Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کس میں کتنا ہے دَم ؟ بھارت اور پاکستان کی بری، بحری اور فضائی طاقت کا موازنہ

یہ13دسمبر 2001ء کی بات ہے کہ نامعلوم افراد نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں سات افراد مارے گئے۔بھارتی حکومت نے پاکستانی خفیہ عسکری تنظیم پر یہ حملہ کرانے کا الزام لگایا چناں چہ بدلہ لینے کی خاطر بھارت نے وسیع پیمانے پر اپنی افواج کو متحرک کر دیا۔ یوں ’’آپریشن پراکرم ‘‘ کا آغاز ہوا، تاہم بھارتیوں کے مقابلے میں پاکستانی افواج زیادہ چست و تیز ثابت ہوئیں۔ 

انہوں نے بہت جلد بھاری اسلحہ بین الاقوامی سرحدوں پر پہنچایا اور یوں دشمن پر برتری حاصل کر لی۔ بھارتی افواج کو سست رفتاری پر خاصی خفت اْٹھانا پڑی۔ اس تلخ تجربے کے بعد بھارتی افواج کو احساس ہوا کہ وہ کئی پیشہ وارانہ امور میں پاکستانیوں سے پیچھے ہیں۔ چناں چہ بھارتی افواج کو ہر لحاظ سے جدید ترین بنانے کے ایک بہت بڑے منصوبے کا آغاز ہوا جو ’’انڈین ملٹری ڈاکٹرِن‘‘ کہلاتا ہے۔ اس ڈاکٹرِن کے مطابق بھارت کو 2020ء تک دنیا کی ایک بڑی جنگی قوت بنانا مطلوب ہے۔
 یہی وجہ ہے‘ بھارت 2006ء سے دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدتا چلا آ رہا ہے۔ اس کاسالانہ جنگی بجٹ 47ارب ڈالر (4841ارب روپے) کی خطیر رقم تک پہنچ چکا ہے۔ بھارتی افواج دنیا بھر سے جدید ترین ٹینک‘ توپیں‘ لڑاکا طیارے‘ میزائل‘ طیارہ بردار جہاز‘ آبدوزیں وغیرہ خرید رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک بڑی جنگی قوت بن کر بھارتی حکومت کیا مقاصد پانا چاہتی ہے؟ بھارتی ملٹری ڈاکٹرِن کی رو سے بھارت کو اپنے تمام پڑوسیوں سے خطرہ ہے۔ اسی لیے پورے بھارت میں فوجی اڈے بنا کر بھارتی افواج کو پھیلایا جا رہا ہے۔
 ڈاکٹرِن کے مطابق بھارت کو سب سے زیادہ خطرہ پاکستان سے ہے،اسی باعث اکیسویں صدی کے اوائل ہی میں بھارتی عسکری ماہرین نے پاکستان پر حملہ کرنے کے سلسلے میں ’’کولڈ سٹارٹ اسٹریٹیجی‘‘ نامی فوجی نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کی رو سے بھارتی افواج کو اتنا سریع الحرکت اور طاقتور بنانا مقصود ہے کہ وہ 72گھنٹوں کے اندر اندر حملہ آور ہو کر پاکستان پر قبضہ کر لے۔ یہ حملہ اتنا اچانک ہو کہ پاکستانی قیادت فیصلہ نہ کر سکے کہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے ہیں یا نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانیوں نے جیسے تیسے ایٹم بم بنا کر قومی دفاع بہت مضبوط کر لیا۔ لیکن افواج پاکستان کو اتنا طاقتور رکھنا ضروری ہے کہ وہ روایتی جنگ میں دشمن کو منہ توڑ جواب دے سکے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر بنیادی وجہ نزاع ہے۔ چونکہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کو اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دیتی ہے‘ لہٰذا دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر نہیں آ پاتے۔ بین الاقوامی سرحد پر فریقین کے درمیان فائرنگ کا معمولی سا واقعہ بھی دونوں ملکوں میں زبردست تنائو پیدا کر ڈالتا ہے۔ 
دو بڑی عسکری قوتیں بھارت جنوبی ایشیا میں سب سے بڑا ملک ہے۔ اسی لیے وہ تعداد میں پڑوسیوں کی نسبت بہ لحاظ تعداد کہیں بڑی افواج رکھتا ہے۔ اگر حاضر و محفوظ (ریزرو) فوجیوں کو شامل کیا جائے‘ تو بھارتی بری فوج دنیا کی سب سے بڑی آرمی قرار پاتی ہے، تاہم پچھلے 63سالوں کے دوران ہر پاکستانی حکومت نے بھرپور کوششیں کی ہیں کہ پاکستانی افواج کو بھارتیوں کے ہم پلہ رکھا جائے۔ اس ضمن میں دونوں بڑی عسکری قوتوں کا تقابلی جائزہ پیش خدمت ہے: پاکستانی اور بھارتی بری فوج بھارت اس وقت قریباً11لاکھ 29ہزار حاضر سروس فوجی رکھتا ہے… جبکہ 9لاکھ 60ہزار فوجی محفوظ فوج کا حصہ ہیں۔ 

بھارت میں نیم فوجی دستے (پیراملٹری فورسز) تقریباً تیرہ لاکھ افراد پرمشتمل ہیں۔ ان دستوں میں حکومتوں کی سپیشل فورسز اور پولیس شامل ہے۔ بھارتی بری فوج نو کور (Corps)رکھتی ہے۔ بھارتی بری فوج کی ملکیت اہم روایتی اسلحے کی تعداد درج ذیل ہے:ٹینک 3569 ‘ بکتربند گاڑیاں 3569‘ توپیں 4000‘ ٹینک شکن میزائل ایک لاکھ اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل 7500۔ اب آئیے پاکستانی بری فوج کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ فوج 5لاکھ 50ہزار حاضر سروس فوجیوں اور 5لاکھ محفوظ فوج پر مشتمل ہے۔ 8کور رکھتی ہے۔ پاکستان میں نیم فوجی دستوں سے تقریباً ساڑھے چار لاکھ مرد و زن منسلک ہیں… واضح رہے‘ وطن عزیز کے شمالی علاقہ جات میں جاری شورش کی وجہ سے پاک فوج میں 7لاکھ 25ہزار فوجی متحرک ہیں۔ 
پاک فوج درج ذیل اہم روایتی اسلحہ رکھتی ہے:ٹینک 3000‘ بکتر بند گاڑیاں 2800‘ توپیں 3500‘ ٹینک شکن میزائل 36ہزار سے زائد اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل 5500۔ پاک فضائیہ بمقابلہ بھارتی فضائیہ بھارتی فضائیہ کا شمار دنیا کی بڑی ائیرفورسوں میں ہوتا ہے۔ سوا لاکھ سے زائد مرد و زن اس سے وابستہ ہیں۔ یہ کل 1370طیارے رکھتی ہے۔ سخوئی ایس یو۔ 30ایم کے آئی بھارتی فضائیہ کا جدید ترین ملٹی رول (کثیرکرداری) فائٹر طیارہ ہے۔ بھارت ایسے 170روسی ساختہ طیارے رکھتا ہے۔ مزید 272کا آرڈر دے رکھا ہے۔لڑاکا طیاروں میں جیگوار نمایاں ہیں۔ بھارتی فضائیہ میں ایسے 130طیارے شامل ہیں۔ بھارتی روسی ساختہ مگ سیریز کے لڑاکا (فائٹر) طیارے رکھتے ہیں۔ ان میں مگ۔29(66)‘ مگ۔27 (90) اور مگ۔ 21 (264) شامل ہیں۔ 

فرانسیسی ساختہ ملٹی رول طیارہ‘ دسولت میراج (51طیارے) بھی بھارتی فضائیہ میں شامل ہیں۔ ہال تیجاس ( Hall Tejas)کے نام سے بھارت مقامی طور پر بھی ایک لڑاکا طیارہ تیار کر رہا ہے۔ ایسے 79طیارے تیار کرنے کا منصوبہ ہے۔ مزیدبرآں بھارتیوں نے فرانس کے جدید ترین ملٹی رول طیارے‘ رافیل کا بھی 126کی تعداد میں آرڈر دے رکھا ہے۔ گویا فی الوقت بھارتی فضائیہ 779مختلف جنگی طیاروں پرمشتمل ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پاک فضائیہ کس مقام پر کھڑی ہے۔ پاک فضائیہ میں 65ہزار کل وقتی مرد و زن کام کرتے ہیں۔ جن میں سے دس ہزار بطور محفوظ فوج موجود ہیں۔

 ہوابازوں (پائلٹوں) کی تعداد تقریباً تیس ہزار ہے۔ جے ایف۔ 17 تھنڈر پاک فضائیہ کا جدید ترین طیارہ ہے۔ یہ ملٹی رول طیارہ چینی اور پاکستانی ماہرین نے مل کر تیار کیا ہے۔ پاک فضائیہ امسال ایسے ڈھائی سو تا تین سو طیارے خریدنا چاہتی ہے۔ فی الوقت 100جے ایف۔ 17تھنڈر پاک فضائی بیڑے کا حصہ بن چکے ہیں۔ دیگر جنگی طیارے یہ ہیں: 63ایف۔ سولہ فائٹنگ فالکن۔ یہ ایک عمدہ ملٹی رول طیارہ ہے۔ 157دسولت میراج۔ یہ بھی فرانسیسی ساختہ ملٹی رول جنگی جہاز ہے۔ 186چنگدو ایف۔ 7سکائی بولٹ۔ یہ چینی ساختہ لڑاکا طیارہ ہے۔ پاک فضائیہ امسال درج بالا پرانے جنگی طیاروں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ 

اس کی جگہ جے ایف۔ 17اور جے۔ 10اس کے مرکزی جنگی طیارے بن جائیں گے۔ جے10چینی ساختہ جدید ترین ملٹی رول طیارہ ہے۔ پاک بحریہ بمقابلہ بھارتی بحریہ بحیرہ ہند اور قریبی سمندروں میں چین کے بعد بھارت ہی کی بحریہ سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ 58ہزار سے زائد مرد و زن اس سے وابستہ ہیں۔ بھارتی بحریہ ایک طیارہ بردار جہاز‘ اندرون سمندر کھڑی ہونے والی گودی (Dock)‘ گائیڈڈ میزائلوں سے لیس 8 تباہ کن جہاز (ڈسٹرائر)‘ 15فریگیٹ‘ 1ایٹمی آبدوز‘ 140روایتی آبدوزیں‘ 24چھوٹے جنگی جہاز (corvettes)‘ 30گشتی جہاز‘ اور بارودی سرنگ شکن جہاز رکھتی ہے۔

 بھارتی حکومت تیزی سے بحری قوت بڑھانے میں مصروف ہے تاکہ بحرہند اور بحیرہ جنوبی چین میں چینی بحریہ کی زبردست طاقت کا مقابلہ کر سکے۔ دوسری جانب پاک بحریہ کسی قسم کے استعماری عزائم نہیں رکھتی۔ پاک بحریہ میں 25ہزار فوجی باقاعدہ ملازم ہیں۔ نیز وہ 5ہزار فوجیوں پر مشتمل محفوظ فوج بھی رکھتی ہے۔ پاک بحریہ کا جنگی بیڑا 5فریگیٹ جہازوں‘ 88 آبدوزوں‘ 12گشتی و حملہ آور جہازوں اور 3بارودی سرنگ شکن جہازوں پر مشتمل ہے۔ درج بالا اعداد و شمار دونوں ممالک کی مسلح افواج سے وابستہ ویب سائٹس اور وکی پیڈیا سے لیے گئے ہیں۔ یہ اوائل 2013ء تک اپ ڈیٹ سمجھے جاتے ہیں۔

 افواج کا تقابلی جائزہ وطن عزیز اپنے پڑوسی کے مقابلے میں چھوٹا ملک ہے۔ اسی لیے وہ افواج بھی بہ لحاظ تعداد کم رکھتا ہے۔ تاہم دونوںممالک کی بری فوجوں کے درمیان ایک بڑا فرق یہ ہے کہ پاک فوج امریکی و چینی ساختہ اسلحہ سے لیس ہے۔ اس کا بیشتر اسلحہ جدید اور معیاری ہے۔دوسری طرف آج بھی سوویت دور کا دقیانوسی و فرسودہ اسلحہ بھارتی بری فوج کے زیراستعمال ہے۔ یا پھر بھارت اپنا اسلحہ خود تیار کرتا ہے جو عالمی معیار کا نہیں ہوتا۔ چنانچہ فی الوقت پاک بری فوج بہ لحاظ معیاری اسلحہ پڑوسی پر برتری رکھتی ہے۔ 

