Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یوٹرن کے ماہر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک اور یو ٹرن

امریکی صدر نے ایشیا میں اہم سکیورٹی سوالات کو ابھارا ہے۔ انھوں نے حلف
لینے سے قبل تائیوان کے حوالے سے بیان جاری کر کے نہ صرف چین کو حیران کر دیا بلکہ وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ جنوبی بحیرہ چین میں بنائے جانے والے مصنوعی جزیرے تک چین کی رسائی کو بلاک کر دیں گے۔ ٹلرسن کے اس بیان پر چین کی ریاستی میڈیا نے فوجی تصادم کی تنبیہ کی۔

شمالی کوریا کی فوجی مشق، امریکی آبدوز جنوبی کوریا میں
امریکی صدر نے جاپان اور جنوبی کوریا کے بارے میں کہا کہ وہ امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے فائدہ ہو گا۔ شمالی کوریا جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو شمالی کوریا کے اس منصوبے کو روکنے کے چیلنج کا سامنا ہے جو کہ ان سے قبل امریکی رہنما نہ کر سکے۔ اوباما انتظامیہ میں شمالی کوریا کے حوالے سے پالیسی 'سٹریٹیجک صبر' کی تھی جس کے تحت شمالی کوریا پر پابندیوں کے ذریعے دباؤ ڈالنا تھا اور دیگر ممالک کو ایسا کرنے پر رضا مند کرنا تھا خصوصاً چین کو۔ لیکن نائب صدر مائیک پینس کا کہنا ہے کہ 'سٹریٹیجک صبر' کا دور گزر چکا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے حوالے سے تمام آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے۔ اور صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی بحری بیڑے کو کوریا روانہ کیے جانے کے باعث فوجی کارروائی کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ امریکی قدم کے جواب میں شمالی کوریا نے ہفتہ وار میزائل ٹیسٹ کرنے کی تنبیہ کی اور متنبہ کیا کہ جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ لیکن 10 روز بعد ہی کنفیوژن اس وقت پیدا ہوئی جب کوریا کی جانب روانہ کیا گیا امریکی بحری بیڑا الٹی سمت پر روانہ ہو گیا۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی کہ جنگی بیڑا اب بھی کوریا کی جانب جا رہا ہے ٹرمپ نے چین پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف کارروائی کرے۔

روس کے ساتھ تعلقات مزید پیچیدہ
امریکی انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر پوتن کی تعریف کرتے ہوئے ان کو ایک مضبوط رہنما قرار دیا اور کہا کہ وہ پوتن کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا پسند کریں گے۔ اس کے بعد امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے کہا کہ روس نے ڈیموکریٹ جماعت کے ای میلز ہیک کیے۔ ایجنسیوں کی اس رپورٹ سے آخر کار ٹرمپ متفق ہوئے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے روس کے ساتھ روابط کے باعث ان پر کافی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان کے مشیر برائے قومی سلامتی مائیکل فلِن نے ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل روسی سفیر سے بات چیت کرنے پر استعفیٰ دیا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ صدر پوتن پر اعتبار کرنا چاہتے ہیں لیکن متنبہ کیا کہ ایسا زیادہ دیر تک جاری نہ رہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ شام میں مبینہ کیمیائی حملے کے بعد امریکہ اور روس کے تعلقات بری طرح متاثر ہوئے۔

نیٹو پر زیادہ توجہ
صدر ٹرمپ ماضی میں نیٹو پر کافی تنقید کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے نیٹو کو معدوم قرار دیا اور اس تنظیم کے ممبر ممالک کو احسان فراموش کہا۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے فروری میں کہا کہ نیٹو کے ممبر ممالک اپنے دفاع کے بجٹ میں جی ڈی پی کے دو فیصد کا اضافہ کریں۔ لیکن اپریل میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ 'ہم سب دفاعی بجٹ میں اضافے کے نتائج دیکھ رہے ہیں جو مثبت ہیں۔' انھوں نے مزید کہا کہ نیٹو اب معدوم نہیں ہے۔

