Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

گوانتانا مو کا بے گناہ قیدی

امریکی سول لبرٹیز یونین نے وزیر دفاع ایشٹن کارٹر سے گوانتانامو کے عقوبت
خانے سے ایک قیدی کی رہائی کے لئے اپیل کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ یہ قیدی محمد اولد صلاحی ہے۔ صلاحی کو2002ء میں کسی الزام کے بغیر اس عقوبت خانے میں پھینکا گیا تھا۔ اُس وقت کے وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ نے اس قیدی پر تشدد کرنے کے لئے ذاتی طور پر احکامات جاری کئے تھے۔ ان احکامات کے بعد اس بے گناہ قیدی پر ظلم و ستم کی حد کر دی گئی، اُسے قید تنہائی میں رکھا جاتا، مار پیٹ روزانہ کا معمول تھا۔ جنسی تشدد اور تذلیل بھی عام بات تھی، لیکن اُسے اُس کی ماں سے بھی ایسا ہی سلوک کرنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں۔

صلاحی کا تعلق موریطانیہ سے ہے۔ اُس پر القاعدہ سے تعلق کا شبہ تھا۔ امریکیوں نے2001ء میں اُسے پکڑ کر اُردن کے حوالے کر دیا گیا جہاں اُسے سخت ترین عذاب سے گزارا گیا۔ آٹھ ماہ تک اردنی جیل میں طرح طرح کے عذاب سہنے کے بعد اُسے ایک بار پھر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ امریکہ نے اُسے افغانستان کی بدنام ترین جیل بگرام میں ڈال دیا۔ بگرام سے اُسے خلیج گوانتانامو میں واقع امریکی اڈے میں قائم عقوبت خانے میں لا پھینکا گیا۔ اُسے کئی ماہ تک قید تنہائی میں رکھا جاتا رہا، اُسے ٹھنڈی یخ کوٹھڑی میں بند کیا گیا اور اُس میں بھی اُسے کوٹھڑی کے فرش کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا، اُسے کئی کئی روز کھانے پینے سے محروم رکھا جاتا اور نمکین پانی پینے پر مجبور کیا جاتا۔
اُسے ایک تنگ کوٹھڑی میں کھڑا کر کے اُس پر تیز روشنی کا بلب لگا دیا جاتا اور پُرشور موسیقی سے اُسے پریشان کیا جاتا تھا۔ اُسے دھمکیاں دی جاتی تھیں کہ اس کی ماں اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو بھی ایسے عذاب میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اُسے مارا پیٹا جاتا تھا اور اُس پر بے خوابی کا عذاب مسلط کیا جاتا تھا جسے جیل حکام کی زبان میں ’’Frequent Flyer‘‘ کہا جاتا تھا، جب صلاحی سونے لگتا تھا تو اُسے زبردستی جگا دیا جاتا تھا اور پھر گھنٹوں سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ اُسے کئی بار یہ بھی بتایا گیا کہ اُس کی ماں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے اور اُسے بھی گوانتانامو کے عقوبت خانے میں لایا جا رہا ہے۔

ایک فوجی وکیل کو ابتدائی طور پر اُس کے خلاف مقدمہ چلانے کے فرائض سونپے گئے۔ اُس کے ساتھ جو کچھ بیتتا رہا وہ کوئی کہانی نہیں، نہ کوئی سُنی سنائی داستان ہے۔ گوانتانامو میں جیل سے بدسلوکی اور تعذیب کی شکایات سامنے آئیں تو 2009ء میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کی کمیٹی نے تحقیقات کی اور اس تحقیق کے نتیجے میں صلاحی پر گزرنے والی قیامت کی تصدیق بھی کی گئی اور اس کے شواہد بھی جمع کئے گئے۔ ملٹری کمیشن میں صلاحی پر مقدمہ چلانے کے ذمہ دار فوجی میرین کور کے لیفٹیننٹ کرنل سٹیوارٹ کاؤچ اس نتیجے پر پہنچے کہ صلاحی سے جو بیانات حاصل کئے گئے تھے وہ غیر انسانی بہیمانہ تشدد کے ذریعے حاصل کئے گئے تھے۔ یہ بیانات دیتے وقت صلاحی کی جو ذہنی اور جسمانی حالت تھی ایسی حالت میں کسی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں بنتی۔ سٹیوارٹ کاؤچ نے اپنے سپروائزر سے صاف کہہ دیا کہ جو کچھ صلاحی سے ہوتا رہا ہے، اخلاقی طور پر وہ اُس کے خلاف ہے اور اس بنا پر اس مقدمے میں شریک نہیں ہو سکتا۔
اس مرحلے میں امریکن سول لبرٹیز یونین بھی گوانتانامو کے اس بے گناہ قیدی کا دفاع کرنے والے وکلاء کے ساتھ شامل ہو گئی۔ ان تمام وکلاء اور وکلاء و انسانی حقوق کی تنظیموں نے صلاحی کو حبسِ بے جا میں رکھنے کی بنا پر ایک اپیل دائر کر دی۔ ان وکلاء اور تنظیموں کا دعویٰ تھا کہ حکومت کے پاس صلاحی کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے، نہ صرف یہ کہ اُس وقت کوئی ثبوت نہیں تھا، جب اُسے2001ء میں گرفتار کیا گیا، بلکہ اب بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ 2010ء میں ایک فیڈرل جج نے فیصلہ سنایا کہ وفاقی حکومت (امریکہ) صلاحی کو قید میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں رکھتی۔ عدالت کے مطابق صلاحی کے خلاف الزام، کہ اُس نے نام نہاد ’’ملینیم پلاٹ‘‘ جس میں لاس اینجلس ایئر پورٹ پر حملے کی منصوبہ بندی شامل تھی اور یہ کہ اُس نے نائن الیون حملے کے لئے دو ہائی جیکروں کی خدمات حاصل کی تھیں، ثابت نہیں ہو سکے نہ ہی صلاحی کے القاعدہ سے تعلق کا کوئی ثبوت مل سکا اِس لئے حکومت کو صلاحی کو غیر معینہ مدت کے لئے قید رکھنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ عدالت کے فیصلے کے باوجود حکومت کو اصرار تھا کہ صلاحی مجرم ہے۔ حکومت نے صلاحی کو رہا کرنے کے بجائے عدالت کے فیصلے کے خلاف واشنگٹن ڈی سی کی سرکٹ کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ کورٹ آف اپیل نے یہ معاملہ ایک بار پھر ڈسٹرکٹ کورٹ کو بھیج دیا۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس فیصلے کے بعد جو قوانین پاس کئے گئے اور جو حالات پیش آئے ڈسٹرکٹ کورٹ نئے سرے سے ان کی روشنی میں صلاحی کے مقدمے کی سماعت کرے۔

