Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

امریکی انتخابات : کیا عرب بھی کچھ سیکھیں گے؟

امریکی  نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں اور وائٹ ہاؤس میں نیا داخل ہونے والا یا والی وہاں آیندہ چار سال تک قیام کے لیے اپنا رختِ سفر باندھ رہا ہوگا یا ہوگی۔ آیندہ چوبیس گھنٹے کے دوران بہت سے عرب ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھ کر یا سوشل میڈیا کے ذریعے امریکا میں رونما ہونے والے واقعات کو ملاحظہ کر رہے ہوں گے۔ امریکا کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ منقسم انتخابات ہیں اور انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کی داخلی امور پر ہی توجہ مرکوز رہی ہے۔ اس صدارتی دوڑ میں امیدواروں کے درمیان سخت اور کھلا مقابلہ ہے لیکن یہ مقابلہ عربوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
وائٹ ہاؤس کی امیدوار ہلیری کلنٹن اسرائیلیوں کے آگے بالکل جھک چکی ہیں اور انھوں نے بڑے بے وقار انداز میں اسرائیلیوں کو لبھانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بیانات جاری کیے ہیں اور اس قسم کے ارادے کا اظہار کیا ہے کہ وہ اوول آفس میں سب سے پہلے جس غیرملکی لیڈر کو ملاقات کے لیے مدعو کریں گی،وہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ہوں گے۔ انھوں نے اپنے انداز میں ایک ایسی حکومت کی حمایت کی تصدیق کی ہے جو قابض ہے،جبر واستبداد کے ہتھکنڈے بروئے کار لا رہی ہے ،نوعمر بچوں کو قتل کررہی ہے اور نسل پرستی کی بدترین شکل کو عملی جامہ پہنا رہی ہے۔ وکی لیکس نے حال ہی میں ان کی جن ای میلز کو افشا کیا ہے،ان سے یہ انکشافات ہوئے ہیں کہ وہ اسرائیل کے مفاد میں شام کی تباہی میں یقین رکھتی ہیں۔ وہ ایک ایسی عورت بھی ہیں جس کو ان عورتوں کو دبانے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے جنھوں نے ان کے خاوند پر عصمت ریزی کے سنگین الزامات عاید کیے تھے۔عرب ایک ایسی عورت سے کیسے معاملہ کریں گے جو اقتدار کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ جو عرب یہ خیال کرتے ہیں کہ ہلیری کلنٹن ان کے لیے بہتر رہیں گی تو انھیں خبردار ہوجانا چاہیے کہ انھیں اچانک دھچکا لگنے والا ہے۔

کچھ فائدہ نہیں! 
ان کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی عرب موقف کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ اجڈ اور نا تجربے کار ہیں۔ وہ وہی کچھ کریں گے جس کو اپنے مفاد میں بہتر خیال کریں گے۔ آخر کار وہ ان عربوں کے کیوں ہمدرد ہونے لگے جو خود ہی ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جاری سیاسی طوائف الملوکی کے پیش نظر وہ کوئی قدم اٹھانے میں متردد ہوں گے۔ اس لیے عرب دنیا کو دونوں امیدواروں سے کوئی زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرلینی چاہییں۔ تاہم سب سے خطرناک بہت سے چہروں والی عورت ہلیری کلنٹن ہے۔ کیوں کہ بہت سے عربوں کی سیاسی تعلیم نہیں ہوتی، وہ اپنے طور پر بھی امریکی سیاست کو سمجھنے کے لیے تحقیق نہیں کرتے ہیں یا بہتر امیدوار کا انتخاب کرنے کے لیے بھی اپنے طور پر کوئی کام نہیں کرتے ہیں،اس لیے انھیں انجام کار مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی توقعات خاک میں مل جاتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عرب بھی کبھی کچھ سیکھیں گے؟ 

خالد المعینا
-----------------------------------------
خالد المعینا سعودی عرب کے سینیّر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔وہ سعودی عرب کے مختلف میڈیا اداروں میں گذشتہ تیس سال کے دوران مختلف عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔آج کل وہ اخبار سعودی گزٹ کے ایڈیٹر ایٹ لارج ہیں۔ ان سے ای میل kalmaeena@saudigazette.com.sa پر برقی مراسلت کی جا سکتی ہے۔ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ یہ ہے: @KhaledAlmaeena

Post a Comment

0 Comments