Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاکستان کی شان بلوچستان.....


بلوچستان پاکستان بننے سے پہلے پسماندگی، حسرت و یاس اور بے بسی کی تصویر تھا۔ نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے اس علاقے کے وسائل مقامی سرداروں کی مدد سے بری طرح لوٹے۔چنانچہ تحریکِ پاکستان چلی تو بلوچستان کا ہر مرد و زن مسلم لیگی جھنڈے تلے آ گیا اور خان آف قلات نے قائداعظم ؒ سے دست بستہ عرض کی کہ ہمیں بھی پاکستان میں شمولیت کا اعزاز بخشا جائے۔وہ دن اور آج کا دن، ہر بلوچ سب پاکستانیوں سے بڑھ کے پاکستانی ہے۔ ناشکرے بنگال کے برعکس بلوچستان نے اپنی پوری زمین مع معدنی و بحری وسائل وفاقی حکومت کو یہ کہہ کر بخش دیے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ خدانخواستہ مملکتِ خداداد کو کچھ ہوگیا تو ہمارے وسائل اور قدرتی دولت ہمارے بھی کس کام کی؟

چنانچہ لیاقت علی خان سے نواز شریف اور ایوب خان سے پرویز مشرف تک سب نے بلوچستان کو سر کا تاج سمجھا۔ پچھلے 68 برس کے دوران مواصلاتی جال نے ہر بلوچ گاؤں کی قسمت پلٹ دی۔ چٹیل پہاڑ پر بھی کسی بلوچ کا گھر تھا تو اخراجات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہاں تک گیس، پانی، بجلی اور سڑک پہنچائی گئی۔ ہر ضلع میں بی اے تک تعلیم مفت اور لازمی قرار پائی۔یہ واحد صوبہ ہے جہاں اگر والدین اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجیں تو انہیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ پرائمری تعلیم قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی بلوچی اور پشتو میں دی جاتی ہے جبکہ کالج کے 50 فیصد طلبا کو پانچ تا 12 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی ملتا ہے۔

یوں بلوچستان میں خواندگی کا تناسب راتوں رات 15 سے بڑھ کے ستانوے اعشاریہ اکیس فیصد تک پہنچ گیا۔ جو باقی پاکستان سے تقریباً 42 فیصد زیادہ ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں میں تو بے روزگاری کا تناسب 15 سے بیس فیصد بتایا جاتا ہے مگر بلوچستان میں محض ڈھائی فیصد نوجوان بے روزگار ہیں اور ان میں سے بھی پونے دو فیصد وہ ہیں جو نوکری کرنا ہی نہیں چاہتے۔اسی طرح بلوچستان میں صحت کا نظام بھی مثالی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات باقی پاکستان کے مقابلے میں50 فیصد کم ہے۔ توقع ہے کہ اگلے پانچ برس میں یہ شرح 25 فیصد ہو جائے گی۔ صوبائی حکومت نے سن 2004 سے ہر خاندان کو ہیلتھ انشورنس کارڈ جاری کرنا شروع کیا جس کے سبب دل و دماغ تک کا آپریشن بھی مفت ہے۔

البتہ ڈینٹل سرجری تاحال انشورڈ نہیں۔ مثالی صحت کے اقدامات کے سبب آج بلوچستان کے عوام کی اوسط عمر بقیہ پاکستانیوں کی اوسط عمر سے 15 برس زیادہ ہے۔ پاکستانیوں کی اوسط سالانہ آمدنی 4500 ڈالر فی کس ہے لیکن بلوچستان میں فی کس آمدنی 25000 ڈالر ہے۔ کیونکہ وفاقی حکومت بلوچستان کو معدنی دولت کی رائلٹی کی مد میں ڈھائی تا تین ارب ڈالر ہر وفاقی بجٹ سے پہلے پہلے باقاعدگی سے ادا کرتی ہے۔

صوبے میں مثالی امن و امان کا سہرا پاک فوج، ایف سی اور آئی ایس آئی کے سر جاتا ہے۔ تینوں اداروں میں نوکری کا حصول ہر پڑھے لکھے بلوچ کا خواب ہے۔اہلِ بلوچستان کو بہت کم غصہ آتا ہے۔ لیکن اگر کوئی فوج، ایف سی یا آئی ایس ائی کو برا بھلا کہے تو ایک بلوچ کی غیرت کبھی برداشت نہیں کرپاتی اور ایسے ناہنجار کا فوراً سماجی بائیکاٹ کرکے اسے علاقہ بدر کردیا جاتا ہے۔ بی ایل ایف سمیت بہت سی بلوچ فلاحی تنظیمیں اور محبِ وطن حساس ادارے اپنی اپنی سطح پر اقدامات کرتے ہوئے ایک دوسرے کا مسلسل ہاتھ بٹاتے ہیں۔

بلوچستان میں بھی پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح کبھی کبھار فرقہ وارانہ کشیدگی سر اٹھاتی ہے مگر یہاں کبھی شیعہ سنی یا ذکری نمازی جھگڑا پرتشدد شکل اختیار کرنے لگے تو لشکرِ جھنگوی اور شیعہ مجلسِ وحدت المسلمین جیسی سماجی تنظیموں کے رضاکار کشیدہ علاقوں میں مشترکہ گشت کرتے ہیں۔ یوں شرپسند بیرونی عناصر کے عزائم ہر بار خاک میں مل جاتے ہیں۔دس سال پہلے تک بلوچستان کا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا انتہائی پسماندہ تھا۔ لیکن آج یہ میڈیا بلاشبہ بدتمیزی کی حد تک بے باک ہے۔ دیگر صوبوں میں صحافیوں کو جس طرح اپنی جان جوکھم میں ڈال کر کام کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان کے کسی بھی صحافی کو الحمداللہ ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔وہ خبر کی تلاش میں کسی بھی جیل، بیرک یا دفتر میں جب چاہے شناخت کروا کے بے دھڑک داخل ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات اس آزادی کا بے جا استعمال بھی ہوتا ہے مگر ہر حساس و غیر حساس ادارہ عدلیہ کو جوابدہی کے خوف سے آزادیِ اظہار کے آئینی حق کا مکمل احترام کرتا ہے۔

مثالی ترقی و آزادی کے اس بلوچ ماڈل کو سندھ، خیبر پختون خواہ اور پنجاب وغیرہ میں انتہائی رشک سے دیکھا جاتا ہے۔ اور کیوں نہ دیکھا جائے ،اگر فردوس بر روئے زمیں است، بلوچستان است، بلوچستان است، بلوچستان است۔۔۔پاکستانی درس گاہیں بشمول لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور قومی ذرائع ابلاغ اگر مندرجہ بالا طرز پے بلوچستان کے حالات کا تجزیہ فرماویں تو نہ کسی محبِ وطن حساس ادارے کی کبھی دل شکنی ہو اور نہ ہی پاکستان بدنام ہو۔ پاکستان زندہ باد۔

وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments