Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ادبیات مولانا ابوالاعلیٰ مودودی

پروفیسر خورشید احمد اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا ذکر ایک مذہبی عالم اور مفکرکی حیثیت سے تو اس قدر کیا جاتا ہے لیکن ایک ادبی شخصیت کی حیثیت سے انھیں قطعی نظرانداز کیا گیا ہے۔ اپنی کتاب ’’ادبیات مودودی‘‘ میں لکھتے ہیں ’’مودودی صاحب بنیادی طور پر نثر نگار ہیں۔انھوں نے سنجیدہ علمی، سیاسی اور تمدنی مسائل سے کلام کیا ہے اور اردو کو ہر قسم کے مسائل کے لیے ذریعہ اظہار بنایا ہے۔ ان کی نثر میں وہ تمام خوبیاں ہیں جن سے اردو نثرکا بنیادی اسلوب عبارت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ جدید دور میں اردو نثر کے بہترین نمایندے ہیں۔ انھوں نے ماضی کی بہترین روایات کو اپنی تحریر میں سمو لیا ہے اور ان کو نیا حسن اور رعنائی عطا کی ہے۔‘‘

’’ادبیات مودودی‘‘ کے تین حصے ہیں۔ ایک میں برصغیر کے چند اہل قلم کے مضامین ہیں جن میں مودودی کے ادیب اور ان کے طرز نگارش کا تنقیدی مطالعہ کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں مولانا کے لکھے ہوئے تبصرے ہیں جو علمی اور ادبی تنقید کے باب میں ان کے اسلوب اور ان کے مسلک کے عکاس ہیں۔ یہ تنقیدات فلسفیانہ، دینی اور عمرانی موضوعات کے ایک وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی ہیں۔ کتاب کے تیسرے حصے میں مولانا کی کچھ تحریریں ہیں جو اگرچہ مختصر ہیں لیکن معنویت کے اعتبار سے وزنی ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد مولانا مودودی کی نثرکی بنیادی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ زندگی کے ایک دور میں مودودی صاحب نے شاعری بھی کی ہے اگرچہ ان کی شاعری کا یہ دور بہت مختصر ہے جو خود ان کے بقول انھیں جلد ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ ان کی طبیعت کا فطری میلان اس طرف نہیں ہے۔ تاہم اپنی تحریروں میں جن مقامات پر وہ جذبات اور قلبی کیفیت کا اظہار کرتے ہیں وہاں ان کی نثر میں شعری حسن پیدا ہو جاتا ہے۔
خورشید احمد لکھتے ہیں ’’مودودی صاحب کی نثرکی پہلی خصوصیت مقصدیت ہے۔ وہ اپنے سامنے زندگی کا ایک واضح اور متعین تصور رکھتے ہیں اور جس موضوع پر بھی وہ قلم اٹھاتے ہیں مقصد کا شعور کہیں ماند پڑنے نہیں پاتا۔ وہ نہ عباسی دور کے احیاء کے مدعی ہیں اور نہ مغلیہ جاہ کے اور نہ وکٹورین کلچر کے۔ وہ بیسویں صدی میں اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی کا نقشہ ازسر نو تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اس چیز نے ان کے ادب کو مقصدیت کے ساتھ جدت اور جدیدیت سے مالا مال کیا ہے۔‘‘ پروفیسر صاحب نے مولانا کی نثر نگاری کی دوسری خصوصیات ابہام سے پاک تحریر، فکرکا نظم اور منطقی ربط وضبط، زبان کی صحت (وہ دلی کی شرفا کی زبان بولتے تھے)، سادگی، مشکل الفاظ اور ترکیبوں سے اجتناب اور ادبیت اور نفاست ہیں۔ پروفیسر ضیا احمد صدیقی فارسی کے مستند عالم تھے، وہ فرماتے ہیں۔ ’’مولانا مودودی کی نثر کی پہلی خصوصیت ان کی قوت استدلال ہے، دوسری ان کا تجزیہ مسائل اور جزئیات پر نظر ہے، اور تیسری خصوصیت ان کا دل نشیں ادیبانہ انداز ہے۔ ان کی عبارت میں زور، چستی اور روانی ہے۔ انھوں نے ہماری زبان کو نئے حیات بخش خیالات سے مالا مال کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ایک موثر دلکش اسلوب بھی دیا ہے۔‘‘

ماہر القادری لکھتے ہیں ’’مولانا مودودی کی تحریروں میں دلی کی ٹکسالی زبان اور روز مرہ کا رچاؤ پایا جاتا ہے۔ وہ جو بات کہتے ہیں اس میں زبان و اظہارکی کتنی ہی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ بڑے بڑے جملے میں جھول نام کو نہیں اورمختصر سا مختصر فقرہ چٹکتی کلی کی طرح دلنواز ہے۔ مودودی صاحب کی زبان ادب کی زبان ہے۔ اس زبان میں عام طور پر تو شاعری کی گئی ہے یا افسانے اور کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ مولانا مودودی نے اس زبان سے حقائق کی تبلیغ کا کام لیا ہے جس میں فلسفہ و کلام کے نازک مقامات بھی آئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی نے نازک اور دقیق مسائل کو سلجھاؤ اورشگفتگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں الفاظ نگینوں کی طرح جڑے ہیں۔

ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے مولانا مودودی کی نثرکو اردو ادب میں مذہبی نثر کا کمال قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’انگریزی ادب میں مذہبی نثر بھی نثر کے اہم اصناف میں گنی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں، ایسا نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی امور کے لیے جن لوگوں نے نثر کو استعمال کیا انھوں نے اس بات کا خیال نہ رکھا کہ ان موضوعات کے لیے کیسے رنگ کی ضرورت ہے۔ مولانا نے اس نثر کو کمال پر پہنچا دیا۔ ان کی نثر کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ وہ مکمل نثر ہے، نمایندہ نثر ہے اور ان کی ہستی نمایندہ نثر نگار کی ہستی ہے۔ ہماری نثر میں ان کو وہی مقام ملنا چاہتا ہے جو شاعری میں اقبال کو دیا جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر سید محمد یوسف لکھتے ہیں ’’طالب علمی کے زمانے میں اور اس کے بعد سے برابر میں نے مولانا مودودی کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان کے ناخن فکر سے اپنے ذہن کی بہت سی گتھیاں حل کیں لیکن ان کی شخصیت کے اس پہلو پر کہ وہ ایک ادیب بھی ہیں کبھی توجہ نہ کی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم حسن معنی میں محو رہے اور پیراہن پر نظر جمانے کی فرصت نہ پائی۔ اب رنگ محفل یہی ہے کہ جو لیلیٰ کے نظارے کی تاب نہیں لا سکتے وہ محمل کا تماشا کریں۔

کم نظر بے تابیٔ جانم ندید
آشکارم دید و پنہانم ندید

سید ابوالخیر کشفی فرماتے ہیں۔ ’’مولانا مودودی کے اسلوب کی بنیاد اول ان کی ذات ہے۔ شخصیت کا اظہار نہ ہو تو کوئی تحریر ادبی تحریر نہیں بن سکتی۔ شخصیت کی اسی نمود کو اقبال نے ’خون جگر‘ کہا ہے۔ ملٹن نے اسے فن کا ’لائف بلڈ‘ کہا تھا اور میر امن نے اسے ’خون دل‘ سے تعبیر کیا تھا۔ ان کے ہاں جو وضاحت اور قوت ہے، اس کا سرچشمہ ان کی نثر نگاری کی صلاحیت کے علاوہ ان کی ذات کی جلوہ گری اور حس جماعتی ہے۔ مولانا مودودی کی نثر میں جذبہ، حسن اور رعنائی بھی ہے۔ مشاہدہ کی رعنائی صفحہ قرطاس پر مناسب الفاظ کے ذریعے ہی پیش کی جا سکتی ہے۔ یہی ادبی تخلیق ہے۔ کائنات اور تحریری اظہار کے درمیان فن کار کی ذات بھی تو ہوتی ہے۔ ’آئینہ فطرت‘ میں اپنی ’خودی‘ کی نمود کے بغیر ادیب فطرت کے عکس کو پیش نہیں کر سکتا۔ مودودی صاحب الفاظ کے انتخاب میں بھی حسن ذوق سے کام لیتے ہیں اور محل گفتگو کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ وہ ہر چیز کے لیے اچھے اور سبک الفاظ لاتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں بیش تر الفاظ مانوس ہوتے ہیں۔ اجنبی الفاظ سے وہ پرہیز کرتے ہیں۔ انھوں نے گفتگو اور روزمرہ کے بعض اہم الفاظ کو تحریر میں صرف کر کے ان کے معنوی پہلوؤں کو روشن کر دیا ہے۔ مودودی صاحب کی ادبی شخصیت کا ایک عمومی پہلو ان کی متانت اور اسلوب کی سنجیدگی ہے۔ ان کے طنزیہ انداز نگارش میں جو ان کی ادبی تحریر کا ایک اور پہلو ہے، بڑا رکھ رکھاؤ ہے۔‘‘

رشید احمد صدیقی نے اچھی نثرکی خصوصیات یہ بتائی ہیں۔ ’’اس کا درو بست منطقیانہ ہو اور براہ راست اور بے کم و کاست۔ سوچنے اوراظہار مطالیب کا وسیلہ ہو۔ جو کچھ بیان کیا گیا ہو وہ کانٹے پر نپا تلا ہو۔ جتنے اور جو الفاظ آئے ہوں وہی اور اتنے ہی معنی ہوں، نہ کم نہ بیش۔ ٹھنڈے دل سے سارے نشیب و فراز پر نظر رکھ کر لکھی گئی ہو۔ ذاتی ردعمل سے پاک ہو۔ جامد نہ ہو متحرک و بے ساختہ ہو۔ شعر اور شاعری کی مانند نہ ہو جہاں عدم تسلسل اور منطقیانہ نکتے ملتے ہیں۔ نثر میں جذبات کی گنجائش سطح کے نیچے ہو سکتی ہے لیکن اس کو فکر سلیم کی گرفت سے باہر نہ ہونے دینا چاہیے۔‘‘

کیا مولانا مودودی کی نثر اس پیمانے پر نہیں اترتی؟

رفیع الزمان زبیری  

Post a Comment

0 Comments