Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

امریکی وارننگ, ٹرمپ کی پالیسیاں اور اُمت مسلمہ

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات بہت چشم کشا ہیں۔ ایک جانب اہل اسلام کے لئے مشکلات اور تاریکیاں ہیں، مگر دوسری جانب روشنی اور امید بھی نظر آ رہی ہے۔ ٹرمپ کا ہدف اسلام اور مسلمان ہیں۔ ٹرمپ انسانیت کی بھی تذلیل و توہین کر رہا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے، جب یہ اپنے مقام سے گرتا ہے تو اسفل سافلین ہو جاتا ہے۔ اسفل سافلین کا مطلب تمام مخلوق، حتیٰ کہ جانوروں اور درندوں سے بھی بدتر ہونا ہے۔ اُمت مسلمہ اللہ کی پسندیدہ اور چنیدہ اُمت ہے۔ جس طرح آنحضورؐ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں، اسی طرح اس امت کے بعد کوئی اور اُمت اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف آزمائشوں سے گزارا ہے۔ آج بھی یہ امت انتہائی مشکلات میں گرفتار ہے۔ یہ مشکلات کثیر الجہت اور متنوّع ہیں۔ ان میں بیرونی مشکلات تو اپنی جگہ، اندرونی مشکلات نے اُمت کو زیادہ پژمردہ کر دیا ہے۔ 

جس گلے کا کوئی راعی اور پاسبان نہ ہو، وہ بھیڑیوں کے رحم وکرم پر ہوتا ہے،جس کاروان کا میرِ کارواں نہ ہو، اُسے ہر گام خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ آج ہمارے بیرونی دشمن اپنے دانت تیز کئے ہوئے ہیں اور بد قسمتی سے اُن کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی صلاح الدین ایوبی ہے، نہ محمد بن قاسم۔ آج امت اس بات کی شدت سے محتاج ہے کہ اسے کوئی محمود غزنوی یا طارق بن زیاد دستیاب ہو جائے۔ اللہ کی قدرت سے یہ کچھ بعید تو نہیں، مگر قانونِ فطرت یہ ہے کہ لوگ خود کو نہ بدلیں تو اللہ ان کی تقدیر نہیں بدلتا۔ ہم اسلامی اصولوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ بحیثیت مجموعی امت مسلمہ کے اندر اخلاقی زوال انتہا کو پہنچ چکا ہے، دیانت و امانت کا جنازہ نکل گیا ہے اور دولت کی ہوس نے ہر شخص کو اندھا کر دیا ہے۔ ان ہی بیماریوں کی وجہ سے مسلمان سہل نگار اور عیش کوش بن گئے ہیں۔ ایسے لوگ موت سے خوف کھاتے اور خطرات سے گھبراتے ہیں۔ جسے عزت درکار ہو اسے مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی روش اپنانی چاہیے۔

تمنا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کرلے !

مغربی دنیا میں ہمیشہ اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، مگر جب سے انقلابِ فرانس آیا، اس دنیا میں ملکوں کی پالیسیاں اور منزل کا تعین تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک ہی ڈگر پر رواں دواں ہے۔ ہٹلر آجائے یا میسولینی، آج کے دور میں ٹرمپ امریکی صدر ہو یا تھریسامے برطانوی وزیراعظم، ان کی قومی پالیسیوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ ہر عجیب اور آن ہونے واقعہ کے بعد سادہ مزاج لوگوں کو بہت دور رس تبدیلیوں کا خطرہ یا امید ہوتی ہے، مگر تہذیب مغرب کے پروردہ لوگوں کا سفر اپنی طے شدہ منزل کی جانب معمول کے مطابق رواں دواں رہتا ہے۔ اب مغربی دنیا میں ایک بنیادی فرق واقعہ ہو رہا ہے، وہ ہے آبادی کا بدلتا ہوا تناسب۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بحیثیت مجموعی عالمِ مغرب میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور غیر مسلم بھاری اکثریت کے باوجود سکڑ رہے ہیں۔

 مختلف اوقات میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، جو خطرے کی گھنٹی بجاتے ہیں۔ ان کے نتائج و عواقب کیا ہوں گے؟ ۔ حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے، مگر لگتا ہے کہ شر میں سے خیر برآمد ہوگا۔۔۔ ’’ شرّے برانگیزد عدو کہ خیرے مادر آں باشد‘‘۔۔۔نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اس کے سیاسی میدان میں اترنے کے ساتھ ہی واضح ہو گئی تھی۔ وہ بظاہر ایک غیر متوازن، غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دار شخص ہے، لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیش نظر چند خاص مقاصد ہیں۔ ان میں سے ایک نسلی تفاخر اور عصبیت پر مبنی احساسِ برتری ہے اور دوسرا مسلمانوں کو دباؤ میں رکھنا، بلکہ اس کا بس چلے تو ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا، تیسرا چین کو اپنے عالمی اثرات بڑھانے سے روکنا۔ اس کے لئے اس نے روس کی رضامندی حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، اس میں اسے کہاں تک کامیابی ہو گی، یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ روس کا لیڈر ولاڈی میر پیوٹن بظاہر ٹرمپ کا دوست ہے، مگر اس کے رگ و ریشے میں بھی امریکی بالادستی کے خلاف شدید مزاحمت کے جذبات موجود ہیں۔ ٹرمپ نے مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لئے بھارت کے ساتھ  بے تحاشا محبت کی پینگیں بڑھائی ہیں۔ بھارت کا بنیا مودی بھی انتہائی زہریلا، متعصب ہندو اور مسلم دشمن شخص ہے۔ یہ حالات نظر بظاہر مسلمانوں کے لئے مایوس کن ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کیا ہے، یہ وہی جانتا ہے۔
کینیڈا کی مسجد پر حملہ ہوا تو موقع پر چھ بے گناہ نمازی شہید اور آٹھ دس شدید زخمی ہوگئے۔ اس پر کینیڈا کے وزیراعظم نے مسلمانوں کے ساتھ مکمل اظہار ہمدردی و یکجہتی کا اعلان کیا۔ ایک روز قبل امریکہ کے شہر ٹیکساس کے علاقے وکٹوریہ میں ٹرمپ کے ہم خیال امریکیوں نے مسجد کو جلا کر راکھ بنا دیا۔ اس گھناؤنے جرم کی نہ کسی کو سزا ملی، نہ اس پر امریکی حکومت کا کوئی مناسبِ حال رد عمل سامنے آیا، لیکن کیا مسلمان مسجد کے جلائے جانے کے بعد دبک کر بیٹھ گئے؟ نہیں، ایسا ہر گز نہیں۔ مسلمانوں نے مسجد کے لئے چندے کا اعلان کیا تو ایک دن میں آٹھ لاکھ ڈالر جمع ہو گئے۔ چندہ دینے والے اٹھارہ ہزار افراد میں سے چند افراد ایسے بھی تھے، جو مسلمان نہیں، مگر مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے انہوں نے بھی چندہ دے کر اپنی انسان دوستی کا ثبوت دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلام دشمن بیانات کے جواب میں امریکہ کی سابق سیکرٹری خارجہ (2001۔1997ء) مڈلین البرائٹ نے اعلان کر دیا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسلام دشمن کارروائیاں جاری رہیں تو وہ آئندہ اپنے آپ کو مسلمان کے طور پر رجسٹر کروائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امیگریشن قوانین میں مسلمانوں پر لگائی جانے والی پابندیاں غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہیں۔ ٹرمپ نے سات مسلمان ملکوں کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائی تو عدالت نے اس کے اس حکم کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ امریکہ کے ایک ڈیموکریٹ سینیٹر جم ڈیباکس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کو پاگل پن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نئی انتظامیہ کے اقدامات پر پاکستان اور مسلمانوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں۔ پاکستانی امریکیوں کے دل کے بہت قریب ہیں۔ امریکیوں کی اکثریت اس پاگل پن کے خاتمے کے لئے کام کر رہی ہے۔ ہم مسلم کمیونٹی اور تمام پاکستانیوں سے شرمندہ ہیں۔

 امید ہے تھوڑے عرصے میں ہم چیزیں بہتر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لوگوں سے کہتا ہوں کہ تھوڑا صبر کریں، کانگرس جلد امریکی صدر کے اختیارات کم کر دے گی اور اس پاگل پن سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اس طرح کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وقت اگرچہ بہت قریب نہیں، جب مغربی دنیا میں مسلمان اکثریت میں ہوں گے، مگر یقیناًوہ بہت زیادہ دور بھی نہیں۔ تاتاری بھی بدترین اسلام دشمن تھے۔ آخر کار یہ گنوار اور قاتل اسلام دشمن ایک واقعہ سے اسلام کی آغوش میں آ گئے تھے۔ مغرب بھی اس جانب ضرور پیش قدمی کرے گا اور اس کا سبب ڈونلڈ ٹرمپ جیسے متعصب اور انتہا پسند لیڈر بنیں گے، اقبال نے بہت پہلے کہا تھا:

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ!

قرآن پاک میں اللہ کا ارشاد ہے : ’’ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لئے بہتر ہو۔۔۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لئے بُری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔۔۔ (البقرۃ216:2)

حافظ محمد ادریس

Post a Comment

0 Comments