Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جدید نظام تعلیم، جعلی ڈگریاں اور کارپوریٹ اخلاقیات

دنیا بھر میں رائج جدید نظام تعلیم جسے مغربی تہذیب کی سب سے بڑی کامیابی تصور کیا جاتا ہے، اس کا کمال یہ ہے اس نے طالب علم کا رشتہ استاد سے صرف علم کی ترسیل تک محدود کر دیا ہے جب کہ اس ساری تعلیم کا دار و مدار کمرہ امتحان، سوالنامہ، قابلیت اور اہلیت ناپنے کے پیمانے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی ڈگری کو علم کی معراج تصور کیا جاتا ہے۔ اس ڈگری کی قدر و قیمت بھی کسی طالب علم کے علمی مرتبے کی اس وقت تک پہچان نہیں بنتی جب تک اس ڈگری کو مارکیٹ میں سرمائے میں تولا نہ جائے۔

 ڈگری کی اہمیت اور قدر و منزلت سرمائے سے منسلک ہے۔ آپ انسانی معاشرت، ادبی تاریخ، مابعد الطبیعاتی فلسفہ جیسے اعلیٰ موضوعات پر بہترین یونیورسٹیوں سے ڈگری لے کر آ جائیں، دنیا بھر میں جوتیاں چٹخاتے پھریں گے، جب کہ اس کے مقابلے میں مارکیٹنگ جیسے سطحی مضمون میں معمولی سا ڈپلومہ بھی آپ کو لکھ پتی بنا سکتا ہے۔
دنیا کی تاریخ میں بیس سے زیادہ تہذیبوں نے اپنے نظام تعلیم بنا کر رائج کیے۔ ان سب میں علم کا مقصد بنیادی طور پر علم کا حصول تھا اور ایک استاد اس بات کا اعلان کرتا تھا کہ میں نے اپنے اس شاگرد کو مکمل علم سکھا دیا ہے اور اب یہ اس سے انسانیت کو فیضیاب کر سکتا ہے۔ دنیا میں کسی بھی تہذیب کے مدرسوں میں پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن کی جنگیں طلبا کے اعصاب پر سوار نہیں کی جاتی تھیں۔ استاد، شاگرد اور تعلیمی ادارے کا تعلق آخری عمر تک قائم رہتا۔ جدید مغربی نظام تعلیم سے قبل دنیا کی تمام بڑی بڑی ایجادات، تصنیفات اور علمی موضوعات پر کام تعلیمی اداروں میں ہوا۔

 لیکن جدید مغربی نظام تعلیم نے کاغذ کے اس ٹکڑے جسے ڈگری، ڈپلوما یا سرٹیفکیٹ کہتے ہیں، اس کے حصول کے بعد طالب علم کو مارکیٹ کے کھلے سمندر میں پھینک دیا گیا جہاں وہ اپنے حاصل کیے گئے علم کو مارکیٹ کی اخلاقیات کے تابع کر کے استعمال کرتا ہے۔

مارکیٹ کا تعلق بھی کسی تعلیمی ادارے سے نہیں بلکہ ڈگری، ڈپلوما اور سرٹیفکیٹ تک محدود ہے اور ان ڈگریوں کی اصل کو جانچنے کے لیے بھی ایک ادارہ یا کئی ادارے موجود ہیں جو کسی استاد سے یہ سوال نہیں کرتے کہ تمہارا یہ شاگرد علمی استعداد میں کیسا تھا بلکہ ڈگری پر لگی مہر، دستخط اور ریکارڈ کے درست ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ ہے جدید نظام تعلیم کا شاندار خوبصورت کاغذ جسے ڈگری کہتے ہیں اور ان کے گرد گھومتا ہے جدید تصورِ علم، ڈگریوں کی مارکیٹ میں کھپت اور قیمت اور اس پر مبنی جدید معاشرہ۔

چونکہ پوری دنیا کا کارپوریٹ کلچر اپنی بددیانتی، بے ایمانی، دھوکے اور فراڈ کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، اس لیے یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کے تعلیمی نظام میں کام کرنے والے دیانت اور ایمانداری کے پرتو ہوں۔ اسی لیے جہاں دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا ہے جو تعلیم کے بعد ڈگریاں دیتی ہیں وہیں ان سے کہیں زیادہ ایسے ادارے موجود ہیں جو جعلی ڈگریاں بناتے اور بیچتے ہیں۔ امریکا میں انھیں ’’ڈپلوما ملز Diploma Mills‘‘ کہا جاتا ہے۔ چونکہ بددیانت کارپوریٹ معاشرے کو ان جعلی ڈگریوں کی ضرورت ہے، اس لیے امریکا میں ایجوکیشن ایکٹ 1965ء کے تحت اعلیٰ تعلیم کو دیکھنے، جانچ پڑتال کرنے، اداروں کے معیار کو پرکھنے کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا میں جعلی ڈگری بیچنے والی یونیورسٹیوں کا بازار لگا ہوا ہے۔ جنوری 2010ء میں سی این این نے جارج گولن George Gollin کا تفصیلی انٹرویو کیا۔ یہ شخص امریکا کی ہائر ایجوکیشنل کونسل کا رکن ہے۔

اس نے کہا کہ امریکا میں ہر سال ایک لاکھ جعلی ڈگریاں بیچی جاتی ہیں جن میں سے 35 ہزار کے قریب ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں ہوتی ہیں۔ جعلی ڈگری بنانا اور بیچنا اسقدر آسان ہے کہ آپ کو صرف ایک ویب سائٹ بنانا ہوتی ہے، جہاں ایسے ڈپلوما اور ڈگریاں بنا کر بیچے جا سکیں، جن پر اصل کا گمان ہو اور ایسی یونیورسٹیاں کاغذی طور پر تخلیق کی جائیں جو اصلی معلوم ہوں۔ ان ڈگریوں کے خریدار ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ نوکری لینے والے، نوکری میں پروموشن لینے والے، دوستوں پر رعب ڈالنے والے، سیاست میں الیکشن لڑنے کے لیے اپنا پروفائل بہتر بنانے والے۔ گولن نے “Saint Rigis” کی مثال دی جس نے نو ہزار چھ سو ڈگریاں بیچ کر سات ملین ڈالر کمائے۔ اس نے مثال دی کہ ایک امریکی نے نیوکلئر انجینئرنگ کی ڈگری ایسے ہی ایک ادارے سے حاصل کی اور وہ اب ایک نیو کلئر پلانٹ کے کنٹرول روم میں کام کر رہا ہے۔

اس وقت امریکا میں چار سو ڈپلوما ملز کام کر رہی ہیں اور تین سو جعلی ڈگری بنانے والی ویب سائٹس آزادانہ اپنا کاروبار کر رہی ہیں۔ یہ کاروبار پانچ سو ملین ڈالر پر محیط ہے۔ اسی طرح یورپ کے جعلی تعلیمی ادارے اور ویب سائٹس 50 ملین ڈالر لے کر ہر سال 15 ہزار افراد کو تعلیمی اسناد دیتی ہیں۔ دنیا کے ہر شعبہ میں اور ہر بڑے ملک میں یہ جعلی ڈگری کے حامل کام کر رہے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر بھی ہیں اور انجینئر بھی، نفسیات دان بھی اور سائنس دان بھی۔ ایسے ڈپلوما اور ڈگری بیچنے والوں پر جب مقدمہ چلا تو ان کے دلائل اس پورے موجودہ نظام تعلیم کارپوریٹ معاشرے کی ہنسی اڑا رہے تھے۔ ان کے وکیلوں نے کہا ’’ہم نے کبھی کسی یونیورسٹی ڈگری کی نقل نہیں بنائی یہ الگ بات ہے کہ ہماری ڈگریاں اصل سے ملتی جلتی ہیں، ہم نے کسی کے جعلی دستخط نہیں بنائے، ہمارے اپنے دستخط کرنے والے ہیں۔ ہمارے پاس چار لاکھ ایسے ڈیزائن ہیں جو اصلی ڈگریوں سے بھی زیادہ خوبصورت اور جاذب نظر ہیں‘‘۔