گو عددی طور پر بھارت زیادہ طاقت ور ہے‘ لیکن تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد دونوںبری افواج ہم پلہ ٹھہرتی ہیںچونکہ بھارتی حکومت تمام پڑوسیوں کو دشمن سمجھتی ہے‘ لہٰذا اس نے ہر پڑوسی ملک کی سرحد کے نزدیک اسلحہ جمع کر رکھا ہے اور اسی واسطے بھارتی بری فوج نے پاکستان سے زیادہ ٹینک‘ توپیں‘ میزائل وغیرہ اکٹھے کر رکھے ہیں۔تاریخی اعتبار سے پاک فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کی نسبت اب تک بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ 

عدو کے مقابلے میں پاک بحریہ بہت چھوٹی ہے کیونکہ وطن عزیز کا ساحل سمندر بھی چھوٹا ہے۔ تاہم حکمت عملی‘ تیاری اور جنگی تربیت کے اعتبار سے پاک بحریہ کسی طرح کمتر نہیں۔ اس کا ہر فوجی جذبہ دفاع وطن سے سرشار ہے۔ کیا بھارت حملہ کرے گا؟ پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے بعد ہر بھارتی حکومت پاکستان سے تعلقات کی بابت ملے جلے سگنل دیتی آ رہی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو مضبوط و خوشحال ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی ہے… مگر شواہد موجود ہیں کہ بلوچستان اور خیبرپختون خواہ کے باغیوں کو بھارتی امداد حاصل ہے۔ کئی بھارتی عسکری ماہرین دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’انڈین ملٹری ڈاکٹرِن‘‘ کا کوئی وجود نہیں‘ کیونکہ بھارت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ اسے پاکستان سے بحیثیت ’’ناکام ریاست‘‘ زیادہ خطرہ ہے۔

 اس کے بجائے بھارت کا بڑا دشمن اب چین بن چکا ہے حتیٰ کہ 2009ء میں تب کے وزیردفاع‘ اے کے انطونی نے بھی چین ہی کو بھارت کا بنیادی حریف قرار دیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گو چین اور بھارت کے مابین تجارتی روابط بڑھ رہے ہیں‘ مگر ان کے درمیان سرحدی جھڑپیں بھی جاری رہتی ہیں۔ دیگر بھارتی ماہرین عسکریات کے مطابق مستقبل میں بھارت کو دوجہتی جنگ لڑنا پڑے گی… یعنی ایک طرف چین ہو گا اور دوسری جانب پاکستان۔ اسی لیے لائن آف کنٹرول (مقبوضہ کشمیر) اور لائن آف ایکچوئیل کنٹرول (ہماچل پردیش) میں گرما گرمی رہتی ہے۔ 

حرف آخر سن تنرو چین کا ایک مشہور جرنیل گزرا ہے۔ وہ ساری عمر جنگیں لڑتا رہا۔ جب بوڑھا ہوا‘ تو فلسفی بن گیا اور زندگی بھر کے تجربات اقوال کی صورت بیان کرنے لگا۔ اس کا قول ہے : ’’جنگ کوئی بھی ہو‘ وہ مکر و فریب ہے۔‘‘یہ حقیقت ہے کہ جنگ اقوام کو تباہ کر کے ہی چھوڑتی ہے۔ بدقسمتی سے حکمران بھارتی طبقہ جنگجویانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ اسی باعث وہ اسلحے کے انبار لگانے میں مصروف ہے۔ ہر سال اربوں روپے کا اسلحہ خریدا جاتا ہے۔

 دوسری طرف کروڑوں بھارتیوں کو دو وقت کی روٹی میسرنہیں اور وہ بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ حکمرانوں کی ایسی سنگ دلی اور شقادت قلبی کسی اور ملک میں نظر نہیں آتی۔بھارتی حکومت کی جنگجویانہ پالیسی کے باعث پاکستان بھی مجبور ہے کہ وہ جدید ترین اسلحہ خرید کر اپنا قومی دفاع مضبوط بنائے۔ دعا ہے کہ مستقبل میں بھارتیوں کو عوام دوست اور امن پسند رہنما ملیں جو برصغیر پاک و ہند کو پیار و محبت کا گہوارا بنا دیں۔ یونہی دونوں ملکوں کی بقا ممکن ہے‘ ورنہ ایٹمی جنگ کا خطرہ جنوبی ایشیا کو ارضی جہنم بنا سکتا ہے۔ 

کیپٹن جنید خان
 
بحوالہ: اُردو ڈائجسٹ 

Post a Comment

0 Comments