طاقت کا استعمال
صدر اوباما عراق اور افغانستان میں میں جاری امریکی جنگ کے خاتمے کے نعرے پر منتخب ہوئے تھے اور وہ مشرق وسطیٰ میں کسی اور مسئلے میں الجھنا نہیں چاہتے تھے۔ شام میں جب خونریزی عروج پر تھی تب بھی اوباما نے کہا کہ فوجی کارروائی بہت مہنگی پڑے گی اور ناکام بھی ہو گی۔ صدر ٹرمپ شام میں امریکی فوج کی مداخلت کے خلاف تھے۔ ان کا نعرہ تھا 'شام کو بھول جاؤ، امریکہ کو دوبارہ عظیم بناؤ'۔ تاہم جب امریکہ نے اپریل میں شام کے فضائی اڈے پر بمباری کی تو انھوں اپنے موقف سے انحراف کیا۔ چند ہی روز بعد صدر ٹرمپ نے افغانستان میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔ امریکہ اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنے جا رہا ہے اور لگتا ایسا ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک میں جاری تصادم میں زیادہ کردار ادا کرے گا۔

فری ٹریڈ کا مستقبل
تجارتی پالیسی کے حوالے سے صدر ٹرمپ دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کرنے کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی لا رہے ہیں۔ انھوں نے بہت ساری فری ٹریڈ معاہدوں کو ختم کرنے کی دھمکی دی ہے بشمول نارتھ امیریکم فری ٹریڈ ایگریمنٹ جو امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کے درمیان ہے۔ انھوں نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے بھی نکل جانے کا عندیہ دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی تجاری پالیسی کا مقصد امریکہ میں بے روزگاری کم کرنا، تجارتی خسارے کو کم کرنا اور امریکیوں کے لیے فائدہ مند ڈیلز حاصل کرنا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ صدر بننے کے بعد 100 روز کے اندر پیرس موسمیاتی معاہدے کو منسوخ کر دیں گے۔ ایسا نہیں ہوا اور صدر کے سینیئر مشیران اس حوالے سے منقسم ہیں۔ تاہم انھوں نے مارچ میں کلین پاور پلان یا ماحول دوست توانائی کے منصوبے کو ختم کرنے کے ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے۔ تاہم اس آرڈر کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور اس پر عملدرآمد رک گیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا امریکہ کی توانائی کو آزاد کرنے اور نوکروں کے لیے ضروری ہے۔ لیکن ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے ملک کے اندر اور باہر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ نے کئی بار اس موقف کو رد کیا ہے کہ موسمی تبدیلی انسانوں کے باعث ہوئی ہے۔

ایران جوہری معاہدہ
سابق صدر براک اوباما کے لیے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والا جوہری معاہدہ تاریخ تھا۔ لیکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ 'یہ سب سے بدترین معاہدہ ہے'۔ انھوں نے کہا کہ اس معاہدے کو ختم کرنا ان کی اولین ترجیح ہے لیکن انھوں نے یہ کبھی نہیں بتایا کہ وہ کیا کریں گے۔ اب امریکی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ ایران پالیسی کا ازسر نو جائزہ لیں گے۔ اس پالیسی میں کے جائزے میں نہ صرف ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کی پاسداری کا جائزہ لیا جائے گا بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پہلے ہی ٹرم سے کہہ چکے ہیں جوہری معاہدے کی پاسداری کریں۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کو معاہدے کی پاسداری کرنی ہو گی کیونکہ یہ معاہدہ کئی ممالک نے مل کر کیا ہے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے زیادہ سخت الفاظ کرتے ہوئے کہا 'اگر انھوں نے معاہدے کو پھاڑا تو ہم اس معاہدے کو آگ لگا دیں گے۔' صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا 'ایران آگ سے کھیل رہا ہے۔'

بشکریہ بی بی سی اردو

Post a Comment

0 Comments