Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بیروت کا ٹیکسی ڈرائیور اور او آئی سی

ابو جعفر بیروت کا ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا جو مجھے بیروت سے دمشق چھوڑنے
جا رہا تھا ۔ ہماری ٹیکسی لبنان سے شام میں داخل ہوئی تو ابوجعفر نے دور سے نظر آنے والی پہاڑیوں کی طرف مجھے متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ گولان کا علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ابو جعفر نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ مل کر بیروت اور بغداد کو تباہ کر دیا اب وہ دمشق اور تہران سے ہوتا ہوا مکہ پہنچنے کی تیاری کر رہا ہے اور بدقسمتی سے اسے صرف امریکہ کی نہیں بلکہ بہت سے مسلمانوں کی حمایت بھی حاصل ہو گی ۔ میں کافی دیر سے اسکی عربی لہجے میں انگریزی تقریر سن رہا تھا اور خاموش تھا۔

لیکن جب اس نے کہا کہ اسرائیل نے بیروت اور بغداد کے بعد دمشق کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے تو میں نے ابوجعفر سے پوچھا کہ دمشق میں اسرائیل کو کیا چاہئے ؟ ابوجعفر نے فوراً بلند آواز میں کہا کہ مسلمان اپنی تاریخ بھول چکے ہیں لیکن صیہونی تاریخ کو نہیں بھولتے وہ صلاح الدین ایوبی کے مزار تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگوں کے دوران بیت المقدس پر اسلامی جھنڈا لہرایا تھا، صیہونی صلاح الدین ایوبی کے مزار پر اپنا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں ۔ یہ سن کر میں خاموش رہا ۔ ابو جعفر کو شک گزرا کہ شاید میں اس کے ساتھ اتفاق نہیں کر رہا ۔ اس نے اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی سینے پر رکھی اور کہا کہ میں ابو جعفر ہوں، جب اسرائیلی فوج بیروت میں گھس گئی تو میں اسے پتھر مارنے والے نوجوانوں میں شامل تھا مجھے گرفتار کر کے اسرائیل کی جیل میں بند کر دیا گیا میں نے صیہونیت کو اسرائیل کی جیلوں میں بہت قریب سے دیکھا ہے جو مجھے نظر آ رہا ہے وہ تمہیں اور بہت سے مسلم ممالک کے حکمرانوں کو نظر نہیں آ سکتا ۔
باتیں کرتے کرتے ہم دمشق کے قریب پہنچ گئے۔ ابو جعفر کا اصرار تھا کہ میں سیدھا دمشق ایئرپورٹ جائوں اور جلد از جلد شام سے نکل جائوں لیکن میں دمشق میں ایک دن کیلئے رکنا چاہتا تھا تا کہ سیدہ زینبؓ بنت علی ؓ اور صلاح الدین ایوبی کے مزارات پر فاتحہ خوانی کر سکوں ۔ لبنان اور اسرائیل کی جنگ کے دوران تین ہفتوں تک ابو جعفر نے میرے لئے ٹیکسی ڈرائیور کے علاوہ مترجم اور گائیڈ کا کام کیا تھا ۔ اس نے مجھے بڑے ہمدردانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ دمشق ایئرپورٹ دنیا کے دیگر ایئرپورٹوں سے مختلف ہے یہاں بہت زیادہ غیر ضروری سوالات کئے جاتے ہیں تمہارے پاس ریزرویشن بھی نہیں ہے تمہارا پاسپورٹ بھی پاکستانی ہے میری گزارش ہے کہ دمشق میں ایک رات رکنے کی بجائے سیدھے ایئرپورٹ جائو اور یہاں سے نکلنے کی کوشش کرو۔

میں نے پوچھا یہاں پاکستانی پاسپورٹ پر کیا اعتراض کیا جاتا ہے؟ ابو جعفر نے کہا اعتراض پاکستان پر نہیں پاکستان کے صدر پرویز مشرف پر ہے جسے اسرائیل کا دوست سمجھا جاتا ہے کیونکہ شمعون پیریز اسکی بہت تعریف کرتا ہے ۔ میں نے ابو جعفر کے مشورے پر اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مجھے سیدہ زینب ؓ کے مزار کے پاس واقع ہوٹل پہنچا دو اور تم واپس بیروت جائو ۔ اس نے مجھے ہوٹل اتارا، کرایہ وصول کیا اور جاتے جاتے انگریزی میں کہنے لگا کہ صلاح الدین ایوبی کے مزار پر یہ دعا ضرور کرنا کہ اس مزار تک صیہونیوں کے قدم کبھی نہ پہنچیں ۔ ابوجعفر کے ساتھ میری یہ گفتگو 2006ء میں ہوئی جب میں لبنان اور اسرائیل کی جنگ میں تین ہفتے گزار کر واپس آ رہا تھا۔ 2011ء میں شام کے مختلف علاقوں میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو مجھے ابوجعفر کی باتیں یاد آئیں لیکن پھر میں نے سوچا کہ یہ خانہ جنگی جلد ختم ہو جائے گی ۔

چھ سال گزر گئے یہ خانہ جنگی ختم نہ ہوئی اور لاکھوں معصوم لوگ مارے گئے ۔جمعہ کی رات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر امریکہ نے شام پر 59 توماہاک میزائل داغ دیئے ۔ یہ وہی میزائل ہیں جو 1998ء میں طالبان کے خلاف افغانستان میں استعمال کئے گئے تھے ۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے شام کے صدر بشار الاسد کی طرف سے باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کیلئے میزائلوں سے حملہ کیا جبکہ بشار الاسد کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے انکار کر رہا ہے ۔

 یہ وہی سرزمین ہے جہاں کسی زمانے میں حضرت خالدؓ بن ولید کی قیادت میں مسلمانوں نے اپنے سے کئی گنا بڑی ہرقل کی فوج کو شکست دی تھی اور اسی جنگ میں حضرت ضرار ؓاپنی شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے دشمنوں کی فوج کے اندر گھس گئے اور گرفتار ہو گئے ۔ پھر انکی رہائی کیلئے ہونے والی جنگ میں انکی بہن حضرت خولہؓ نے بھی بہادری کے جوہر دکھائے ۔ اس جنگ میں اسلامی لشکر کے پرچم پر عقاب بھی موجود تھا ۔ یہ عقاب آج بھی متعدد عرب ممالک کے پرچم پر نظر آتا ہے لیکن افسوس کہ کچھ عرب قائدین عقاب کی نظر سے محروم ہو چکے ہیں۔ انہیں دوست اور دشمن کی پہچان نہیں رہی ۔

بشار الاسد نے اپنے مخالفین پر ظلم وستم کیا تو اسلامی ممالک کی تنظیم اوآئی سی نے یہ معاملہ اپنے فورم پر طے کرنے کی بجائے شام کی رکنیت معطل کر دی ۔ شام پر امریکی میزائلوں کے حملے کی نیٹو کے علاوہ جاپان، سعودی عرب، ترکی اور اسرائیل نے حمایت کی ہے جبکہ روس، چین، عراق اور ایران نے اس حملے کی مذمت کی ہے ۔ انڈونیشیا نے شام اور امریکہ دونوں کی جارحیت کو قابل مذمت قرار دیا ۔ شام پر امریکی حملے کے بعد مسلم ممالک میں تقسیم واضح ہو چکی ہے اور مجھے بار بار ابوجعفر کے الفاظ یاد آ رہے ہیں ۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ شام کی خانہ جنگی میں پاکستان اور افغانستان کے نوجوان دونوں فریقوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں ۔ بشار الاسد کے حامی نوجوانوں کو ایران کے راستے شام بھیجا جاتا ہے اور بشارالاسد مخالف نوجوانوں کو ترکی کے راستے شام بھیجا جا رہا ہے ۔

پاکستان کو شام اور امریکہ کے اس تنازع میں بہت محتاط رہنا ہو گا کیونکہ جنرل راحیل شریف کی طرف سے 39 رکنی فوجی اتحاد کی سربراہی کو پاکستان کی ریاستی پالیسی قرار دیئے جانے کے بعد امریکہ کے جنگی جرائم کا ملبہ پاکستان اور سعودی عرب پر گرنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ پاکستان اور سعودی عرب یہ واضح کریں کہ 39 ممالک کا فوجی اتحاد شام کے خلاف کسی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا ۔ سعودی عرب نے امریکی حملے کی حمایت کر دی ہے تاہم پاکستان کو امریکی حملے کے ساتھ ساتھ بشار ا لاسد کی طرف سے اپنے مخالفین پر کئے جانے والے ظلم کی کھل کر مذمت کرنی چاہئے اور او آئی سی کے ذریعے اس خانہ جنگی کے خاتمے کا راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔

اس خانہ جنگی کی طوالت پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دیگی جس کا فائدہ صرف اور صرف مسلمانوں کے دشمنوں کو ہو گا۔ مجھے ابوجعفر سے کئی سال بعد اتفاق کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر مسلمانوں نے اپنے فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیاد پر آپس میں لڑنا بند نہ کیا تو ٹرمپ کا امریکہ اور مودی کا ہندوستان مل کر ہمیں ایک دوسرے کے ہاتھوں (خدانخواستہ) برباد کرائے گا جس کی مثال بھارت اور بنگلہ دیش کا دفاعی معاہدہ ہے جو امریکہ نے کرایا ہے ۔
حامد میر


Post a Comment

0 Comments