Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

قائداعظم

روئے زمین کی تاریخ کی تدریج اور تعمیر میں جغرافیائی ماحول کے بعد انسانی شخصیت نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ اس لیے کارلائل جیسے مفکر کے نزدیک تاریخ اور تہذیب حقیقتاً عظیم شخصیات کی تگ و دو اور ان کے تحقیقی جوہر کا نتیجہ ہیں۔ ایسی عظیم شخصیات جنھوں نے کہ دنیا کی تاریخ کے دھارے کو مثبت سمت موڑا، انھی میں ایک عظیم شخصیت قائداعظم محمد علی جناح کی بھی ہے کہ جن کی جہد مسلسل، خیالات و افکار، تحریکات و تخلیقات، سیاسی سوجھ بوجھ، عقل و فہم وفراست، سیاست، بصیرت اور ناقابل شکست صلاحیتوں کی بدولت مملکت خداداد پاکستان دنیا کے نقشے پر وجود میں آئی 

اور مسلمانوں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا اور ان کے گلے سے انگریزوں کے بعد ہندو سامراج کی غلامی کا طوق اترا اور انھیں اپنے عقائد اور دین اسلام کی روشنی میں آزادانہ زندگی بسر کرنے کا موقع ہاتھ آیا، اسے مسلمانان ہند کی خوش نصیبی ہی سمجھیے کہ انھیں قائداعظم محمد علی جناح جیسی عظیم ہستی ملی جوکہ اندھیرے میں روشنی کی کرن ثابت ہوئی جن کی تگ و دو اور مسلسل محنت و کوشش کی بدولت برصغیر میں وہ عظیم انقلاب رونما ہوا جس کی بنیاد دو قومی نظریہ و نظریہ پاکستان پر قائم تھی اور جس کی بدولت بالآخر مسلمان اپنا ایک علیحدہ وطن لینے میں کامیاب و کامران ہوئے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قائداعظم کی زندگی کے ہر لمحے میں ہماری قوم کے لیے قابل قدر مفید جواہر پارے پوشیدہ ہیں۔ مگر اس سے کہیں زیادہ قابل توجہ ان کے خیالات و افکار ہیں جو انھوں نے قوموں کی اجتماعی زندگی، مسلمانوں کے تہذیب و تمدن، آزادی و حریت اور موجودہ سیاسی کشمکش کے بارے میں ظاہر کیے ان کے تین فرمودات، ایمان، تنظیم اور یقین محکم، بلاشک و شبہ کسی بھی غیور اور ترقی پسند قوم کا مطمع نظر بن سکتے ہیں لیکن ان کی تمام تخلیقات میں افضل ترین تخلیق پاکستان ہے۔
آج ایک آزاد ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے فرد کی حیثیت سے ہم جس سکون اور اطمینان کا سانس لے رہے ہیں اور پرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں یہ سب قائداعظم کے انھی ناقابل شکست ارادوں کی کرشمہ سازی ہے، پس ایسے باعمل اور باکردار رہنما کی زندگی اور افکار ہمارے لیے، بالخصوص ہمارے نوجوانوں خصوصاً طلبا کے لیے مشعل راہ اور بہترین نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

بانی پاکستان محمد علی جناح بیسویں صدی کے اوائل میں میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ 1905 میں پہلی مرتبہ مدارس کے ایک رسالہ ’’انڈین ریویو‘‘ میں مسلمان کانگریسی کی حیثیت سے ان کا تذکرہ کیا گیا اور ان کی سیاسی حوصلہ مندی کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ 1913 میں محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی رکنیت بھی قبول کی لیکن کانگریس کی رکنیت سے مستعفی نہیں ہوئے۔ انھوں نے ہندو مسلم اتحاد اور کانگریس لیگی اتحاد کے لیے بے انتہا کوشش کی، جس کے نتیجے میں مسلم لیگ اور کانگریس کے اجلاس 1916 میں بیک وقت لکھنو میں منعقد ہوئے اور کانگریس و مسلم لیگ میں ایک معاہدہ ہوا، جسے میثاق لکھنو کہتے ہیں۔