دس سال کے عرصے میں صلاحی پر نہ تو کوئی ٹھوس الزام عائد ہو سکا نہ کوئی ثبوت پیش کیا جا سکا، لیکن اسے عقوبت خانے میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اب امریکن سول لبرٹیز یونین اور کئی دوسرے ادارے مل کر اس کی رہائی کی مہم چلا رہے ہیں، لیکن صدر باراک اوباما جنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے آغاز ہی میں گوانتانامو کی جیل بند کرنے کا وعدہ کیا تھا، اِس جیل کو تو بند کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایک بے گناہ قیدی کی رہائی میں بھی ناکام ہیں۔ اب صلاحی کی قید کو14سال ہو چکے ہیں۔ بعض ممالک میں عمر قید 14سال تک محدود ہوتی ہے۔ جیل میں قیدیوں کی نیک چلنی اور بے گناہی کا جائزہ لے کر انہیں رہائی دینے کی سفارش کرنے والے بورڈ نے بھی صلاحی کی سفارش کی۔ صلاحی نے جیل میں ’’گوانتانامو ڈائری‘‘ کے نام سے اپنے اوپر گزرنے والی قیامت پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اس کتاب کو بھی خوب پذیرائی مل رہی ہے، پھر بھی گوانتاناموبے کا یہ قیدی جرم بے گناہی میں قید بھگت رہا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور صلاحی کی رہائی کے لئے کوشاں تنظیموں کا کہنا ہے کہ صلاحی کا معاملہ امریکہ کے انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا بھانڈہ پھوڑ دیتا ہے اور یہ واقعہ امریکہ کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ امریکہ جو دوسروں کو انسانی حقوق کا سبق پڑھاتا ہے، جسے دُنیا کے کسی خطے میں کسی کی نکسیر پھوٹنے پر بھی تشویش لاحق ہو جاتی ہے جو شکیل آفریدی کی رہائی کو فوجی تعاون کی امداد سے مشروط کر دیتا ہے، اس کے ہاں انسانی حقوق کا معیار یہ ہے کہ ایک قیدی پر 14 سال (چودہ سال) سے فرد جرم تک عائد نہیں کی جا سکتی۔ ایک بار ایک عدالت اس کی قید کو بے جواز بھی ٹھہرا چکی ہے، لیکن اسے رہا کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہی وہ تضاد یہی وہ دوغلا پن ہے، جس کی وجہ سے دُنیا بھر میں امریکی دعوؤں کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔

خود امریکہ کے انصاف پسند حلقے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور یہی وہ اصل وجہ ہے کہ دُنیا بھر میں ایک بھاری اکثریت امریکہ کو جنگی جرائم کا مرتکب خود سر اور طاقت کے نشے میں من مانی کرنے والا ملک قرار دے کر اس سے نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ دکھوں کے ان زخموں اور نفرت کے ان ناسوروں پر امریکی امداد (امریکن ایڈ) کے پھاہے رکھ کر انہیں چھپایا نہیں جا سکتا۔ امریکہ اگر اپنے شایان شان عزت اور وقار چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ دُنیا بھر میں اس سے محبت نہ سہی، اسے عزت کی نگاہ سے تو دیکھا جائے تو اسے انصاف اور برابری کے اصولوں کا دامن تھامنا ہوگا۔ اسے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے یکساں اصولوں یکساں انسانی حقوق اور سب سے یکساں سلوک کا رویہ اپنانا ہوگا۔ ڈیمو کریٹس محض یہ کہہ کر امریکی مظالم سے، بری نہیں ہو سکتے کہ یہ سب کچھ ریپبلکن دور میں ہوتا رہا ہے۔ یہ درست ہے، لیکن جن ریپبلکن نے یہ جنگی جرائم کئے، ان کے خلاف ڈیموکریٹس نے کیا اقدامات کئے؟ چلئے ان میں اس کی ہمت نہ سہی بے گناہوں کو رہا کرنے اور گوانتاناموبے کی جیل بند کرنے میں بھی ڈیمو کریٹس ناکام رہے ہیں۔ گویا ان معاملات میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن میں کوئی فرق نہیں، ایک ظلم ایجاد کرتا ہے، دوسرا ظلم کو روا رکھتا ہے۔

اشرف قریشی

Post a Comment

0 Comments