Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ٹرمپ اور بریگزٹ نے نظام کو ہلا کر رکھ دیا

سال 2016ء نے اکیسویں صدی کی سب سے بڑی ڈرامائی انتخابی مشقیں ملاحظہ
کی ہیں۔ بریگزٹ : ریفرینڈم جس میں برطانویوں نے یورپی یونین سےعلاحدگی کے حق میں ووٹ دیا اور اب امریکا کے صدارتی انتخابات میں جیت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس پہنچنا۔ جون میں منعقدہ بریگزٹ ووٹ کے مضمرات و عواقب ابھی تک غیر واضح ہیں اور ٹرمپ کی جیت کے جائزے میں برسوں نہیں تو مہینوں ضرور لگیں گے۔ ان ہر دو صورتوں کا اگر زیادہ باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے تو ان کے مضمرات بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ بہت سے لوگ ان دونوں زلزلوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بھی ایک کوشش ہی ہے۔

سیاسی ریختر اسکیل پر یہ دونوں زلزلے تھے اور ان سے ووٹ ڈالنے والوں کو سبکی ہوئی ہے۔ دونوں ''مزاحمتی'' مہمیں ایک حقیقی سیاسی منصوبے کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہیں۔ یہ دراصل موجودہ سیاسی آرڈر کا بڑے پیمانے پر استرداد ہے جہاں مہارت اور حقائق کی کچھ اہمیت نہیں ہوتی ہے اور انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ امید کی ایک کرن یہ ہے کہ ان دونوں انتخابات میں نوجوانوں کی بڑی اکثریت نے ووٹ نہیں دیا ہے اور یہ کوئی نوجوانوں کا انقلاب نہیں تھا۔ البتہ قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ ان دونوں مہموں نے یہ واضح کردیا ہے کہ یہ دونوں قومیں کس قدر منقسم اور بٹی ہوئی ہیں۔ اس معاملے میں یہ دونوں ممالک اکیلے نہیں ہیں۔ آیندہ ماہ آسٹریا کے صدر کے انتخاب کے دوسرے مرحلے کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت فریڈم پارٹی کے نوربرٹ ہوفر شاید جیت جائیں گے۔ آیندہ سال فرانس کے صدارتی انتخابات میں میرین لی پین کی جیت کےامکان کو کون مسترد کرسکتا ہے؟ یورپ کے جمہوری کلچر کو ایک تاریخی چیلنج درپیش ہوگا۔
دونوں انتخابات میں مضحکہ خیز نعرے لگائے گئے تھے۔ مثلاً ''کنٹرول واپس لیں'' اور ''امریکیوں کو ایک مرتبہ پھر عظیم بنائیں'' ایسے نعرے بلند کیے گئے۔ٹرمپ نے بہ ذات خود بریگزٹ سے آگے بڑھنے کا غلغلہ بلند کیا اور وہ ''بریگزٹ پلس، پلس ،پلس '' کے نعرے بلند کرتے رہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں مایوس ووٹروں نے منفی راستے کا انتخاب کیا، موجودہ نظام کو مسترد کیا اور انھوں نے یہ سب کچھ مکمل طور پر ایک غیر واضح راستے کے حق میں کیا۔ طبقہ اشرافیہ بری طرح ناکام ہوا ہے۔ بریگزٹ کے صف اول کے سیلزمین بورس جانسن بھی شاید مشکل ہی سے جانتے ہوں گے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ برطانوی حکومت ابھی تک اس سے آگاہ نہیں۔ ٹرمپ صاحب کے پالیسی بیانات عام طور پر ایک سو چالیس الفاظ یا اس سے بھی کم پر مشتمل ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ چند ایک اہم عہدوں کے سوا یقین سے کوئی نہیں جانتا کہ صدر ٹرمپ کیا کریں گے،بالکل ہماری طرح کوئی نہیں جانتا کہ بریگزٹ برطانیہ کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ ہوگا۔

تعصب ، نفرت اور نسل پرستی ان دونوں مہموں اور خاص طور پر ٹرمپ کی مہم میں ایک ایندھن کے طور پر کام کررہے تھے۔ اب نسل پرستی ایک انتخابی اثاثہ ٹھہرا ہے۔ برطانیہ میں اگرچہ بریگزٹ مہم کا مہاجرین ،تارکین وطن اور مسلم مخالف جذبات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اس نے ٹرمپ کی ریلیوں کی گیرائی اور گہرائی کو سمجھنے کا آغاز بھی نہیں کیا تھا۔ ٹرمپ نے جان بوجھ کر اور کھلے عام منافرت ، نسل پرستی اور صنفی فاشسٹ پر مبنی مہم چلائی اور ایسی مہم تو شاید ہی کسی جمہوری قوم نے دیکھی ہوگی۔ اگرچہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں اور انھوں نے جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ وہ نفرت اور تقسیم کی بنیاد پر افسوس ناک انداز میں انتخابات تو جیت سکتے ہیں لیکن وہ اتفاق رائے اور اتحاد کے ساتھ ہی ملک کا نظم ونسق چلا سکتے ہیں۔

