Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ریگن کا گوربا چوف کو چیلنج

1987ء کو دنیا بھر میں سرد جنگ کی سی فضا تھی۔ 12 جون کو امریکی صدر
رونلڈ ریگن نے سویت یونین کے رہنما گوربا چوف کو چیلنج کرتے ہوئے یہ چیلنج دیا کہ جرمن کو منقسم کرنے والی برلن دیوار کو گرا کر دکھائیں۔ 1945ء میں جرمن کو دوسری جنگ عظیم میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو جرمن کے دارالحکومت برلن کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اس کے مغربی حصے کو امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا تسلط تھا اور وہی اس کو کنٹرول کر رہے تھے جبکہ مشرقی علاقے پر یہاں کا کنٹرول سوویت یونین کے پاس آیا۔ برلن کے تیسرے حصے کا تسلط اور کنٹرول جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کو دیا گیا۔ 1952ء میں دونوں حصوں کے درمیان باقاعدہ باڈر بنا دیا گیا۔
بات یہاں ہی نہیں رکی اور 1961ء میں ایسٹ جرمن گورنمنٹ نے باقاعدہ دیوار بنا دی تا کہ ان کے شہری مغربی حصے کی طرف نہ جا سکیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 2.5 ملین آبادی مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی شفٹ ہو گئی تھی۔ اس دیوار کے حوالے سے امریکی صدر ریگن نے 1987ء کو ویسٹ برلن میں ایک ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سویت یونین اس وقت اپنے گناہوں کی ایک تلافی یہ کر سکتا ہے کہ وہ آزادی اور امن کے لیے آگے بڑھے اور اس دیوار کو پاش پاش کر دے۔ گوربا چوف، اگر آپ امن کی تلاش میں ہیں اور سویت یونین کے لیے ترقی کے خواہاں ہیں، اگر آپ آزادی کے متولے اور متلاشی ہیں تو یہاں آؤ، اس دروازے پر ہم آپ کے منتظر ہیں، آؤ اور اس دروازے کو کھولو، اس دیوار کو گرا دو۔ 

اس چیلنج کے بعد ریگن نے سنجیدہ انداز میں گوربا چوف کو اسلحہ میں تختیف کے حوالے سے اقوام متحدہ سے مذاکرات کی دعوت دی۔ سویت یونین کو یہ چیلنج اچانک نہ ملا تھا بلکہ مبصرین کا خیال تھا کہ اس سے قبل گوربا چوف نے اپنے ایک بیان میں ویسٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور اپیل کی تھی کہ امریکہ دنیا کو اس سرد مہری اور سرد جنگ سے نکالے۔ دونوں رہنماؤں کے ان بیانات کے اثرات اس طرح سے مرتب ہوئے کہ 3 اکتوبر 1990ء کو مغربی اور مشرقی جرمن نے دیوار برلن کو توڑ کر ایک ہونے کا اعلان کر دیا۔ گوربا چوف جو کہ 1985ء سے بر سر اقتدار تھے، 1991ء کو اپنے عہدے سے معزول ہوئے اور ریگن نے 1981ء سے 1989ء تک امریکی صدر کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دیئے تھے۔ وہ 93 کی عمر میں 5 جون 2004ء کو دنیا چھوڑ گئے تھے۔
منصور حسین


Post a Comment

0 Comments