Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اکیسویں صدی عیسوی کا غلام داری نظام

برطانوی نشریاتی ادارے ’’بی بی سی‘‘ نے اکتوبر 2013ء میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا میں اس وقت بھی تقریباً تین کروڑ انسان باقاعدہ غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں جن میں سے ایک کروڑ چالیس لاکھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک ہندوستان میں سانس لے رہے ہیں۔ نسل انسانی اپنے ارتقائی مراحل میں غلام داری نظام سے گزر چکی ہے اس غلام داری نظام کے دوران دیوار چین سے اہرام مصر تک کے عجائبات زمانہ تعمیر کئے گئے اس نظام کے پیداواری شعبہ کا مقصد انسانی ضروریات کے مطابق پیداوار حاصل کرنا تھا آج کے ہوس زر کے دور کی طرح زیادہ سے زیادہ نفع کمانا نہیں تھا۔

یہ پیداواری ضروریات امیر طبقے اور حکمرانوں کے لئے مختلف ضرور ہوتی تھیں لیکن ضروریات سے زیادہ وافر مقدار میں نہیں ہوتی تھیں۔ غلام داری کا یہ نظام لا تعداد انقلابی تحریکوں کے ذریعے قانونی طریقے سے ختم ہوا۔ آج عالمی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ غلام داری ختم ہو چکی ہے اور دنیا جمہوری طریقوں اور بنیادی تقاضوں کے تحت استوار ہو چکی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا۔ غلام داری نظام بیشتر باقیات پیداواری شعبہ میں اب بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ غلام داری نظام سے نجات حاصل کرنے کے باوصف انسان غلامی کی بیڑیوں سے آزادی حاصل نہیں کر سکا۔ آج کے دور میں کرئہ ارض پر موجود سات ارب انسانوں کی غالب اکثریت سرمائے کی جکڑ بندیوں میں الجھی ہوئی ہے اس کے ساتھ ہی ہمیں ایسے انسان بھی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں جن کی زندگیاں غلام کی زندگیوں سے مختلف اور بہتر نہیں ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی زندگی موت سے بدتر ہے۔
وطن عزیز میں اگر ہم بھٹہ مزدوروں کی زندگی کے اندر جھانکنے کی ہمت کریں تو وہ غلاموں کی سی زندگی سے بہتر دکھائی نہیں دے گی۔ نسل در نسل جبری مشقت اور بیگار کی مزدوری میں جکڑے ہوئے لوگوں کو ہم غلاموں سے بہتر کیسے شمار کر سکتے ہیں۔ صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہو گا مگر واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ چین ہندوستان، پاکستان، نائیجریا اور بہت سے دوسرے ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں آزاد غلام موجود ہیں جو کہنے کو آزاد ہیں مگر عملی طور پر غلام ہیں۔ چین میں تیس لاکھ، پاکستان میں سات لاکھ ہندوستان میں ڈیڑھ کروڑ، نائجریا سات لاکھ لوگ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان ملکوں میں ایتھوپیا، روس، تھائی لینڈ، کانگو برما اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔

امریکی نظریاتی ادارہ ’’سی این این‘‘ کی اکیس جولائی 2015ء کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ قدیم زمانہ میں افریقہ کے سیاہ فام غلاموں کی تجارت کرنے والا امریکہ آج بھی انسانی سمگلنگ کے ڈیڑھ سو ارب ڈالروں کے کاروبار میں ملوث ہے۔ اس رپورٹ کا عنوان تھا ’’جنسی مقاصد کے لئے انسانی سمگلنگ امریکہ کی نئی غلامی‘‘ ایک اور اندازے کے مطابق انسانی سمگلنگ کے ذریعے غلام بنائے جانے والے تین کروڑ انسانوں میں 78 فیصد جبری مشقت کی ذلت میں دھکیل دیئے جاتے ہیں جو غلامی کی بدترین شکل ہے اور انسانی ترقی کے دور کی اکیسویں صدی عیسوی کو شرمانے کا موقع دے رہی ہے 
مگر یہ حقیقت اس سے بھی زیادہ غارت گرے ناموس ہے کہ سمگل ہونے والے تین کروڑ انسانوں میں سے 78 فیصد اگر جبری مشقت کے بیگار کیمپوں میں جاتے ہیں تو باقی بائیس فیصد جنسی مقاصد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں غلاموں کی اکثریت جنگوں کے مفتوحہ علاقوں سے آتی تھی لیکن آج بغیر جنگوں کے ہی شکست خوردہ ملکوں اور معیشتوں سے کروڑوں لوگ غلام بن کر امیر اور ترقی یافتہ معیشتوں میں غلاموں کی سی زندگی گزارنے کی کوششوں میں بے قرار پائے جاتے ہیں۔ -

منو بھائی
بشکریہ روزنامہ "جنگ

Post a Comment

0 Comments