انتہا پسند گُرگے
دنیا بھر میں ہر جگہ دائیں بازو کے انتہاپسند ڈیوڈ ڈیوک سے گیرٹ وائیلڈرز ، نیجل فراج اور وکٹر اوربن تک ٹرمپ کی جیت پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ اس سے لبرل اقدار اور انسانی حقوق کے دور کا آغاز ہوگا۔ بہت سے لبرلز نے نسل پرستی اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے جو تاریخی جدوجہد کی تھی،وہ اب عشروں پیچھے چلی گئی ہے۔ اس سے امریکا ، برطانیہ اور جن دوسرے ممالک میں دائیں بازو کے احیاء کا تجربہ ہو رہا ہے،ان کے معاشروں میں عدم تفاوت اور تفریق بھی نمایاں ہوگئی ہے۔ ان اختلافات کا بآسانی ازالہ نہیں کیا جاسکے گا۔ ٹرمپ کو منتخب ہونے کے لیے ان اختلافات کو منظرعام پر لانے کی ضرورت تھی لیکن اب انھیں ملک چلانے کے لیے ان میں سے بعض کا ازالہ کرنا ہوگا۔

برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاء ایک طویل المیعاد فیصلے کا نتیجہ تھا۔ اس کے ذریعے اس نے نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات پر مکمل طور پر نظرثانی کی ہے۔ اس سے برطانیہ بھی بکھر سکتا تھا۔ جن لوگوں نے ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیا ہے،ان کے لیے ریلیف یہ ہے کہ وہ آیندہ چار سال کے دوران انھیں اقتدار سے نکال باہر بھی کرسکتے ہیں۔ تقسیم اور نفرت بہت گہری ہے۔ بریگزٹ والوں نے یورپی یونین کو مسترد کردیا تھا لیکن ان سب نے یہ دعوے کیے تھے کہ وہ پوری دنیا کے لیے اپنے در وا کرنا چاہتے ہیں اور نئے سرے سے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ آزاد تجارت کے مخالف ہونے کے دعوے دار ہیں (حالانکہ وہ ایک طویل عرصے تک اس سے مستفید ہوتے رہے ہیں)۔ وہ اب امریکا کے مختلف تجارتی معاہدوں کو ختم کردیں گے۔

بریگزٹ ایک مبہم مہم تھی اور اس نے کلنٹن کی غیر جاذب اور کسی وژن کے بغیر کوشش کی طرح مشکل سے ہی متاثر کیا تھا۔ تا ہم ٹرمپ ہجوم سے کھیل رہے تھے اور ایک رومن شہنشاہ کی طرح لوگوں کی تفریح طبع کا ساماں کررہے تھے۔ ان کی مہم توانا تھی ،اس سے لوگ محظوظ ہورہے تھے اور یہ کبھی شہ سرخیوں سے غائب نہیں رہی تھی۔ ان کے جارحانہ انداز نے مہم کو اور مہمیز دی تھی۔ اب اس بات کا کم امکان ہے کہ وہ اسی انداز میں حکومت بھی کریں۔ بہر کیف ،ان دونوں منصوبوں کو مکمل یا جزوی طور پر ناکام ہوتے ہوئے دیکھنا مشکل ہو گا۔بریگزٹ سے پورے یورپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے،صرف یورپی یونین ہی کو نہیں۔عشروں تک وہ ایشوز حل نہیں ہوں گے جن کی برطانیہ میں بہت سے لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں کے حوالے سے بہت کم لب کشائی کی ہے،اس لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی موٹی چھوٹی انگلیوں سے کوئی کرتب کر دکھائیں گے اور ان کے ذریعے ایک ہیٹ سے خرگوش نکال باہر کریں گے۔
ترقی پسندوں کو بعض دردناک سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت تھوڑے لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ عالمگیریت کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں اور انھیں اپنی شناخت کے کھو جانے کا بھی خطرہ لاحق ہے۔ امریکا ،برطانیہ اور یورپ کے بیشتر ممالک میں آبادی کی بڑی اکثریت تبدیلی پر خوشی سے نہال ہے۔یہ ووٹر ،اگر دائیں بازو کے انتہا پسند ناکام ہوتے ہیں تو کسی خود کار طریقے سے وسطی جماعتوں کے بازوؤں میں نہیں آ گریں گے۔ اس کے لیے تازہ وژن اور ایک ایسی قیادت درکار ہے جو حقیقی اور پائیدار تبدیلی لا سکے۔

کرِس ڈوئل

کرِس ڈوئل لندن میں قائم کونسل برائے عرب برطانیہ مفاہمت کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ 1993ء سے اس کونسل کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انھوں نے ایکسٹر یونیورسٹی سے عربی اور اسلامیات میں درجہ اول میں آنرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ ٹی وی اور ریڈیو کے پروگراموں میں مشرق وسطیٰ سے متعلق امور پر ایک تجزیہ کار اور مبصر کی حیثیت میں آتے رہتے ہیں۔ان کی تحریریں برطانیہ اور بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہوتی ہیں۔ وہ برطانیہ کے مختلف پارلیمانی وفود کے ہمراہ اور از خود بھی کم وبیش تمام عرب ممالک کے دورے کرچکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست اور اس کو درپیش مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔

Post a Comment

0 Comments