Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بے شک انصاف اندھا ہوتا ہے

آپ نے انصاف کی دیوی کا مجسمہ تو دیکھا ہوگا جس کی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھ میں ترازو ہے۔
گذشتہ روز کوئٹہ کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک میں ہونے والے فیصلے نے بتا دیا کہ انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا دکھائی بھی دے۔

بلوچ رہنما اکبر بگٹی قتل کیس کے تین ملزم سابق صدر جنرل پرویز مشرف، سابق وفاقی وزیرِ داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور سابق بلوچستانی وزیرِ داخلہ شعیب احمد شیروانی عدم ثبوت کی بنا پر بری، سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز، سابق گورنر بلوچستان اویس احمد غنی اور سابق ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی عبدالصمد لاسی مفرور اور سابق وزیرِ اعلیٰ جام محمد یوسف کا نام انتقال کے سبب خارج۔
عدالت نے دورانِ مقدمہ اکبر بگٹی کے صاحبزادے جمیل بگٹی کی یہ درخواست مسترد کر دی کہ تابوت کو تالا لگا کر دفن کیے جانے والے ان کے والد کی قبر کشائی کر کے باقیات کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے اور یہ کہ مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور سیکریٹری جنرل مشاہد حسین کو بھی شہادت کے لیے طلب کیا جائے۔ کیونکہ انھوں نے ہی مارچ 2005 میں وفاق اور اکبر بگٹی میں مصالحت کے لیے کوششیں کیں۔

دونوں اسلام آباد اور راولپنڈی میں اندازِ فیصلہ سازی کے پرانے واقفانِ حال ہیں۔
عدالت نے ایک دھماکے سے پہاڑی غار منہدم ہونے کے نتیجے میں اکبر بگٹی اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت کا احوال جاننے کے لیے اس غار کے گرد موجود اور اکبر بگٹی سے آخری رابطے کی کوشش کرنے والے بھمبور رائفلز کے کمانڈر کرنل فرقان کو بھی گواہی دینے اور اس گواہی کی روشنی میں چین آف کمانڈ کے تعین کی زحمت کی یا نہیں؟ نمی دانم۔
پرویز مشرف نے ازخود وکیل اور عدالت کا منصب سنبھالتے ہوئے کہا کہ کیپٹن حماد ایک سو فیصد بےگناہ ہے
اکبر بگٹی کی ہلاکت 26 اگست 2006 کو ہوئی۔ وہ کوئی نامعلوم لاوارث آدمی نہیں تھے کہ ان کی موت کی ایف آئی آر درج نہ ہو۔ مگر تین برس بعد بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر اکتوبر 2009 میں ڈیرہ بگٹی کے تھانے میں ایف آئی آر درج ہو سکی۔

وہ بھی تب جب پرویز مشرف کو صدارت سے سبکدوش ہو کر بیرونِ ملک مقیم ہوئے سال بھر سے زیادہ ہو گیا۔
عدالت نے سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز، سابق گورنر اویس غنی اور سابق ڈی سی او عبدالصمد لاسی کو تو مسلسل غیر حاضری کی بنا پر مفرور قرار دے دیا لیکن پرویز مشرف کو ایک بار بھی اصالتاً عدالت میں پیش نہ ہونے کے باوجود بری کر دیا۔

کیا اب مفروروں کے ریڈ وارنٹ انٹرپول کو بھجوائیں جائیں گے؟
انصاف کی دوسری انتہا یہ ہے کہ جہاں سے اکبر بگٹی اور وفاق کا آخری جھگڑا شروع ہوا وہ فروری 2005 میں منظرِ عام پر آنے والا شازیہ خالد ریپ کیس تھا۔
اس سے پہلے کہ کیس کے مرکزی ملزم کیپٹن حماد کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوتا اور کوئی عدالت کیپٹن حماد کو بری کرتی، صدرِ پاکستان پرویز مشرف نے ازخود وکیل اور عدالت کا منصب سنبھالتے ہوئے کہا کہ کیپٹن حماد ایک سو فیصد بے گناہ ہے۔  اس قدر پر اعتماد تو عینی شاہد بھی نہیں ہوتے۔ 

جب بگٹیوں نے شازیہ خالد کو انصاف دلانے کے لئے آنکھیں ٹیڑھی کیں اور سوئی گیس تنصیبات کو نشانہ بنایا تو انھیں پرویز مشرف نے کہا کہ اگر یہ باز نہ آئے تو ایسی چیز ہٹ کرے گی کہ انھیں پتہ بھی نہیں چلےگا۔
خوفزدہ شازیہ اور ان کے شوہر کو طیارے میں سوار کروا کے لندن روانہ کر دیا گیا اور پھر اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے پرویز مشرف نے فرمایا کہ آج کل ریپ کا الزام لگا کر کینیڈا جیسے ممالک کی شہریت کے لیے درخواست دینا فیشن بن گیا ہے۔

جب غلغلہ مچا تو پرویز مشرف بیان سے ہی مکر گئے۔ وہ تو برا ہو اخبار واشنگٹن پوسٹ کا جس نے ان کے انٹرویو کی ریکارڈنگ جاری کر دی۔
اکبر بگٹی ایک روایتی سردار تھے۔ وہ وفاق ِ پاکستان کے ساتھ منسلک رہنے پر یقین رکھتے تھے مگر زندگی کے آخری برسوں میں وفاق پر سے ان کا ایمان اٹھ گیا۔

ان کی ہلاکت سے یہ پیغام دیا گیا کہ اگر پاکستان کا نائب وزیرِ دفاع،گورنر اور وزیرِ اعلی رہنے والا صفِ اول کا وفادار سردار بھی آخری عمر میں انصاف نہ ملنے پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر کسی رو رعائیت، حسنِ سلوک، مروت، افہام و تفہیم کا مستحق نہیں تو باقی حضرات خود سوچ لیں۔
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments