Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پیپلز پارٹی کو کرپشن پارٹی بنانے والے

پاکستان پیپلز پارٹی تبا ہ و برباد ہو چکی مگر اب بھی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کہتے ہیں کہ پارٹی کو مفاہمت کی پالیسی نے تباہ کیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو مفاہمت نے نہیں بلکہ کرپشن نے تباہ کیا۔ ایک زرداری سب پہ بھاری دراصل پیپلز پارٹی پر ہی بھاری ثابت ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی مفاہمت کی پالیسی کو اُن کے پانچ سالہ دور میں دیکھا تو اُس کا بھی مقصد کرپشن کو بچانا اور کرپٹ کا تحفظ کرنا۔ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ لوٹ مار کی وجہ سے ے الیکشن ہارے۔ کہتے ہیں کہ پی پی پی کو تو   نے ہرایا۔

گزشتہ انتخابات میں ایک وقت میں پاکستان کی سب سے مقبول ترین پی پی پی کا سندھ کے علاوہ تمام صوبوں سے نام و نشان مٹ گیا۔ پنجاب، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہ جیتی۔ لیکن سبق پھر بھی نہ حاصل کیا۔ سندھ میں حکومت ملی تو وہی لوٹ مار، وہی کرپشن، وہی اقرباپروری، حکومتی زمینوں کی کوڑیوں کے بھائو اپنے من پسند افراد کو فروخت، حکومتی سودوں میں وہی کمیشن وہی کک بیکس۔

 وزیر اعظم چن کر ایسوں کو بنایا جنہوں نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیئے اور دنیا کو یہ بھی سننا پڑا کہ پی پی پی دور کے وزیر اعظم نے ترکی صدر کی اہلیہ کی طرف سے سیلاب زدگان کے لیے دیا گیا اپنا شادی کاگلے کا ہار چپکے سے جیب میں ڈالا اور وزیر اعظم ہائوس سے سپریم کورٹ کی طرف سے نکالے جانے پر چپکے سے گھر لے گئے جیسے اپنا ذاتی مال ہو۔ جب پکڑے گئے نہ شرمندگی کا اظہار نہ ہی کوئی پشیمانی۔
پی پی پی کی طرف سے اور نہ ہی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی مذمت کی گئی۔ کرپشن پر خیر مذمت یا تادیبی کارروائی کا موجودہ پیپلز پارٹی میں کوئی رواج ہی نہیں۔ ہم نے تو دیکھا کہ کرپشن کے الزامات لگنے پر تو زرداری صاحب نے لوگوں کو ترقیاں دیں۔ یوسف رضا گیلانی جب مبینہ کرپشن اور خراب طرز حکمرانی کے ریکارڈ قائم کرنے پر سپریم کورٹ کے حکم پر گھر بھجوایا گیا تو راجہ پرویز اشرف کو وزر اعظم بنایا گیا باوجود اس کے کہ اُس وقت بجلی کے شعبہ میں مبینہ بدعنوانی کے میگا اسکینڈل کی وجہ سے اُن کا نام راجہ رینٹل پڑ چکا تھا۔ 2008ء کے الیکشن کے نتیجہ میں جب پی پی پی کی حکومت قائم ہوئی تو آصف علی زرداری صاحب نے جو پہلی تین اہم ترین تعیناتیاں کیں وہ تینوں ایسے سابق اعلیٰ افسران تھے جن کو کرپشن کے مقدمات کی وجہ سے 1998-99ء میں ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ تینوں افسران کو گزشتہ پی پی پی دور میں اہم ترین عہدے پیش کئے گئے باوجود اس کے کہ انہیں سرکاری نوکریوں سے نکالنے کے ساتھ ساتھ عدالتی سزائیں بھی دی جا چکی تھی۔ ماضی سے سیکھنے کی بجائے پی پی پی کے گزشتہ دور میں کرپشن کو مزید فروغ دینے کے لیے نیب اور ایف آئی اے کو بھی لوٹ مار کرنے والوں کی مدد کے لیے استعمال کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کی اصل بیماری کا پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کے علاوہ سب کو ادراک ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب سندھ حکومت کی کرپشن کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کوئی ایکشن لیتی ہے تو کہا جاتا کہ وفاق صوبائی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ عجیب ذہنیت ہے۔ یعنی خود بھی کرپشن ختم نہیں کرنی نہ ہی کسی دوسرے کو کرپشن کے خلاف اقدامات اٹھانے کی اجازت دینی ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے جس میں کرپشن کے خلاف اقدامات پر جنگ لڑنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن اپنے آپ کو سدھارنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔

 اس وقت جو رویہ پیپلز پارٹی نے روا رکھا ہوا ہے اگر اسے تبدیل نہ کیا گیا تو باقی پاکستان کے طرح سندھ میں بھی بھٹو کی پارٹی کو زوال کا سامنا ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری کو ایک بار پھر فعال کر کے پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلاول بھٹو نے سندھ سے نکل کر پنجاب اور اسلام آباد کا رخ اختیار کر لیا ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ پی پی پی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو بلاول کی وجہ سے دوبارہ حاصل کر لے گی۔

اگر کا مقصد لوگوں کو بھٹو اور بے نظیر کے نام اور بلاول کے ذریعے دھوکہ دینے کی کوشش ہے تو اس سب سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ پیپلز پارٹی کو اگر دوبارہ اُس کی کھوئی ہوئی مقبولیت کو حاصل کرنا ہے تو سندھ میں جاری کرپشن اور لوٹ مارکے خلاف بلاول بھٹو کو خود ایکشن لینا پڑے گا۔ بدعنوان اور نااہل وزیروں کی چھٹی کرنے پڑے گی اور سندھ میں ایک ایسی کابینہ کو ذمہ داریاں سونپنی پڑیں گی جو ایمانداری کے ساتھ رات دن ایک کر کے عوام کی خدمت کریں اور سندھ کو دوسرے صوبوں میں رہنے والوں کے لیے ایک مثال بنا کر پیش کریں۔ اس سلسلے میں بلاول کو اپنے والد کی سیاست کو خیر آباد کہنا ہو گا 
    
ابھی تک تو بلاول کی طرف سے ایسے کوئی اشارے نہیں ملے۔ آج بھی بلاول کے ارد گرد ایسے  موجود ہیں جنہوں نے اس پارٹی اور سیاست کو اپنا مال بنانے کے لیےہی استعمال کیا۔ مجھے ذاتی طور پر بلاول بھٹو زرداری سے کوئی زیادہ امیدیں نہیں لیکن میرے لیے یہ خوشگوار تعجب ہو گا اگر پی پی پی چئیرمین اپنی سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی کی صفائی سے شروع کریںجس کے بغیر اس پارٹی کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ اصل چیلنج پی پی پی اور کرپشن کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ہے۔
 
انصار عباسی

بشکریہ روزنامہ جنگ 

Post a Comment

0 Comments