    مسلم لیگ کے اجلاس میں کئی کانگریسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی مثلاً گاندھی جی، مدن موہن مالویہ وغیرہ اور اس طرح ہندو مسلم اتحاد کی فضا سازگار ہوگئی۔ اس جذبہ اتحاد کے تحت خلافت اور عدم تعاون کی تحریکیں ساتھ ساتھ چلائی گئیں، لیکن جب گاندھی جی نے یکایک تحریک کو ختم کردیا اور اس کے بعد ہندوؤں نے شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں شروع کیں تو مسلمانوں پر مصائب کا نزول شروع ہوا۔ محمد علی جناح نے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی، انھیں دلاسا اور مسلم لیگ کو ازسر نو منظم کرنے کا کام شروع کیا۔ جب سائمن کمیشن برصغیر آیا تو محمد علی جناح نے کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔

    جب نہرو رپورٹ مرتب ہوئی تو اس پر غوروخوض کرنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس کلکتہ میں 22 دسمبر کو منعقد ہوئی۔ محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ میں بہت سی ترمیمات پیش کیں، لیکن سوائے ایک کے سب رد کردی گئیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو تحفظ دلانے کی خاطر آل انڈیا مسلم لیگ کی میٹنگ بمقام دہلی مارچ 1929 میں منعقد کی گئی جس میں نہرو رپورٹ کو مسترد کردیا گیا اور مسٹر جناح کے 14 نکات کو مسلمانوں کے تحفظ کا ضامن قرار دیا گیا۔

    جب نیا گورنمنٹ ایکٹ نافذ ہوا تو اس کی رو سے مرکز میں فیڈریشن اور صوبوں میں خود اختیاری حکومت کا فارمولا طے پایا اور اسی ایکٹ کے تحت ہندوستان کے تمام صوبوں میں انتخابات ہوئے جس میں کانگریس کو اکثریت حاصل ہوئی۔ ان انتخابات سے کانگریسی رہنماؤں نے یہ اخذ کیا کہ کانگریس کے ساتھ ہندوستان کی تمام آبادی ہے اور کانگریس ہی ہندوستان کے تمام باشندگان نمایندگی کرتی ہے اور کانگریس ہی واحد سیاسی جماعت ہے جو انگریزوں کے بعد ہندوستان کی عنان حکومت سنبھال سکتی ہے۔ چنانچہ کانگریس کے لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بار اعلان کیا کہ ’’ ہندوستان میں صرف دو جماعتیں ہیں۔ ایک انگریز کی حکومت اور دوسری کانگریس۔ 

محمد علی جناح نے فوراً چیلنج کیا اور کہا کہ ’’ان دو جماعتوں کے علاوہ تیسری جماعت بھی ہے جو دس کروڑ مسلمانوں کی نمایندگی کرتی ہے اور وہ ہے مسلم لیگ۔ کانگریس مسلمانوں کی نمایندہ جماعت نہیں ہے۔ 

 قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں ایک اہم سال ہے۔ اس سال کے آغاز میں ’’الامان‘‘ دہلی کے مدیر مولانا مظہر الدین مرحوم نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے مسٹر جناح کے لیے ’’قائداعظم‘‘ کا لقب تجویز کیا۔

جنوری 1938 کو قائداعظم نے اپنے خطاب میں اہم ترین بات فرمائی کہ ’’جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کا جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو بہت سے لوگ بالخصوص ہمارے ہندو دوست ہمیں غلط سمجھتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں، حالانکہ یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔ اسلام ہمیں مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین، فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے۔ درحقیقت اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں، بلکہ ہمارے اسلامی ضابطہ کی بنیاد آزادی، عدل و مساوات اور اخوت ہے۔ 
  
مارچ1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے لاہور کے اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی۔ قرارداد پاکستان کی منظوری قائد اعظم کی بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی۔ قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد تحریک پاکستان اپنی منزل کی جانب تیزی سے گامزن ہوئی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی بالآخر 14 اگست 1947 کو اپنی منزل مقصود پر پہنچی اور مسلمان قائداعظم کی رہنمائی میں اپنے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل منتخب ہوئے۔

قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان تو حاصل کرلیا تاہم اس نوزائیدہ مملکت کو ہر چہار سو مشکلات کا سامنا تھا۔ لیکن قائداعظم نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ، حکمت و بصیرت اور ناقابل شکست صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان تمام تر مشکلات پر بخوبی قابو پالیا۔

قائداعظم محمد علی جناح پر جو وسیع ذمے داریاں عائد کی گئی تھیں ان کو وہ ہمت و استقلال کے ساتھ نبھاتے رہے، لیکن کام کی زیادتی اور انتھک محنت کے سبب ان کی صحت جواب دینے لگی اور بالآخر ہمارے قائداعظم 11 ستمبر 1948 کو رحلت فرما گئے۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

Post a Comment

0 Comments