امریکا کا 1980ء کا “Dipscam” آج بھی جعلی ڈگریوں کا سب سے بڑا سکینڈل تصور کیا جاتا ہے۔ اسی زمانے میں امریکا کی ریاست وائمنگ “Wyoming” ان ڈپلوما ملز کی آماجگاہ تھی۔ اسی دور میں ٹیکساس کے ایک سرکاری وکیل نے اپنی بلی کولبی نولن “Colby Nolan” کے لیے ایسی ہی ایک یونیورسٹی ٹرنٹی ساوتھرن یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس بلی نے بی اے کی ڈگری کے لیے درخواست جمع کروائی لیکن یونیورسٹی نے اس کی اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر اسے ایم بی اے کی ڈگری دے دی۔ 2004ء میں امریکا کی ہوم لینڈ سیکیورٹی کی رکن لارا کولاہان Laura Collahan سے استعفے لے لیا گیا، کیونکہ اس کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایسی ہی ایک جعلی یونیورسٹی ’’ہملٹن یونیورسٹی،، سے تھی جب کہ اصل یونیورسٹی کا نام اس سے ملتا جلتا ’’ہملٹن کالج،، تھا۔ 1980ء سے لے کر آج تک ان ڈپلوما ملز کا دھندا پورے یورپ اور امریکا میں چل رہا ہے۔

وہ امریکا اور یورپ جو شک کی بنیاد پر لوگوں کو سالوں قید میں ڈال دیتا ہے۔ جعلی کرنسی، جعلی ویزوں اور جعلی پاسپورٹ پر بدترین سزائیں دیتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ایسے قانون بناتا ہے کہ عام آدمی کا بھی جینا مشکل ہو جائے وہاں ایسی ویب سائٹس اور ایسی یونیورسٹیوں کو کیوں چلنے دیا جاتا ہے، ان کے لیے سخت قانون کیوں نہیں بنائے جاتے۔ اس لیے کہ یہ جعلی ڈگریاں اور ڈپلومے نوے فیصد سے زیادہ امریکی اور یورپی حاصل کرتے ہیں اور پھر جب امریکی اور یورپی کمپنیاں افریقہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید میں کام کرنے آتی ہیں تو اپنے ساتھ ایسے ہی جعلی ڈگری اور ڈپلوما والے افراد کو لے کر آتی ہیں۔ اصل ڈگری والے امریکا اور یورپ میں کام کریں گے اور جعلی ڈگری والے ایشیا اور افریقہ میں۔ یہ ہے معیار۔ جنوری 1997ء میں ایشیائی ترقیاتی بینک ہیڈ کوارٹر منیلا میں مجھے بحیثیت ایم ڈی واسا بلوچستان کے لیے ایک اعلیٰ سطح کے “Contract Negociation” میں جانے کا اتفاق ہوا۔
یہ کوئٹہ میں پانی اور سیوریج کے لیے ایک کنسلٹنٹ مقرر کرنے کے لیے میٹنگ تھی۔

 یہ میٹنگ سات روز تک چلنا تھی لیکن وہ امریکی فرم جس کے ساتھ معاہدہ ہونا تھا اس کے نمایندے نے دو روز بعد کی ٹکٹ بک کروائی ہوئی تھی۔ میں نے حیران ہو کر بینک کے ڈائریکٹر سے سوال کیا، اس نے ایسا کیوں ہے۔ کہنے لگا آپ آج ہی دستخط کر دو اور باقی چھ دن عیاشی کرو، سب پاکستانی ایسا ہی کرتے ہیں۔ میں نے انکار کیا اور فرم سے اس کے اسٹاف کے پروفائل مانگ لیے جنہوں نے پاکستان میں کام کرنا تھا۔ تین دن کمپیوٹر پر بیٹھنے کے بعد مجھے علم ہوا کہ ان میں نوے فیصد اسی طرح کی جعلی ڈگریوں والے ہیں۔ پانچویں روز جب میں نے اس امریکی فرم کے نمایندے کے سامنے یہ سارا کچا چٹھا رکھا تو اس کا فقرہ تھا۔
“It is commercial suicide working with this man” (اس شخص کے ساتھ کام کرنا تجارتی خود کشی ہے) اور یہ کہتا ہوا میٹنگ چھوڑ کر چلا گیا۔ میں ناکام واپس آیا، لیکن ایک کامیابی تھی کہ میرا ملک ایک بدترین قرض سے بچ گیا۔ 

ان جعلی ڈگریوں اور ڈپلوموں کی کھپت ہمارے جیسے ملکوں میں ہے اور اس کو خریدنے والے امریکی اور یورپی شہری ہیں۔ کس قدر بودا اور ناکارہ ہے یہ نظام تعلیم جو علم کو پہلے کاغذ کے خوبصورت ٹکڑے سے ناپتا ہے اور پھر مارکیٹ میں اس کی قیمت کے مطابق اس کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔ انسانی تہذیب و تاریخ میں اس سے بدترین نظام تعلیم بھی کبھی رائج رہا ہے؟

اوریا مقبول جان

Post a Comment

0 Comments