Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

وہ ایک فرمان جس نے داعش کو جنم دیا

دو ہزار تین میں اس وقت بی بی سی کے نامہ نگار وسعت اللہ خان عراق گئے تھے۔ زیرِ نظر کالم بی بی سی اردو کے لیے ان کی یاداشتوں پر مبنی خصوصی تحریر کا دوسرا اور آخری حصہ ہے۔ عراق اور عراق کی وجہ سے اردگرد کی دنیا جس عذاب میں گرفتار ہے اس کی وجہ دو ہزار تین میں امریکی و برطانوی فوج کشی سے زیادہ شاید یہ ہے کہ بعد از صدام عراق کا کوئی طویل المیعاد نقشہ نہ واشنگٹن کے پلے تھا نہ لندن کے ذہن میں۔ برطانیہ اگر چاہتا تو دنیائے عرب میں اپنے سو سالہ نوآبادیاتی تجربے کی روشنی میں امریکیوں کو عراقی عربوں کی نفسیات کے نازک پہلوؤں کے بارے میں خبردار کرسکتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے آج کی برطانوی اسٹیبلشمنٹ میں کوئی اورینٹلسٹ (ماہرِ مشرقیات) نہیں۔ ٹونی بلیئر اور بش اپنے مستشرق خود ہی تھے۔ 

یہ اورینٹلسٹ ہی تو تھے جنھوں نے پہلی عالمی جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی نوآبادیاتی بندر بانٹ میں کلیدی مشاورتی کردار ادا کیا۔ مثلاً برطانوی عربی داں، ادیبہ، سیاح، ماہرِ آثارِ قدیمہ، برٹش انٹیلی جینس افسر اور محقق گرٹروڈ بیل نے 1920 میں شکست خوردہ سلطنتِ عثمانیہ کے صوبے بلادِ بصرہ و بغداد و کردستان کو بلادِ شام کے کچھ علاقوں سے ملا کر جدید عراق کی پیدائش اور اسے برطانیہ کے نوآبادیاتی اثر میں رکھنے کے لیے بینادی کردار ادا کیا۔ عراق کی جغرافیائی و سیاسی تشکیل کے چھ برس بعد مس بیل کا انتقال ہو گیا اور وہ بغداد کے برطانوی جنگی قبرستان میں دفن ہیں۔ بغداد یونیورسٹی کے شعبہِ عمرانیات کے جواں سال استاد ڈاکٹر معلم الجبیر نے میرے لیے کوزے میں دریا بند کرتے ہوئے کہا ’یوں سمجھیے کہ گرٹروڈ بیل کرنل لارنس (لارنس آف عربیہ) کا زنانہ روپ تھیں‘۔
تئیس مئی (دو ہزار تین) کو بغداد سے موصل جاتے ہوئے میں صدام حسین کے آبائی علاقے تکریت کے ایک سکول میں رکا۔ بچے نہیں تھے مگر ٹیچرز تھے۔ اچھی خاصی خوش گپیاں ہو رہی تھیں کہ ایک ٹیچر کمرے میں داخل ہوا اور بلند آہنگ میں دو چار جملے کہے۔ مجلس پر اوس پڑ گئی۔ جو ہنس رہا تھا اس کے جبڑے وہیں منجمد ہو گئے۔ جس کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا وہیں رہ گیا، جو ہاتھ بسکٹ اٹھا رہا تھا منجمد ہوگیا۔ مجھے صرف پال بریمر، بعث اور جیش کے الفاظ ہی پلے پڑ سکے۔ خبر یہ تھی کہ عراق کے امریکی منتظم پال بریمر نے آرڈر نمبر دو جاری کیا ہے جس کے تحت عراقی فوج، نیم فوجی ادارے اور انٹیلیجنس کا ڈھانچہ تحلیل کر دیا گیا ہے تاکہ صدام حسین کے بعثی اثرات سے پاک ایک نیا سکیورٹی ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکے۔ کمرہ پانچ چھ منٹ کے لیے سناٹے میں ڈوب گیا اور پھر پتلوں میں آہستہ آہستہ حرکت پیدا ہونے لگی اور حرکت گرم بحث میں بدلنے لگی۔ میزبان بھول گئے کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی بھی موجود ہے۔

جب پندرہ بیس منٹ بعد بحث کا جھاگ کچھ بیٹھا تو ایک ٹیچر نے مجھے عربی سے آلودہ انگریزی میں مباحثے کا لبِ لباب بتایا کہ ’ہمارا یہ خیال ہے کہ پال بریمر کے اس فیصلے نے عراقی مستقبل کی کمر توڑ دی ہے۔ اس فیصلے سے تقریباً ایک ملین فوجی، نیم فوجی اور انٹیلیجنس اہلکار متاثر ہوں گے۔ ان میں اکثریت سنیوں کی ہے اور ہمارے تکریتی سنی ان اداروں میں سب سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے اکثر فوجی اور اہلکار نظریاتی نہیں تھے صرف نوکری کر رہے تھے۔ بس اوپر کے لوگ نظریاتی بعثی تھے۔ مگر پال بریمر نے گدھے گھوڑے سب کو ایک سزا دی ہے۔ اب لاکھوں فوجی جب اچانک بے روزگار ہوں گے تو سوچیے کیا ہوگا۔ یہ سب لوگ مایوس ہو کر گھر چلے جائیں گے۔ متعدد جرائم پیشہ ہو جائیں گے اور بہت سے انتقام میں اندھے ہو کر بدلہ لیں گے یا پھر کسی بھی ایسے شخص کے لیے ہر کام کریں گے جو ان سے روٹی اور عزت دینے کا وعدہ کرے۔‘
 
مارچ دو ہزار تیرہ میں پال بریمر نے برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ ’بغداد پر قبضے کے بعد ہم سے شروع میں سنگین غلطیاں ہوئیں۔ ان میں سے ایک غلطی عراقی فوج کی مرحلہ وار تطہیر کرنے کے بجائے اسے مکمل تحلیل کرنے کا فیصلہ تھا۔ مگر یہ میرا تنہا فیصلہ نہیں تھا۔ یہ فیصلہ واشنگٹن اور لندن کو اعتماد میں لے کر کیا گیا‘۔ آج ٹھیک تیرہ برس بعد جب میں اپنی عراقی یادیں کھنگال رہا ہوں تو یوں لگ رہا ہے کہ صدام حسین لاکھ برا سہی مگر اس کے بوٹوں نے عراقی فالٹ لائنز کو دبا کے رکھا ہوا تھا اور ملک میں ایک جبری امن قائم تھا۔ قابض طاقتوں نے صدام دور کے کلیدی ادارے یکلخت تحلیل کر کے گویا اس دیگ کا ڈھکن اڑا دیا جس میں نسلی، علاقائی و مذہبی تضادات کا تیزاب ابل رہا تھا۔ گویا پال بریمر کا فرمان نمبر دو شاید عراق میں القاعدہ اور پھر القاعدہ کے بطن سے داعش کی پیدائش کا اعلان تھا۔ تین ماہ بعد 19 اگست (دو ہزار تین) کو بغداد کے کینال ہوٹل میں اقوامِ متحدہ کے دفاتر کے باہر پہلا دھماکہ ہوا جس میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے عراق سرگئیو ڈی میلو سمیت 22 افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ پہلا بڑا دھماکہ تھا۔ اس کے بعد سے عراق میں گنتی بھی گنتی بھول گئی۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments