاکستان کے تشخص اور معیشت پر شدید اثرات ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی تاجر برادری کے ایک نمائندے اور معروف کاروباری شخصیت زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ایسے کسی بھی اقدام سے پاکستان کی برآمدات پر بھی مفنی اثر پڑ سکتا ہے۔ " اس کی وجہ سے پاکستان کو اقتصادی مشکلات پیش ہو سکتی ہیں اور جو ملک یہ فیصلہ کریں گے یہ 35 ملکوں پر مشتمل تنظیم ہے اور ان میں زیادہ وہ ملک ہیں جو ہمارے بڑے تجارتی شراکت دار اور ہماری مارکیٹ ہیں ان میں یورپی یونین کے ممالک اور امریکہ بھی شامل ہے اور امریکہ پاکستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اس کی وجہ سے پاکستان کو براہ راست نقصان ہو سکتا ہے۔ "

دوسری طرف پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو اس واچ لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری کوششوں پر منفی اثر پڑے گا۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ واچ لسٹ میں شامل کرنے کی تحریک مغربی ملکوں کی طرف سے بعض مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ وہ تمام شدت پسند تنظمیوں کی سرگرمیوں کی موثر نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے اور حال ہی میں پاکستان نے دہشت گردی سے متعلق قانون میں ترمیم کی ہے جس کے تحت اب ان تنظیموں اور عناصر کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکے گی جن پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پہلے ہی تعزیرات عائد کر چکی ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

Post a Comment

0 Comments